Column

ریلیف لالی پاپ

تحریر : سیدہ عنبرین
بہت اہتمام سے خبریں جاری کرائی گئی ہیں کہ عوام کو بجلی کے حوالے سے ایک بڑے ریلیف کی تیاری شروع ہو چکی ہے، عنقریب یہ ریلیف عام آدمی کی دہلیز پر ہو گا۔ ایسے ریلیف کی کہانیاں سنتے سنتے عمر بیت گئی۔ ریلیف جب گھر کے دروازے تک پہنچتا ہے تو اس کی شکل اتنی مسخ ہو چکی ہوتی ہے پہچانی نہیں جاتی۔ حال میں ہی انتقال کر جانے والے پٹرول ریلیف کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے، اس ریلیف سے پٹرول کی قیمتوں میں قریباً 10سے 15روپے فی لٹر ریلیف ملنا تھا، لیکن منصوبہ سازوں کے فیصلے کے مطابق اس ریلیف سے قومی خزانے کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا ، لہٰذا یہ ادارہ ترک کر دیا گیا، حالانکہ عالمی منڈی میں پٹرول کی قیمتوں میں کمی سے دنیا بھر میں پٹرول صارفین کو فائدہ ہوا ہے، لیکن ہماری اکانومی، ہمارے ڈے ٹو ڈے اخراجات چلانے کیلئے، بھاری غیر ملکی قرضوں، اثاثوں کی فروخت کے علاوہ جن چیزوں پر انحصار ہے ان میں پٹرول سے ہونے والی کمائی سرفہرست ہے۔ سال میں متعدد موقعے ایسے آتے ہیں جب پٹرول کی قیمت عالمی منڈی میں کم ہوتی ہے، لیکن اس ریلیف میں سے روپیہ، دو روپے صارفین تک منتقل کر کے اسے عظیم عوامی خدمت میں شمار کیا جاتا ہی۔ تواتر سے بتایا جا رہا ہے کہ ملک میں چینی کے ذخائر ضرورت کے مطابق ہیں، لیکن اس کے باوجود چینی کی فی کلو قیمت 180روپے تک پہنچ چکی ہے۔ فی الحال تو یہ ریلیف چینی مافیا کیلئے ہے، بلیک مارکیٹنگ بزنس اور سٹاکسٹ کیلئے ہے، عوام کی باری آنے میں شاید بہت وقت لگ جائے، کچھ عجب نہیں بستر گول ہو جائے۔ ایک مرتبہ پھر مجھے کیوں نکالا کی المیہ غزل راگ مالکوس میں گاتے نظر آئیں، آثار کچھ ایسے ہی ہیں۔ سرکاری ناکامیوں کو اشتہار بازی کے پردے میں چھپانے کی کوششیں اسی طرح کی جاتی ہیں۔ گھنے بادل آئیں تو اندازہ ہو جاتا ہے بارش زیادہ دور نہیں، نظام کے چل چلائو کی نشانیاں واضح ہو رہی ہیں، چند ماہ قبل اعداد و شمار سامنے آئے تھے کہ بجلی کے بلوں میں 21ارب روپے کی اوور بلنگ کی گئی ہے، اس لوٹ مار پر کراچی سے خیبر تک شور اٹھا تو وقتی طور پر تسلی دینے کیلئے تحقیقاتی کمیٹی کا اعلان ہو گیا، تحقیقات مکمل ہو چکی، ذمہ داروں کا تعین ہو چکا، اب معاملہ صرف سزا سنانے کا تھا، شواہد نے ثابت کر دیا کہ موٹی گردنوں والے اعلیٰ گریڈ کے افسر ذمہ دار ہیں، موٹی گردنوں والے چھوٹی اور پتلی گردنوں میں یہ پھندا ڈالنا چاہتے تھے، جس کیلئے شواہد ناکافی تھے۔ پس سزائوں کا فیصلہ موخر ہو گیا، ملزم سے محرم تک سبھی خوش ہیں، اب عام آدمی سے کہا جا رہا ہے اس معاملے، اس ڈکیتی کو اللہ تعالیٰ کی رضا، اس کی طرف سے آزمائش سمجھ کر قبول کر لیا جائے۔
پاور سیکٹر کے 300ٹاپ رینکنگ نادہندگان کی فہرست تیار ہے۔ بجلی کی نو تقسیم کار کمپنیاں ڈیفاٹرز سے 877ارب روپے کی ریکوری نہ کر سکیں۔ معاملہ پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کے روبرو پہنچا تو انکشاف ہوا کہ 21ارب روپے کی اوور بلنگ کے ذمہ داروں کو چھوڑنے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ چیئرمین کمیٹی وزارت خزانہ کے حکام پر برہم ہوئے اور پوچھا کہ کتنے افسروں کے خلاف ایکشن کہا گیا ہے تو کسی کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا، صارفین کے جیبوں پر ڈاکہ ڈال کر لوٹے گئے 21ارب روپے صارفین کو واپس کئے جانے چاہئیں لیکن تمام متعلقہ ادارے خاموش ہیں۔ متعلقہ وزارت نے تو گویا لب سی رکھے ہیں۔ ایک طرف تو اتنی خطیر رقم لوٹ کر خزانے میں ڈال دی گئی، اب اس رقم کے متعدد حصے بخرے کر کے مختلف ناموں سے ننھے منے ریلیف دینے کے وعدے سامنے آ رہے ہیں جو جانے کب اور کس شکل میں سامنے آئیں۔
