Column

ہائبرڈ وار سے لڑتا پاکستان! حل کیا ہو؟

تحریر :ملک شفقت اللہ
پاکستان ایک بار پھر دہشتگردی کی ایک نئی لہر کی زد میں ہے۔ 2024ء کے اختتام اور 2025ء کے آغاز میں ملک میں بڑھتے ہوئے دہشتگرد حملے، ان کے تسلسل اور شدت نے نہ صرف عوام کو خوف زدہ کر دیا ہے بلکہ ریاستی اداروں کی حکمتِ عملی اور داخلی استحکام پر بھی سوالات اٹھا دئیے ہیں۔ یہ صورتحال محض چند شدت پسند گروہوں کی کارروائیاں نہیں بلکہ ایک منظم، مربوط اور خطرناک ہائبرڈ وار کا حصہ محسوس ہوتی ہے، جس میں علاقائی و بین الاقوامی قوتوں کا کردار بھی قابلِ توجہ ہے۔ حالیہ بڑے واقعات میں پارہ چنار، اکوڑہ خٹک مدرسہ، مستونگ پولیس موبائل پر حملہ، لورالائی اور ڈی آئی خان میں دہشتگردی شامل ہیں ان حملوں میں سیکیورٹی فورسز کے ساتھ ساتھ مذہبی راہنما اور تعلیمی ادارے بھی نشانہ بنے۔ جہاں ملک میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے عوام میں ریاستی دفاعی اداروں کے بارے میں ایک منفی سوچ ابھر رہی تھی، ایسے حالات میں دہشتگردی کے واقعات نے ریاستی اداروں کے خلاف سوشل میڈیا کیمپین کو ایک مضبوط وجہ فراہم کر دی ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (PICSS) کی تازہ رپورٹ کے مطابق 2024ء میں 893دہشتگرد حملے ہوئے، جو پچھلے سال کی نسبت 27فیصد اضافہ ظاہر کرتے ہیں۔ ان حملوں میں 1460افراد شہید اور 2080سے زائد زخمی ہوئے۔خیبر پختونخوا میں 391جبکہ بلوچستان میں 241حملے ریکارڈ کیے گئے۔ جنوری تا مارچ 2025ء کے پہلے 75دن میں 112دہشتگرد حملے رپورٹ ہو چکے ہیں۔ ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام، پارلیمنٹ اور عدلیہ کی کشمکش، اور حکومتوں کی بار بار تبدیلی نے سیکیورٹی پالیسیوں کو غیر مستحکم کر دیا ہے۔ سیکیورٹی بجٹ میں کمی، حساس اداروں کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان، اور حکومتی پالیسیوں کا تسلسل نہ ہونا دہشتگردوں کے لیے سازگار ماحول مہیا کر رہا ہے۔
اگر ہم اس ضمن میں ریاستی رد عمل کے اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو صرف 2024ء میں آپریشن رد الفساد کے تحت 3400 سے زائد آپریشن ہوئے۔ جن کے نتیجے میں 800سے زائد دہشتگرد ہلاک ہوئے۔ لیکن حالیہ دنوں میں دہشتگردی اب روایتی حملوں سے نکل کر سافٹ ٹارگٹس جیسے مدارس، علما، بازاروں اور تھانوں پر منتقل ہو گئی ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی اور داعش خراسان گروہ افغانستان سے پاکستان میں کارروائیاں کر رہے ہیں۔ جب سے افغانستان سے امریکی انخلا ہوا ہے تب سے ہی ٹی ٹی پی نے پاکستان میں دہشتگرد کارروائیوں کا نئے سرے سے آغاز کیا تھا۔ افغان طالبان حکومت کی کمزور گرفت نے ان گروہوں کو مضبوطی دی ہے۔کچھ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق ایران پشت پناہی سے چلنے والے افغان گروپ لواء فاطمیون بھی خاصا متحرک ہوا جو افغان بارڈر کے ساتھ ساتھ نئی خانہ جنگی اور عدم استحکام کو ہوا دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ دوسری طرف پاکستان حکومت بھی کلبھوشن یادیو کے چیپٹر کو تا حال بند کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ پاکستان میں بی ایل اے، بی آر اے اور اس جیسے دیگر علیحدگی پسند اور شدت پسند گروہوں کی پشت پناہی کرنے والی بھارتی ’’ را‘‘ ایجنسی کے اہم کمانڈر کلبھوشن یادیو کی گرفتاری سے حاصل ہونے والی انتہائی اہم معلومات کے حصول کے باوجود یہ گروہ اور تنظیمیں شکنجے میں نہیں لائی جا سکی ہیں۔ بلوچ لبریشن آرمی، بی آر اے اور دیگر علیحدگی پسند تنظیموں کو بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’ را ‘‘ کی پشت پناہی حاصل ہے۔ پاکستان نے اس کے کئی شواہد اقوام متحدہ میں پیش کیے ہیں۔ لواء زینبیون اور لواء فاطمیون جیسے گروہوں کی غیر علانیہ سرگرمیاں پاکستان میں فرقہ واریت کو ہوا دے سکتی ہیں۔ حالیہ حملوں میں بعض مذہبی رہنمائوں کو نشانہ بنایا جانا اسی کا شاخسانہ محسوس ہوتا ہے۔
