ڈیل یا نو ڈیل؟ ٹرمپ یوکرین میں جنگ بندی کا وعدہ اب تک پورا کیوں نہیں کر سکے

امریکی انتخابات سے قبل صدراتی امیدوار کی حیثیت سے ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ سال ستمبر میں نیویارک میں صدر زیلنسکی سے ملاقات کی تھی تو اس وقت وہ بہت پراعتماد تھے کہ وہ یوکرین میں جنگ کو جلد از جلد ختم کروا سکتے ہیں۔
اس ملاقات میں ان کے الفاظ تھے کہ ’اگر ہم جیت گئے تو مجھے امید ہے کہ ہم جلد ہی اس معاملے کو حل کر لیں گے۔ مگر کتنا جلدی! اس کا مطلب (ٹرمپ کے لیے) وقت و حالات کے ساتھ مختلف ہوتا تھا۔ چند روز قبل ایک ٹی وی مباحثے میں ٹرمپ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ’میرے صدر بننے سے پہلے ہی اس جنگ سے نکل آئیں گے۔‘
ان کا یہ بیان مئی 2023 کے اس دعوے کو مزید تقویت دیتا تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ اپنے عہد صدارت کے پہلے 24 گھنٹوں میں لڑائی روکنے کے اقدامات کریں گے۔
تاہم اب صدر ٹرمپ کو اپنے عہدہ سنبھالے دو ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے اورلیکن لگتا یہی ہے کہ تلخ اور پیچیدہ تنازعات کوختم میں ابھی مزید وقت لگ سکتا ہے۔
گزشتہ ہفتے کے آخر میں ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں امریکی صدر نے اعتراف کیا کہ جب انھوں نے ایک دن میں جنگ ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا تو اس میں تھوڑا سا طنز موجود تھا۔
ٹرمپ اور ان کی ٹیم کی توقع سے کم پیش رفت ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے صدر کا اپنی ذاتی، ون آن ون ڈپلومیسی کی طاقت پر یقین غلط ہو سکتا ہے۔ وہ طویل عرصے سے اس گمان میں مبتلا ہیں کہ اگر وہ کسی بھی رہنما کے ساتھ بیٹھ کر معاہدے ہر دستخط کر دیتے ہیں تو کوئی بھی بین الاقوامی مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔
ٹرمپ اور پوتن نے پہلی بار 12 فروری کو بات چیت کی اور ڈیڑھ گھنٹے کی گفتگو کو انھوں نے ’انتہائی نتیجہ خیز‘ قرار دیا۔
اس کے بعد دونوں رہنماؤں نے 18 مارچ کو دوبارہ بات کی۔ لیکن یہ واضح ہے کہ یہ ٹیلی فون کالز ٹرمپ کی مطلوبہ 30 روزہ عبوری جنگ بندی کو محفوظ بنانے میں ناکام رہیں۔
اس گفتگو سے وہ پوتن سے صرف ایک اہم رعایت حاصل کرسکے کہ روس یوکرین کی انرجی سے متعلق تنصیبات پر حملوں کا ارادہ ختم کر دے گا۔ تاہم یوکرین کا دعویٰ ہے کہ اس کال کے چند گھنٹوں کے اندر ہی وہ وعدہ ٹوٹ گیا۔
دوسرے یہ کہ روسی صدر نے واضح کر دیا ہے کہ ان کو کسی قسم کی جلدی نہیں ۔ مذاکرات کے بارے میں ان کے پہلے بیانات گزشتہ ہفتے ایک پریس کانفرنس میں سامنے آئے اس وقت تک ٹرمپ کے ساتھ ان کی ٹیلی فون کو ایک ماہ گزر گیا تھا۔
صدر پوتن نے واضح کیا کہ وہ طویل مدتی تصفیے کی بات سے پہلے عبوری جنگ بندی کے حصول کی امریکی دو مرحلوں کی حکمت عملی کے سخت مخالف ہیں۔
ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ کسی بھی بات چیت یا مزاکرات کو جنگ کی بنیادی وجوہات کا احاطہ کرنا چاہیے۔ جیسے کہ انھیں نیٹو اتحاد میں توسیع کا خدشہ ہے اور یوکرین کا ایک خودمختار ریاست کے طور پر وجود کسی نہ کسی طرح روس کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔
انھوں نے تفصیلی سوالات اور شرائط بھی سامنے رکھیں جنھیں کسی بھی معاہدے پر اتفاق کرنے سے پہلے پورا کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ تیسرا یہ کہ یوکرین پر اپنی ابتدائی توجہ مرکوز کرنے کی امریکی حکمت عملی کو غلط سمجھا گیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کا خیال تھا کہ صدر زیلنسکی امن کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ مغربی ممالک کے سفارت کار تسلیم کرتے ہیں کہ یوکرین کی حکومت یہ دیر میں سمجھی کہ ٹرمپ کی آمد سے دنیا کتنی بدل گئی ہے۔ لیکن کیئو پر امریکی دباؤ سے وقت، کوشش اور سیاسی سرمایہ گویا ضائع ہوا۔
اس کی ایک مثال اوول آفس میں ٹرمپ اور ان کے نائب صدر جے ڈی وینس کی جانب سے صدر زیلنسکی کو ہراساں کیا جانا ہے۔
ایک اور بات یہ بھی ہے کہ تنازع کی سراسر پیچیدگی کسی بھی حل کو مشکل بنا دیتی ہے۔
یوکرین کی پیشکش ابتدائی طور پر فضا اور سمندر میں عبوری جنگ بندی کے لیے تھی۔ خیال یہ تھا کہ یہ نگرانی نسبتاً سیدھی ہو گی۔ لیکن گزشتہ ہفتے جدہ میں ہونے والی بات چیت میں امریکہ نے زور دیا کہ کسی بھی فوری جنگ بندی میں مشرق میں 1200 کلومیٹر سے زیادہ لمبی فرنٹ لائن کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔
فوری طور پر اس عمل نے کسی بھی جنگ بندی کی تصدیق کے عمل کو مزید پیچیدہ بنا دیا جسے پھر پوتن کی طرف سے مسترد کر دیا گیا تھا. لیکن توانائی کے بنیادی ڈھانچے پر حملے ختم کرنے کی بظاہر معمولی تجویز سے اتفاق بھی مسائل سے خالی نہیں۔ اس تجویز کی تفصیلات پر پیر کے روز سعودی عرب میں متوقع تکنیکی مذاکرات میں بحث متوقع ہے۔
یاد رہے کہ یوکرین اور روس ایک دوسرے سے براہ راست بات چیت نہیں کر رہے بلکہ ان کے درمیان امریکہ ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان ثالث کا کردار ادا کر رہا ہے۔ اس سے بھی مزید وقت درکار ہوگا۔
امریکہ کی جنگ بندی کے اقتصادی فوائد پر توجہ نے لڑائی ختم کرنے کی اولین ترجیح سے توجہ ہٹا دی۔ ٹرمپ نے ایک فریم ورک معاہدے پر اتفاق کرنے کی کوشش میں وقت لگایا تاکہ امریکی کمپنیوں کو یوکرین کے قیمتی معدنی وسائل تک رسائی مل سکے۔
صدر زیلینسکی نے ابتدا میں مؤقف اختیار کیا کہ وہ صرف اس صورت میں معاہدہ کریں گے جب امریکہ یوکرین کو مستقبل میں روسی جارحیت سے بچانے کے لیے سلامتی کی ضمانتیں دے۔ تاہم وائٹ ہاؤس کے انکار اور شرائط پر زیلینسکی نے پیچھے ہٹتے ہوئے کہا کہ وہ سلامتی کی ضمانتوں کے بغیر بھی معدنی وسائل کا معاہدہ کرنے کو تیار ہیں۔
لیکن اس کے باوجود امریکہ نے ابھی تک اس معاہدے پر دستخط نہیں کیے کیونکہ وہ اس کی شرائط کو مزید بہتر بنانے کی امید کر رہا ہے۔