Column

پاکستان میں سرمایہ دارانہ نظام کا اثر

تحریر : یاسر دانیال صابری
پاکستان اور خصوصاً گلگت بلتستان میں سرمایہ دارانہ نظام کے اثر و رسوخ گہرے اور پیچیدہ ہیں۔ جہاں سرمایہ داری کی بنیاد پر ترقی کے دعوے کیے جاتے ہیں، وہیں اس نظام نے معاشرتی، اقتصادی، اور ثقافتی سطح پر کئی مسائل بھی پیدا کیے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام ایک ایسا اقتصادی ماڈل ہے جس میں پیداوار کے وسائل اور دولت کا کنٹرول نجی افراد یا کمپنیوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اس نظام میں انسان کی اہمیت اس کی مالی حیثیت پر منحصر ہوتی ہے، جس کا نتیجہ طبقاتی تفریق اور ناہمواری کی صورت میں نکلتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں انفرادی مفادات کو مجموعی طور پر قومی مفاد کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، مگر اس کے عملی اثرات سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ یہ نظام زیادہ تر امیر کو امیر تر اور غریب کو غریب تر بناتا ہے۔
پاکستان میں سرمایہ داری کا آغاز برطانوی راج کے دوران ہوا جب برطانوی حکومت نے ہندوستان اور اس کے مختلف حصوں میں اپنی تجارتی اور اقتصادی حکمت عملیوں کو نافذ کیا۔ اس وقت بھی مقامی زمینوں اور وسائل کا کنٹرول محدود طبقوں کے ہاتھ میں تھا، اور یہ طبقے اپنی دولت میں اضافے کے لیے مقامی لوگوں کو استحصال کرتے تھے۔ برطانوی حکومت نے زرعی پیداوار، معدنی وسائل، اور دیگر قدرتی وسائل کا فائدہ اُٹھایا، اور اس کے اثرات آج بھی پاکستان میں محسوس کیے جاتے ہیں۔ آزادی کے بعد پاکستان میں سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد مزید مستحکم ہوئی، اور یہ نظام ترقی کی رفتار کو محدود کرنے کے بجائے بیشتر وسائل اور دولت کو چند مخصوص طبقوں تک محدود کر رہا ہے۔
گلگت بلتستان جیسے علاقے میں سرمایہ داری کا اثر زیادہ گہرا ہے کیونکہ یہاں کے قدرتی وسائل، خصوصاً پانی، معدنیات، اور جنگلات کی بڑی مقدار موجود ہے۔ یہ علاقے تاریخی طور پر سرداروں، جاگیرداروں اور کچھ مخصوص قبیلوں کے زیر اثر رہے ہیں، جنہوں نے سرمایہ دارانہ طریقوں کے تحت ان وسائل کا استحصال کیا۔ یہاں کے لوگ اقتصادی طور پر ایک طرح سے محروم ہیں کیونکہ وسائل کا بڑا حصہ باہر کے سرمایہ کاروں اور حکومتی اداروں کے ہاتھ میں ہے۔ گلگت بلتستان میں جغرافیائی لحاظ سے یہ علاقے اہمیت رکھتے ہیں، مگر یہاں کے لوگوں کو ان وسائل کے فائدے سے محروم رکھا گیا ہے، اور یہ نظام ان کی غربت کو بڑھا رہا ہے۔
پاکستان میں سرمایہ دارانہ نظام نے مختلف شعبوں میں طبقاتی تفریق کو گہرا کر دیا ہے۔ معاشی ناہمواری کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ ملک کے کچھ حصوں میں لوگ ترقی کی شاہراہ پر چل رہے ہیں، جب کہ دوسرے حصے اس ترقی سے مکمل طور پر باہر ہیں۔ پاکستان کے بڑے شہر جیسے لاہور، کراچی، اسلام آباد، اور پشاور میں ترقی کی رفتار زیادہ دیکھی جاتی ہے، لیکن چھوٹے شہر اور دیہات آج بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں زیادہ تر سرمایہ ان علاقوں میں آتا ہے جہاں پر بڑی صنعتیں اور تجارتی مراکز موجود ہیں۔ گلگت بلتستان جیسے پسماندہ علاقوں میں زیادہ تر وسائل حکومتی سطح پر غیر موثر انداز میں خرچ کیے جاتے ہیں، اور ترقی کے منصوبے اکثر صرف کاغذوں تک محدود رہ جاتے ہیں۔
پاکستان کی سیاست بھی سرمایہ دارانہ نظام کے اثر سے بچ نہیں پائی۔ سیاسی جماعتوں کی اکثریت بڑی کاروباری شخصیات یا جاگیرداروں کے ہاتھ میں ہے، جو اپنی ذاتی مفادات کی تکمیل کے لیے سیاست کرتے ہیں۔ اس سیاسی تناظر میں، عام عوام کی ضروریات اور مسائل اکثر نظرانداز ہو جاتے ہیں۔ یہ طبقاتی تفریق سیاسی میدان میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے، جہاں بڑے جاگیردار، صنعتکار اور سرمایہ دار طبقہ اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے حکومتی فیصلوں میں شامل ہوتا ہے، جس کا نتیجہ عوام کے لیے ناپسندیدہ اور نقصان دہ فیصلوں کی صورت میں نکلتا ہے۔ پاکستان کی سیاست میں سرمایہ داری کا اثر اس قدر بڑھ چکا ہے کہ حکومتی پالیسیوں میں عوامی مفاد سے زیادہ سرمایہ داروں اور سرمایہ کاروں کے مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے۔