عالمی ماہرین دفاع اور ادارے اس سلسلے میں چند ایک خدشات کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں نیشنل ایکشن پلان محض ایک کاغذی منصوبہ بن کر رہ گیا ہے، کیونکہ اس پر نہ تو سیاسی اتفاق رائے موجود ہے اور نہ ہی مسلسل مانیٹرنگ۔ انسداد دہشتگردی کے بجٹ میں تاخیر در اصل اس پالیسی پر سیاسی ترجیحات کی عکاسی کرتا ہے۔ پولیس اصلاحات پر مسلسل اختلافات اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستان کے سیاسی نظام میں سیکیورٹی کو قومی مسئلہ نہیں بلکہ سیاسی نفع و نقصان کی بنیاد پر دیکھا جاتا ہے۔ مائیکل کوگل مین ( ویلسن سینٹر) کہتے ہیں کہ پاکستان ایک پیچیدہ ہائبرڈ وار کا میدان بن چکا ہے۔ ریاست کو سفارتی اور فکری میدان میں بھی لڑنا ہو گا۔ جاناتھن مارکس (NATO Expert)کے مطابق پاکستانی ادارے داخلی ہم آہنگی اور پالیسی کے تسلسل کے بغیر دہشتگردی کا مکمل تدارک نہیں کر سکتے۔ ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف کی طرف سے داخلی انتشار کے بڑھنے کو معیشت پر عالمی اعتماد کے خاتمے کی بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ چین کی جانب سے بھی سی پیک پر سکیورٹی خدشات اس لئے شدید ہیں کیونکہ متعدد چینی انجینئرز کو دہشتگرد کارروائیوں میں نشانہ بنایا گیا اور سیاسی عدم استحکام سے منصوبے تاخیر کا شکار ہیں۔ یورپ اور امریکہ اس بات پر متفق ہیں کہ سیاسی پولرائزیشن جمہوریت کیلئے خطرہ ہیں اور ان کا براہ راست اثر سیکیورٹی نظام پر پڑتا ہے۔ کچھ تازہ ترین اعدا د و شمار کے مطابق 2024کے دہشتگردی کے واقعات میں اضافے کا محرک نیشنل ایکشن پلان پر مکمل طور پر عملدرآمد نہ ہونا، جس کی وجہ سے ٹی ٹی پی کو از سر نو منظم ہونے کا موقع ملا، داخلی انٹیلی جنس تعاون کی کمی اور بارڈر مینجمنٹ سسٹم کی عدم فعالیت کی وجہ سے 120سے زائد سیکیورٹی فورسز کے اہلکار وں نے جام شہادت نوش کیا، بلوچستان، خیبرپختونخوا، شمالی وزیر ستان اور ڈی آئی خان، غربت، شرح خواندگی میں کمی اور کمزور گورننس کی وجہ سے دہشتگرد کارروائیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔60 فیصد سے زائد حملوں میں ملوث ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کو نظریاتی اثر و رسوخ کی وجہ سے افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں حاصل ہیں۔ انتخابات 2023۔24ء کے بعد ملک کے تین صوبوں میں بیک وقت احتجاج ہوئے، اور انتخابات کی شفافیت پر سوالات اٹھائے گئے، جس کے نتیجے میں سو سے زائد سیکیورٹی فورسز کمپنیوں کو تعینات کرنا پڑا، اور یوں بارڈر منیجمنٹ سسٹم غیر فعال رہا، اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سیاسی پولرائزیشن اور عدم استحکام، کرنسی کی گراوٹ، بجٹ خسارہ اور 6.8فیصد تک سرمایہ کاری میں کمی کا باعث بنا۔ انہی خطرات کے پیش نظر پاکستان کو امسال دفاعی بجٹ میں غیر معمولی اضافہ کرنا پڑا۔ یوں یہ بجٹ کل جی ڈی پی کا 1.7فیصد یعنی 2.1ٹریلین روپے رکھا گیا۔
اگر ہم تمام تر حقائق اور اعداد و شمار کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک جائزہ لیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان میں دہشتگردی کا حل صرف عسکری طریقے سے ممکن نہیں، بلکہ سیاسی، سماجی اور معاشی ہم آہنگی بھی ناگزیر ہے۔ سیاسی قیادت اگر قومی اتفاق رائے پیدا نہ کر سکی تو یہ محض دہشتگردوں کو نہیں بلکہ استعماری طاقتوں کو بھی پاکستان پر چڑھ دوڑنے کا موقع دے گی۔ وقت کا تقاضا یہی ہے کہ ہم ریاستی اداروں کو سیاسی تنازعات سے نکال کر قومی پالیسی میں یکجہتی پیدا کریں تاکہ ایک مضبوط، پر امن اور خود مختار پاکستان کی تشکیل ممکن ہو سکے۔ پاکستان ایک جامع قومی بیانیہ مرتب کرے، داخلی سیاسی اتحاد کو فروغ دیں، اور بین الاقوامی فورمز پر دہشتگردی کے پیچھے موجود ہاتھوں کو بے نقاب کریں۔ بصورتِ دیگر، ریاستی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر دشمن پاکستان کو مسلسل غیر مستحکم کرتا رہے گا۔

ملک شفقت اللہ

جواب دیں

Back to top button