Column

فزت و رب الکعبہ

تحریر : صفدر علی حیدری
دنیا میں ایسے انسان خال خال نظر آتے ہیں کہ جن میں ایک آدھ صفت کمال کے علاوہ کوئی اور بھی فضیلت نمایاں ہو، چہ جائیکہ تمام متضاد صفتیں کسی کے دامن میں جمع ہو جائیں ، کیونکہ ہر طبیعت میں ہر کمال کے پھلنے پھولنے اور ہر صفت کے اُبھرنے کی صلاحیت نہیں ہوا کرتی ۔ بلکہ ہر فضیلت ایک طبیعتِ خاص اور ہر کمال ایک مزاج مخصوص رکھتا ہے جو انہی اوصاف و کمالات سے سازگار ہو سکتا ہے جو اس سے یکسانیت و ہم رنگی رکھتے ہوں اور جہاں ہم آہنگی کے بجائے تضاد کی سی صورت ہو وہاں پر طبعی تقاضے کسی اور فضیلت کو اُبھرنے نہیں دیا کرتے ۔ مثلاً جود و سخا کا تقاضا یہ ہے کہ انسان میں رحم دلی و خدا ترسی کا ولولہ ہو ۔ کسی کو فقر و افلاس میں دیکھے تو اُس کا دل کڑھنے لگے اور دوسروں کے دکھ درد سے اس کے احساسات تڑپ اٹھے ۔ اور شجاعت و نبرد آزمائی کا تقاضا یہ ہے کہ طبیعت میں نرمی و رحمدلی کے بجائے خون ریزی و سفاکی کا جذبہ ہو، ہر گھڑی لڑنے اُلجھنے کیلئے تیار اور مرنے مارنے کیلئے آمادہ نظر آئے اور ان دونوں تقاضوں میں اتنا بُعد ہے کہ کرم کی تبسم ریزیوں میں شجاعت کے کڑے تیوروں کو سمویا نہیں جا سکتا اور نہ حاتم سے شجاعتِ رستم کی امید اور نہ رستم سے سخاوتِ حاتم کی توقع کی جا سکتی ہے ۔مگر علیؓ ابن ابی طالب کی طبیعت ہر فضیلت سے پوری مناسبت اور ہر کمال سے پورا لگائو رکھتی تھی اور کوئی صفتِ حسن و کمال ایسی نہ تھی جس سے اُن کا دامن خالی رہا ہو اور کوئی خلعتِ خوبی و جمال ایسا نہ تھا جو ان کے قد و قامت پر راست نہ آیا ہو اور سخاوت و شجاعت کے متضاد تقاضے بھی ان میں پہلو بہ پہلو نظر آتے تھے ۔ اگر وہ داد و دہش میں ابر باراں کی طرح برستے تھے تو پہاڑ کی طرح جم کر لڑتے اور دادِ شجاعت بھی دیتے تھے۔ چناں چہ ان کے جود و کرم کی یہ حالت تھی کہ فقر و افلاس کے زمانے میں بھی جو دن بھر کی مزدوری سے کماتے تھے اس کا بیشتر حصہ ناداروں اور فاقہ کشوں میں بانٹ دیتے تھے اور کبھی کسی سائل کو اپنے گھر سے ناکام واپس نہ جانے دیتے تھے ۔ یہاں تک کہ اگر میدانِ جنگ میں دشمن نے تلوار مانگ لی تو آپؓ نے اپنے زورِ بازو پر بھروسہ کرتے ہوئے تلوار اس کے آگے پھینک دی ۔ کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
اور ہمت و شجاعت کا یہ عالم تھا کہ فوجوں کے ریلے آپؓ کے ثباتِ قدم کو جنبش نہ دے سکتے تھے اور ہر معرکہ میں فتح و کامرانی کا سہرا آپؓ کے سر رہتا تھا ۔ بہادر سے بہادر سورما بھی آپؓ کے مقابلے میں آ کر اپنی جان کو صحیح و سالم بچا کر لے جانے میں کامیاب نہ ہو سکتا تھا ۔ چنانچہ ابن قتیبہ نے ’’ المعارف‘‘ میں لکھا ہے ’’ جس سے بھڑے اُسے پچھاڑے بغیر نہیں چھوڑا ‘‘ شجاعوں کی من چلی طبیعتیں سوچ بچار کی عادی نہیں ہوا کرتیں اور نہ مصلحت بینی و مآل اندیشی سے انہیں کوئی لگائوہوتا ہے ، مگر آپؓ میں شجاعت کے ساتھ ساتھ سوجھ بوجھ کا مادہ بھی بدرجہ اَتَم پایا جاتا تھا ۔ چنانچہ امام شافعیؒ کا قول ہے کہ: ’’ میں اس ہستی کے بارے میں کیا کہوں جن میں تین صفتیں ایسی تین صفتوں کے ساتھ جمع تھیں جو کسی بشر میں جمع نہیں ہوئیں: فقر کے ساتھ سخاوت، شجاعت کے ساتھ تدبر و رائے اور علم کے ساتھ عملی کار گزاریاں ‘‘۔