بلوچستان میں ٹرین ہائی جیک کے واقعے کے حوالے ایک پریس کانفرنس میں سوال اٹھایا گیا کہ مسنگ پرسنز امریکہ، برطانیہ، فرانس، بھارت غرضیکہ ہر ملک میں ہوتے ہیں، لیکن وہاں کوئی سکیورٹی فورسز پر حملے نہیں کرتا۔ بات درست ہے لیکن شاید اس کی وجہ بیان کرنا مناسب نہیں سمجھا گیا۔ وہاں عدالتیں آزاد ہیں، بغیر کسی دبائو کے فیصلہ کرتی ہیں، کسی جج کو ڈرایا دھمکایا نہیں جاتا، نہ ہی وہاں انڈر پریشر کرنے کیلئے ویڈیو گرافی کلچر ہے۔ عدالت جب کسی کی بازیابی کا فیصلہ کر دے تو اسے پیش کئے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ غیر ملکی سرکاری ایجنسیاں عدالت کے روبرو غلط بیانی سے کام نہیں لیتیں، امریکہ اور امریکی نظام کی خوبیاں گنوانے والے ذرا ان باتوں پر بھی دھیان دیں، جن سے عام آدمی کو ریلیف ملتا ہے، اسی حوالے سے ٹرمپ انتظامیہ نے ایک عجیب فیصلہ کیا ہے، جو ہے تو بدنیتی پر مبنی، لیکن بہانہ یہ بنایا گیا ہے کہ اس سے غیر ضروری اخراجات میں کمی ہو گی اور حکومت پر بوجھ کم کرنے میں مدد ملے گی۔ٹرمپ آرڈر کے تحت ایک صحافتی ادارے وائس آف امریکہ کے بڑی تعداد میں ملازمین کو تنخواہ دے کر لمبی چھٹی پر بھیج دیا گیا ہے، بنیادی تنخواہ سے وہ اپنا کچن چلا لیں گے، لیکن دیگر الائونس اور آئوٹ ڈور اخراجات روک دیئے گئے ہیں ، اسی آرڈر کے تحت روس، چین اور شمالی کوریا کو نشریات پہنچانے کے حوالے سے بھی مالی معاونت بند کر دی گئی ہے۔ اس فیصلے سے ہزاروں ملازمین متاثر ہوں گے، جو کئی دہائیوں سے دنیا بھر کو اپنے انداز میں واقعات سے باخبر رکھے ہوئے ہیں۔ یہ مجموعی طور پر سات ادارے ہیں، جو اس حکم کی زد میں آ رہے ہیں۔ وائس آف امریکہ کی نئی ڈائریکٹر اور ٹرمپ کی قریبی ساتھی کاری لیک نے کہا ہے کہ انہیں بعض اداروں کو مکمل طور پر بند کرنے کی ہدایات ملی ہیں، لیکن وہ اسے بہتر بنانے کی کوششیں کریں گی۔ امریکہ میں آزادانہ صحافت کے سبب حکومت پریشانیوں کا شکار رہتی ہے، اب وہاں بھی میڈیا کا گلہ گھوٹنے کیلئے مختلف ہتھکنڈی استعمال کئے جا رہے ہیں۔ ایک امریکی حکومتی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ٹرمپ فیصلے سے ایک لاکھ افراد متاثر ہوں گے۔ ٹرمپ کے اس اقدام سے امریکی خارجہ پالیسی اور آزادی صحافت پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستان میں حالات اس اعتبار سے قدرے مختلف ہیں، ہمارے یہاں بعض میڈیالی ادارے سفید ہاتھی ہیں، وہ حکومتی مدد پر انحصار کم کرتے ہیں، جبکہ عام آدمی کا لہو نچوڑ کر انہیں مصنوعی تنفس کے ذریعے زندہ رکھا جا رہا ہے۔ پاکستان ٹیلی ویژن ان میں ایک ہے، ٹیلی ویژن فیس کے نام پر بھی صارفین کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے کا پروگرام شاید 20برس قبل شروع ہوا ہے اور آج تک جاری ہے۔ عوام باقاعدگی کے ساتھ لٹ رہے ہیں، جبکہ پی ٹی وی ترقی معکوس کی طرف رواں دواں ہے، اس سرکاری سکرین پر سرکار کی مدح سرائی اور کوریج کے سوا ڈھنگ کا کوئی ایسا پروگرام نہیں جس میں عام آدمی کی کوئی دلچسپی باقی رہی ہو۔ کبھی یہ ایک نامور ادارہ تھا ، جب سے تصویر کا ایک رخ دکھانے کا چلن عام ہوا ہے، عام آدمی نے اس سے منہ موڑ لیا ہے۔

جواب دیں

Back to top button