ColumnRoshan Lal

قرار داد لاہور سے قرارداد پاکستان تک

تحریر : روشن لعل

23 مارچ 1940ء کو منظور ہونے والی قرارداد لاہور کو بعد ازاں قرارداد پاکستان کا نام دے دیا گیا۔ اس قرارداد اب ہر سال اسی نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ قرارداد لاہور کا نام تبدیل کر کے اسے قیام پاکستان کی بنیاد تو قرار دے دیا گیا مگر اس کے اصل متن کے ذریعے ملک کی اکائیوں میں بسنے والے لوگوں کو جو پیغام دیا گیا تھا اسے کبھی اہمیت نہیں دی گئی۔ قیام پاکستان کے بعد قرارداد لاہور یا پاکستان کے جن حصوں کو نظر انداز کیا گیا انہیں بیان کرنے سے پہلے ان حالات کا مختصراً ذکر کیا جارہا ہے جن کی وجہ سے برصغیر کی سیاست مذہبی بنیادوں پر استوار ہو کر ہندوستان کی تقسیم کے مطالبے تک جا پہنچی۔
متحدہ ہندوستان کے سیاسی منظر نامے پر مہاتما گاندھی کے نمودار ہونے سے پہلے محمد علی جناحؒ ( قائد اعظم) اپنا نام پیدا کر چکے تھے اور ان کی وجہ شہرت ہندو مسلم اتحاد کا داعی ہونا تھا۔ قائد اعظم کی یہ شہرت 1925ء تک قائم رہی مگر بعد ازاں وہ صرف ہندوستانی مسلمانوں کے لیڈر بن کر رہ گئے۔ اس کے بعد صرف مسلمانوں کے رہنما کے طور پر قائداعظم نے پہلے تجاویز دہلی اور پھر 14نکات پیش کیے جن میں مسلمانوں کے لیے آبادی کے تناسب سے الگ نشستوں پر انتخابات کو بنیادی مطالبہ بنا کر پیش کیا گیا۔ کانگریسی لیڈروں نے پہلے تو جداگانہ طرز انتخاب کے مطالبے کی مخالفت کی مگر انگریزوں کی طرف سے تسلیم کیے جانے کے بعد کانگریس نے مسلم لیگ کے مطالبے پر طے کیے طریقہ کے تحت 1937ء کے انتخابات میں حصہ لیا۔ 1937ء کے انتخاب میں کانگریس نے ایک سیکولر جماعت ہونے کے دعوے کے ساتھ ہر مذہب کے لیے مختص نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے جبکہ مسلم لیگ نے صرف مخصوص مسلم نشستوں پر انتخابات میں حصہ لیا۔ مسلم لیگ کی طرح ہندوئوں کی ایک جماعت ہندو مہاسبھا نے بھی صرف ہندوئوں کے لیے علیحدہ نشستوں پر الیکشن لڑا۔ اس جماعت کی انتخابی مہم کی نمایاں بات ہندوئوں کے لیے پیغام تھا کہ وہ کانگریس کی بجائے صرف ہندو مہا سبھا کو اپنی نمائندہ جماعت سمجھیں۔ ہندو مہا سبھا کی ان باتوں کے توڑ کے طور پر کانگریس نے سیکولر ازم کا نعرہ لگانے کے باوجود ایسا طرز عمل اختیار کیا کہ اسے کسی طرح بھی ہندوئوں کے مفادات کا مخالف تصور نہ کیا جائے۔ 1937ء کے انتخابات سے بابری مسجد کے انہدام تک کانگریس کا رویہ کم و بیش اسی قسم کا رہاہے۔ 1937ء کے انتخابات میں مسلم لیگ 491مخصوص مسلم نشستوں میں سے صرف 106سیٹیں حاصل کر سکی اور کانگریس کے حصے میں صرف 26 مسلم سیٹیں آئیں۔ کانگریس اور مسلم لیگ کے مقابلے میں359مسلم سیٹوں پر الیکشن لڑنے والے ایسے مسلمان امیدوار کامیاب ہوئے جن کی اکثریت کو کسی سیاسی جماعت کی بجائے انگریزوں کے زیادہ قریب سمجھا جاتا تھا۔ ان انتخابات میں ہندو مہا سبھا کی کارکردگی مسلم لیگ سے بھی بری رہی ۔ ہندوئوں کے لیے مخصوص 1717نشستوں میں سے کانگریس نے770سیٹیں جیت کر خود کو11میں سے 8صوبوں میں حکومتیں بنانے کا اہل ثابت کیا۔ جن صوبوں میں کانگریس نے حکومتیں قائم کیں وہاں اس کی کارکردگی کو نشانہ بناتے ہوئے مسلم لیگ نے ہندوستانی مسلمانوں پر یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ کانگریس صرف ہندوئوں کی نمائندہ جماعت ہے۔ اسی تسلسل میں مسلم لیگ نے لاہور میں منعقدہ اپنے کنونشن میں اپنے لیے علیحدہ ملک کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک قرارداد منظور کی جسے پہلے قرارداد لاہور اور پھر قرارداد پاکستان کہا گیا۔ اس قرارداد کے آخری تین اہم نکات یہ ہیں