اسی اصابتِ فکر و صحت رائے کا نتیجہ تھا کہ جب پیغمبرؐ کی وفات کے بعد کچھ لوگوں نے آپؓ کو تلوار اٹھانے کا مشورہ دیا اور فوجوں کے فراہم کرنے کا وعدہ کیا تو آپ نے ان کی رائے کو ٹھکرا دیا ۔ حالاں کہ ایسے موقع پر من چلے بہادروں کو ذرا سا سہارا بھی اُبھارنے کیلئے کافی ہوا کرتا ہے ۔ مگر آپؓ کی طبع دور اندیش نے فوراً یہ نتیجہ اخذ کر لیا کہ اگر اس وقت معرکہ کار زار گرم ہو گیا تو اسلام کی آواز تلواروں کی جھنکار میں دَب کر رہ جائے گی اور پھر کامیابی حاصل ہو بھی گئی تو کہنے میں یہی آئے گا کہ تلوار کے زور سے اس منصب کو حاصل کیا ورنہ کوئی استحقاق نہ تھا ۔ لہٰذا آپؓ نے تلوار کو روک کر ایک طرف اسلام کی حفاظت کا سرو سامان کیا اور دوسری طرف اپنے حق کو خون ریزیوں سے داغ دار نہ ہونے دیا ۔
جہاں رگ و پے میں شجاعت کا خون دوڑ رہا ہو اور سینہ میں غیض و غضب کی چنگاریاں بھڑک رہی ہوں وہاں ولولہ انتقام کو دبا کر عفو و بخشش کا طرزِ عمل اختیار کرنا اور طاقت و اختیار کے ہوتے ہوئے در گزر سے کام لینا بڑی کٹھن آزمائش ہے ۔ مگر ایسے ہی موقعوں پر آپؓ کی سیرت کے جوہر نکھرا کرتے تھے اور دامن عفو کی پہنائیوں میں خون کے پیاسوں تک کے لیے گنجائش نکل آیا کرتی تھی۔ چنانچہ جنگِ جمل کے خاتمہ پر آپؓ نے ایک اعلانِ عام فرمایا کہ کسی پیٹھ پھرانے والے ، ہتھیار ڈال دینے والے اور ہمارے دامن میں پناہ لینے والے پر ہاتھ نہ اٹھایا جائے اور مروان بن حکم اور عبد اللہ بن زبیر کو بغیر انتقام و سرزنش کے چھوڑ دیا اور اُمّ المومنین کے ساتھ جو حسنِ سلوک کیا وہ آپؓ کی شرافت نفس اور بلندیٔ کردار کا بے نظیر نمونہ ہے کہ آپؓ نے ان کے شایانِ شان انتظامات کیے ، اور انہیں محمد ابن ابی بکر کے ہمراہ مدینہ روانہ کر دیا۔
انسان اپنی ذاتی رنجشوں کو اصولی اختلاف کا لباس پہنا کر نہ صرف دوسروں کو فریب دیا کرتا ہے ، بلکہ خود اپنے نفس کو بھی دھوکے میں رکھنے کی کوشش کیا کرتا ہے ۔ ایسے حالات میں ایسی نازک صورتیں بھی آ جاتی ہیں کہ انسان ذاتی اور اصولی رنجش میں امتیاز کر کے ایک کو دوسرے سے الگ نہیں کر سکتا اور باآسانی ایک کو دوسرے میں سمو کر یہ سمجھ لیتا ہے کہ اُس نے حکم الٰہی کا امتثال کیا ہے ۔ مگر ہوتا یہ ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ اپنے انتقامی جذبے کو بھی فرو کر لیا کرتا ہے۔ مگر امیر المومنینؓ کی حد شناس نظریں نہ کبھی فریب کھاتی تھیں اور نہ جان بوجھ کر اپنے کو فریب دیتی تھیں۔ چناں چہ ایک موقع پر جب دشمن کو پچھاڑ کر اُس کے سینے پر سوار ہوئے تو اس نے آپؓکے چہرے پر تھوک دیا ۔ بشری تقاضا تو یہ تھا کہ اشتعال بڑھ جاتا، ہاتھ کی حرکت تیز ہو جاتی، مگر مشتعل ہونے کی بجائے اُس کے سینہ سے اُتر آئے کہ کہیں اس عمل میں خواہش نفس کی آمیزش نہ ہو جائے۔ جب غصہ فرو ہو گیا تو اُسے قتل کیا۔جنگ و پیکار اور زہد و ورع میں بھی کوئی مناسبت نظر نہیں آتی ۔ کیوں کہ ایک سے ہمت و دلیری کا مظاہرہ ہوتا ہے اور ایک سے عجز و فروماندگی ٹپکتی ہے۔ مگر آپؓ ان دونوں صفتوں کے اجتماع کا نادر نمونہ تھے کہ وقفِ دُعا رہنے والے ہاتھوں کو مشغولِ کارزار بھی رکھتے تھے اور گوشۂ اعتکاف میں بیٹھنے کے ساتھ میدانِ جنگ کا بھی طواف کرتے تھے۔ چناں چہ لیل الہریر کا وہ منظر تو انسانی عقلوں کو حیرت و استعجاب میں ڈال دیتا ہے کہ جب آپؓ نے گرد و پیش سے آنکھیں بند کر کے خونی ہنگاموں میں مصلّٰیٰ بچھا دیا تھا اور سکونِ خاطر و اطمینانِ قلب سے نماز میں مشغول ہو گئے تھے اور تیر تھے کہ کبھی آپؓ کے سر کے اوپر سے اور کبھی دائیں سمت سے اور کبھی بائیں جانب سے سنسناتے ہوئے گزر رہے تھے ۔ آپؓ بغیر کسی خوف و ہراس کے ذکرِ خدا میں محو رہے اور جب فارغ ہوئے تو ہاتھ تلوار کے قبضہ پر رکھا اور پھر جس قیامت کا رَن پڑا ہے تاریخ اس کی مثال پیش نہیں کر سکتی۔ عالم یہ تھا کہ ہر طرف ایسی چیخ پکار اور بھگدڑ مچی ہوئی تھی کہ کان پڑی آواز نہ سنائی دیتی تھی۔ البتہ لحظہ بہ لحظہ آپؓ کی صدائے تکبیر فضا میں بلند ہو کر کانوں میں گونج اُٹھتی تھی اور ہر تکبیر ایک دشمن کیلئے پیغامِ اَجل لیکر آتی تھی۔ گننے والوں نے اِن تکبیروں کو شمار کیا تو ان کی تعداد پانچ سو تئیس تھی، نبرد آزمائی و صَف آرائی کے مشغلوں کے ساتھ علم و عرفان کا ذوق جمع نہیں ہوا کرتا ، مگر آپؓ رزم آرائیوں کے ساتھ علم و معارف کی محفلیں بھی آراستہ کرتے تھے اور خون کی ندیاں بہانے کے ساتھ حقائق و معارف کے سر چشموں سے کشت زارِ اسلام کی آبیاری بھی فرماتے تھے۔
جہاں علمی کمال ہو وہاں عمل سے تہی دامنی نہ سہی مگر عملی کوتاہیوں میں تو کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا، لیکن آپؓ کے قدم، علم و عمل کے میدان میں یکساں اٹھتے تھے۔ جیسا کہ امام شافعی کے قول میں اشارہ ہو چکا ہے۔یونہی قول و عمل کی ہمنوائی کی مثالیں بھی کم ملتی ہیں، مگر آپؓ کا عمل پہلے ہوتا تھا اور قول بعد میں۔ جیسا کہ خود فرماتے ہیں: ’’ اے لوگو! بخدا! میں تمہیں کسی عمل کی دعوت نہیں دیتا مگر یہ کہ تم سے پہلے اس کی طرف بڑھتا ہوں اور کسی چیز سے تمہیں نہیں روکتا مگر یہ کہ پہلے اس سے اپنا دامن بچاتا ہوں‘‘۔
جہاں کسی زاہد و متورع انسان کا تصور ہوا وہاں ایک شکنوں بھرا چہرہ نظروں کے سامنے آ جاتا ہے، کیوں کہ پرہیز گارانہ زندگی کے لیے خشک مزاجی و ترش روئی ایسا لازمی جزو بن کر رہ گئی ہے کہ کسی پرہیزگار و پارسا کے ہونٹوں کیلئے مسکراہٹ کا تصور بھی جرم سمجھا جانے لگا ہے۔ مگر آپؓ کمالِ تقویٰ و پرہیزگاری کے باوجود ہمیشہ اس طرح دکھائی دیئے کہ شگفتہ مزاجی و خندہ روئی آپؓ کے خد و خال سے جھلکتی اور مسکراہٹ لبوں پر کھیلتی تھی اور کبھی خشک زاہدوں کی طرح تیوری پر بَل اور جبیں پر شکن نہ آنے پاتی تھی۔ یہاں تک کہ جب دنیا والوں کو آپؓ میں کوئی عیب نظر نہ آیا تو اسی طبیعت کی لطافت کو عیب کی صورت میں پیش کیا جانے لگا اور درشت طبعی و تند خوئی کو حُسن سمجھ لیا گیا۔ اگر انسان میں زندہ دلی و خوش طبعی کی جھلک ہو تو اس کا رُعب و دبدبہ دلوں سے اُٹھ جایا کرتا ہے۔
