پاکستان

خواتین کو وراثت کے حق سے محروم رکھنے والی رسمیں غیرقانونی ہیں: وفاقی شرعی عدالت

پاکستان میں وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ کوئی بھی ایسی رسم و رواج جو خاندان کی کسی خاتون کو اس کے وراثت کے حق سے محروم کردے اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس اقبال حمید الرحمٰن، جسٹس خادم حسین ایم شیخ اور جسٹس امیر محمد خان پر مشتمل چار رُکنی بینچ نے 21 صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ ضلع بنوں کے کچھ حصوں میں رائج چادر یا پرچی کے رواج کے خلاف دائر درخواست پر سنایا۔

شرعی عدالت نے خواتین کو وراثت کے حق سے محروم کرنے کے عمل کو غیر اسلامی اور غیر قانونی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس طرح کے مجرمانہ اقدامات پر سزا دی جاسکتی ہے۔

اپنی درخواست میں سیدہ فوزیہ جلال شاہ نے نہ صرف بنوں میں رائج روایات پر روشنی ڈالی تھی بلکہ اپنی والدہ سیدہ افتخار بی بی کے لیے بھی ریلیف کی درخواست کی تھی، جو مبینہ طور پر مقامی رسم و رواج کی وجہ سے اپنے والد اور شوہر کی وراثت میں حصے سے محروم تھیں۔

تاہم وفاقی شرعی عدالت نے اس درخواست کو جزوی طور پر قبول کر لیا، جس میں درخواست گزار مقامی رسم کو غیر اسلامی قرار دینے کا مطالبہ کر رہی تھیں۔

درخواست گزار نے اپنی درخواست میں سورۃ النساء کی آیات 7، 11، 12 اور 14 کا بھی حوالہ دیا جس میں خواتین کی وراثت کے مسئلے پر بحث کی گئی ہے اور مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ان آیات کے مطابق میت کے ہر اہل قانونی وارث کو وراثت کا مناسب حصہ دیں۔

وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے میں وضاحت کی گئی ہے کہ دستیاب اعداد و شمار اور مختلف فریقین کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹس سے یہ واضح ہے کہ اس طرح کا مجرمانہ عمل، جس میں خواتین کو وراثت کے حق سے محروم کیا جاتا ہے، بہت عام بات ہے۔

جواب دیں

Back to top button