اقتصادی ترقی کے نام پر سرمایہ دارانہ نظام نی لوگوں کو مسابقتی، انفرادی، اور خود غرض بنا دیا ہے۔ اس نظام میں دولت کی تقسیم کا تناسب غیر منصفانہ ہے، اور یہ معاشرتی روابط میں بھی دراڑ ڈالتا ہے۔ پاکستان میں طبقاتی تفریق اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ ایک طرف بہت امیر لوگ ہیں جو اپنے وسیع وسائل سے فائدہ اٹھا رہی ہیں، اور دوسری طرف ایک بہت بڑی غریب طبقہ ہے جو بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہے۔ اس فرق کی وجہ سے سماج میں تفرقہ بڑھ رہا ہے اور لوگ ایک دوسرے سے دور ہو رہے ہیں۔
جب ہم گلگت بلتستان کی بات کرتے ہیں، تو یہاں کے لوگوں کی حالت اور بھی زیادہ مشکل ہے۔ قدرتی وسائل کی بے شمار دولت ہونے کے باوجود یہ علاقے معاشی ترقی سے محروم ہیں۔ یہاں کے لوگ بنیادی طور پر زراعت اور مال مویشیوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں، مگر ان کے پاس ان وسائل سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی صلاحیت نہیں ہے۔ حکومت اور نجی سرمایہ کار ان وسائل کا استحصال کر رہے ہیں، اور مقامی لوگ ان وسائل سے فائدہ نہیں اٹھا پا رہے۔ یہاں کے لوگ نہ صرف اقتصادی طور پر پیچھے ہیں بلکہ ان کی ثقافت اور زبانوں کو بھی سرمایہ داری کے زیر اثر کمزور کیا جا رہا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے اثرات صرف اقتصادی سطح تک محدود نہیں ہیں، بلکہ اس کا سماجی اثر بھی بہت گہرا ہے۔ جب دولت اور وسائل کا زیادہ تر حصہ چند افراد یا کمپنیوں کے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے، تو یہ معاشرتی تعلقات اور اعتماد کو بھی متاثر کرتا ہے۔ غریب اور متوسط طبقے کے لوگ اس نظام کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں، کیونکہ وہ اسے اپنے حقوق کی پامالی اور استحصال کے طور پر دیکھتے ہیں۔ پاکستان میں اس نظام کے خلاف کئی بار احتجاجات اور تحریکیں ہوئی ہیں، مگر ان کی تاثیر اکثر محدود رہی ہے، کیونکہ سرمایہ دارانہ طبقہ اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے ان تحریکوں کو کچلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
پاکستان میں سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ترقی کی جو پالیسیاں اپنائی جاتی ہیں، ان میں اکثر مقامی عوام کی بھلائی کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ حکومتی منصوبوں میں اکثر بیرونی سرمایہ کاری کی ترغیب دی جاتی ہے، جس کا مقصد صرف مقامی وسائل کو بیرونی سرمایہ کاروں کو فروخت کرنا ہوتا ہے، نہ کہ مقامی لوگوں کو فائدہ پہنچانا۔ اس طرح، مقامی سطح پر اقتصادی خودمختاری کا فقدان ہو جاتا ہے، اور لوگوں کی زندگیوں پر سرمایہ دارانہ مفادات کا غلبہ بڑھ جاتا ہے۔
گلگت بلتستان جیسے علاقے میں یہ مسائل اور بھی سنگین ہیں کیونکہ یہاں کے لوگ مختلف قدرتی وسائل کی ملکیت رکھتے ہیں، لیکن ان کا فائدہ اٹھانے کے وسائل اور مواقع نہیں ہیں۔ یہاں کے کسان اور مزدور اس بات سے بے خبر ہیں کہ ان کے علاقے میں کس قدر قدرتی وسائل موجود ہیں جو ملک کی معیشت کے لیے بہت اہم ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام نے ان وسائل کا استحصال کیا ہے، اور یہاں کے لوگ اس سے فائدہ نہیں اٹھا پائے ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام کا پاکستان اور خصوصاً گلگت بلتستان پر جو اثر ہے، وہ بہت پیچیدہ اور منفی ہے۔ اس نظام کے تحت، جہاں ایک طرف ترقی کے دعوے کیے جاتے ہیں، وہاں دوسری طرف غربت، استحصال، اور طبقاتی تفریق بڑھتی جا رہی ہے۔ اس نظام کو ختم کرنے اور ایک زیادہ مساواتی معاشرتی اور اقتصادی ماڈل کو اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہر شخص کو اس کے حقوق مل سکیں اور وسائل کی منصفانہ تقسیم ممکن ہو۔

جواب دیں

Back to top button