آل انڈیا مسلم لیگکے نقطہ نظر کے مطابق ، اس ملک میں کوئی بھی آئینی منصوبہ تب تک قابلِ قبول نہیں ہو گا، جب تک وہ اس بنیاد اصول پر وضع نہیں کیا جائے گا کہ جغرافیائی طور پر ملحق اکائیوں کی علاقائی حدبندی کر کے آئینی طور پر ان کی اس طرح تشکیل کی جائے کہ جن علاقوں میں مسلمان عددی طور پر اکثریت میں ہیں، جیسا کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی حصے، ان حصوں کو آزاد ریاستوں میں اس طرح گرہ بند کر دیا جائے کہ تشکیل پانے والی یہ اکائیاں مکمل آزاد اور خودمختار ہوں ۔
یہ کہ ان اکائیوں میں موجود خطوں کے آئین میں اقلیتوں کی مشاورت کے ساتھ ان کے مذہبی، ثقافتی، معاشی، سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق اور مفادات کے تحفظ کے مناسب، موثر اور لازمی اقدامات یقینی بنائے جائیں اور ہندوستان کے دوسرے حصے جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، آئین میں ان کی مشاورت کے ساتھ ان کے مذہبی، ثقافتی، معاشی، سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق اور مفادات کے تحفظ کے مناسب، موثر اور لازمی اقدامات عمل میں لائے جائیں ۔
یہ سیشن ، عاملہ کمیٹی کو ان بنیادی اصولوں کے مطابق، دفاع، خارجہ امور، مواصلات، کسٹم اور دیگر ضروری معاملات کو حتمی شکل دینے کی غرض سے، آئین سازی کی اسکیم وضع کرنے کا اختیار دیتا ہے۔
مذکورہ نکات سے یہ صاف ظاہر ہے کہ اس قرارداد میں جہاں وفاق میں شامل ا کائیوں کی آزادی و خود مختاری کا ذکر ہے وہاں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ پر بھی خاص زور دیا گیا ہے۔ ریاست کے مجموعی انتظامی امور میں سے خاص طور پر صرف دفاع، خارجہ ، مواصلات اور کسٹم ( مالیاتی امور) سے متعلق معاملات طے کرنے کا کہا گیا ہے۔ اب اگر ہم پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمیں کہیں نظر نہیں آتا کہ قرار داد لاہور یا قرارداد پاکستان میں وفاقی اکائیوں کو دی گئی ضمانتوں کا کبھی خیال رکھا گیا ہو۔ یہاں کبھی ون یونٹ بنا کر وفاقی اکائیوں میں بسنے والے لوگوں کے حقوق کو غصب کی گیا ، کبھی مضبوط مرکز میں 1956ء کے آئین کے تحت صدر کو صوبوں میں کی گئی قانون سازی کو یک جنبش قلم ختم کرنے کا اختیار دیتے ہوئے عوام کو یہ احساس دلایا گیا کہ ان کے جمہوری حقوق کس طرح بے توقیر کیے جاسکتے ہیں اور کبھی مارشل لا نافذ کر کے ان سے انسان ہونے کا ہر حق چھین لیا گیا۔ اگر کبھی صوبائی اکائیوں کے باسیوں کو 1973ء جیسی آئینی دستاویز کے ذریعے ان کے حقوق کے تحفظ کی یقین دہانی کرانے کی کوشش کی گئی تو اسی آٹھویں ترمیم کی آمیزش سے بری طرح مسخ کر دیا گیا۔ اس طرح کی پالیسیوں ، حکمت عملیوں اور ناعاقبت اندیش رویوں کی وجہ سے ملک کا آدھا حصہ ایسے جدا ہوا کہ اس کے باسی مشترکہ ماضی کو ایک ڈرائونے خواب کی طرح یاد کرنے لگے۔ اس طرح کی حالات کے باوجود یہاں قرارداد لاہور کو ہر سال انتہائی دھوم دھام سے یاد کرنے کی روایت ڈالی گئی مگر اس کے متن پر غور اور عمل کرنے کی کوششیں بہت کم ہوئیں۔
گو کہ پاکستان میں قرارداد لاہور یا قرارداد پاکستان کو بری طرح نظر انداز کیا گیا مگر اٹھارویں ترمیم کے متعلق بلا شبہ یہ کہا سکتا ہے کہ وفاق پاکستان پر وفاقی اکائیوں کا جو اعتماد بری طرح مجروح ہو چکا تھا اسے اس ترمیم کے ذریعے صوبوں کا ان کے وسائل پر ان کا حق تسلیم کر کے بحال کرنے کی بھر پور کوشش کی گئی ہے۔ کوئی شک نہیں کہ اس کوشش کو ناکام بنانے کے لیے اب بھی کئی عناصر متحرک ہیں مگر قرارداد لاہور کا متن اس عمل کا متقاضی ہے کہ اٹھارویں ترمیم کا ہر حال میں دفاع کیا جائے۔

جواب دیں

Back to top button