مگر حضرتؓ کے بشاش چہرے پر جلال و تمکنت کا یہ عالم تھا کہ نگاہیں ان کے سامنے اٹھ نہ سکتی تھیں۔ چنانچہ ایک دفعہ امیر معاویہؓ نے طنزاً یہ کہا کہ: ’’ خدا ابو الحسن پر رحم کرے، وہ ایک خوش مذاق آدمی تھے، تو قیس ابن سعد نے کہا کہ: ’’ خدا کی قسم! وہ اس خوش مذاقی اور خندہ روئی کے باوجود بھوکے شیر سے بھی زیادہ پُر ہیبت تھے اور یہ ان کے تقویٰ کا رعب تھا، نہ ویسا جیسا شام کے چند اوباش تمہارا رُعب مانتے ہیں۔ جہاں سطوت و حکومت ہو وہاں حشم و خدم کے جھرمٹ، تزک و احتشام کے پہرے اور کر و فر کے ساز و سامان نظر آیا کرتے ہیں۔ مگر آپؓ کا دورِ فرماں روائی انتہائی سادگی کا نمونہ تھا اور اہلِ عالم کی نگاہوں نے ہمیشہ تاج سروری کی جگہ بوسیدہ عمامہ، حلۂ خسروی کے بجائے پیوند دار پیراہن اور مسند جہاں بانی کی جگہ فرشِ خاک ہی دیکھا۔ نہ آپؓ نے کبھی شان و شکوہ کو پسند کیا اور نہ ظاہری ٹھاٹھ باٹھ کی نمائش گوارا کی۔ چنانچہ ایک موقع پر گھوڑے پر سوار ہو کر گزر رہے تھے کہ حرب ابن شرحبیل گفتگو کرتا ہوا آپؓ کے ہمرکاب ہو لیا تو آپؓ نے اس سے فرمایا: ’’ پلٹ جائو، کیونکہ تم ایسے شخص کا یوں میرے ساتھ پیادہ پا چلنا والی کیلئے فتنہ اور مومن کیلئے ذِلّت کا باعث ہے‘‘۔
غرض یہ وہ جامع شخصیت تھی جس میں مختلف و متضاد صفات سمٹ کر جمع ہو گئے تھے اور تمام محاسن اخلاق اپنی پوری تابندگیوں کے ساتھ جلوہ گر تھے۔ گویا ان کی ایک زندگی کئی زندگیوں کا مجموعہ اور ہر زندگی صفتِ کمال کا وہ نادر مرقع تھی جس سے فضیلت کے بے داغ خد و خال اُبھر کر سامنے آتے تھے اور جس کے ہر کمال پر نظریں جم کر رہ جاتی تھیں۔
حضرت علیؓ کی پرورش، کفالت، اور تربیّت کی ذمہ داری رسول اکرمؓ نے خود قبول فرمائی۔ امیرالمومنین علیؓ فرماتے تھے رسولؐ اللہ نے انہیں علم ایسے دیا جیسے پرندہ اپنے بچے کو غذا دیتا ہے، یعنی حضورؐ نے اللہ سے جیسے علم لیا ویسے علیؓ کو دیا۔ جبکہ مولا علیؓ کا فرمان ہے کہ پیغمبرؐ نے مجھے علم کا ہزار باب تعلیم کیا۔ اسی وجہ سے انہوں نے سلونی قبل ان تفقدونی یعنی جو چاہو پوچھو کا غیر معمولی دعویٰ کیا۔ آپؓ کی عدالت ضرب المثل ہے، حتیٰ کہ آپؓ کی ذوالفقار بھی دشمنوں کو بالکل برابر دو حصوں میں کاٹتی تھی۔ مولا علیؓ زندگی بھر عدالت پر اس سختی سے کار بند رہے کہ یہی صفت آپؓ کی شہادت کا باعث بنی اور کہا گیا ’’ عدالت پر سختی سے عمل پیرا ہونے کی وجہ سے علیؓ کو محراب میں قتل کیا گیا ‘‘۔ انیس ماہ رمضان کو تہجد کے وقت ایک صدا بلند ہوئی ’’ فزت و رب کعبہ‘‘، یہ ابن ملجم کی ضربت کے بعد کی صدا کی تھی۔ آپؓ جاتے جاتے دنیا کو سمجھا گئے کہ مومن کا امتحان آخری سانس تک جاری رہتا ہے۔ اور وہ کامیابی کا دعویٰ تک کرتا ہے جب اسے حق پر اپنی موت کا یقین آ جاتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button