وزیرتعلیم پنجاب کی توجہ کے لئے

تحریر : رفیع صحرائی
گزشتہ سال پتا چلا تھا کہ پنجاب کے سرکاری سکولوں میں اس مرتبہ طلبہ کو مفت کتابیں مہیا نہیں کی جا سکیں گی کیونکہ نگران حکومت نے اس مد میں فنڈز ہی مختص نہیں کئے تھے جس پر نومنتخب وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے فوری طور پر مطلوبہ فنڈز جاری کر کے طلبہ کو مفت کتابوں کی فراہمی کے عمل کو یقینی بنایا تھا۔
اگر ہم پنجاب کے وزراء کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو صوبائی وزیر تعلیم رانا سکندر حیات ہمیں نمایاں اور ممتاز نظر آتے ہیں۔ ہر لمحہ متحرک رہنے والے رانا سکندر حیات نوجوان اور انرجیٹک ہیں۔ صوبے میں فروغ تعلیم کے لیے بڑی سنجیدگی سے کوشاں ہیں۔ جہاں ضرورت پڑتی ہے اپنے اساتذہ کے لیے بہترین وکیل کے روپ میں سامنے آ جاتے ہیں۔ وہ وزارت کو اعزاز کی بجائے خدمت خلق کا بڑا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کمیشن، کک بیکس اور کرپشن کے سخت خلاف ہیں۔ اپنے بیٹے کو سرکاری سکول میں داخل کروا کر انہوں نے اپنے عزائم ظاہر کر دیئے ہیں کہ وہ پنجاب کے سرکاری سکولوں کو کس مقام پر لے کر جانا چاہتے ہیں۔
اب آتے ہیں اصل مدعا کی طرف پنجاب کے سکولوں میں سرکاری طور پر پہلی جماعت سے میٹرک تک طلبہ کو مفت کتابیں مہیا کی جاتی ہیں۔ مفت کتابیں دینے کا سلسلہ سرکاری سکولوں کے ساتھ ساتھ پیف سکولوں میں بھی جاری ہو چکا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا کام ہے۔ ہر سال کروڑوں کی تعداد میں کتابیں چھپوا کر طلبہ میں تقسیم کرنا کوئی معمولی کام نہیں ہے لیکن افسوس کہ اس سہولت سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا جا پا رہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کتابیں انگلش میڈیم میں چھپی ہوتی ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں کی 70فیصد آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے اور جن کی اکثریت کے لیے اردو بولنا تو درکنار اردو سمجھنا بھی مشکل ہوتا ہے وہاں پر انگریزی ذریعہ تعلیم لاگو کرنا غیر سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ فروغ تعلیم کے اہداف حاصل کرنے کے لیے پرائمری سطح پر ذریعہ تعلیم اردو کے ساتھ ساتھ مادری زبان کو بنایا جاتا لیکن یہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ پرویز مشرف حکومت نے جانے کس کے ’’ مطالبے‘‘ پر یہ انوکھا فیصلہ کر ڈالا تھا کہ سرکاری سکولوں میں انگلش میڈیم ذریعہ تعلیم ہو گا۔ یہ فیصلہ بری طرح ناکام ثابت ہوا چنانچہ بعد میں پنجاب حکومت نے یہ فیصلہ واپس لے کر طلبہ کو اختیار دے دیا کہ وہ اردو یا انگریزی میں سے جو میڈیم چاہیں اختیار کر لیں۔ دیہاتی سکولوں میں ایک فیصد طلبہ بھی انگریزی میڈیم اختیار نہیں کرتے جبکہ
شہروں میں بھی انگلش میڈیم طلبہ کی تعداد دس فیصد سے کم ہے مگر حیرت انگیز طور پر پورے صوبے میں طلبہ کو مفت کتابیں انگلش میڈیم میں مہیا کی جاتی ہیں جن سے استفادہ کرنا ممکن نہیں۔ یہ کتابیں بیکار پڑی رہتی ہیں۔ طلبہ بازار سے اردو میڈیم درسی کتابیں یا گائیڈز اور خلاصے خریدتے ہیں جو اس ہوش ربا مہنگائی کے دور میں والدین پر اس لیے بوجھ ہے کہ حکومت مفت کتابیں دے رہی ہے۔ اگر یہی کتابیں اردو میڈیم میں چھپوا کر تقسیم کی جائیں تو اس سکیم سے خاطر خواہ فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ صرف ان طلبہ کو انگلش میڈیم کتابیں دی جائیں جن کا ذریعہ تعلیم انگریزی ہو ورنہ اس منصوبے کی حیثیت بکری سے دودھ لینے جیسی ہی رہ جاتی ہے۔ بکری دودھ تو دیتی ہے مگر اس میں مینگنیاں ڈال دیتی ہے، جس سے وہ دودھ بیکار جاتا ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ ہر سال انگلش میڈیم کتابیں دینے کے باوجود آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ صرف انگلش میڈیم میں امتحان لیا گیا ہو۔ ہمیشہ اردو میڈیم کا آپشن ساتھ میں دیا جاتا ہے۔ پہلی جماعت سے لے کر میٹرک تک طلبہ اردو یا انگلش جس میڈیم میں چاہیں پیپر حل کریں۔ میٹرک میں 95فیصد طلبہ اردو میڈیم میں پیپر حل کرتے ہیں۔ ابھی رواں ہفتے پہلی سے آٹھویں جماعت تک امتحان کے لیے سرکاری طور پر جو سوالنامے ایٹم بینک سے جاری کیے گئے وہ بھی اردو اور انگلش دونوں میڈیم میں ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سرکاری طور پر مفت تقسیم ہونے والی انگلش میڈیم کتابوں کی افادیت کیا ہے؟ یہ کس کی پالیسی ہے کہ اردو میڈیم میں امتحان دینے والے طلبہ کو انگلش میڈیم میں کتب مہیا کی جائیں؟ یہ کیسا مذاق ہے پہلی جماعت کا بچہ جسے صحیح طرح اردو میں ہجے کرنے بھی نہیں آتے اسے انگلش میں ریاضی کے کانسیپٹ کلیئر کرائے جائیں۔ چوتھی پانچویں جماعت کے طلبہ ریاضی کے ساتھ ساتھ سائنس بھی انگریزی میں پڑھیں۔ ایسے غیر سنجیدہ فیصلے کون کرتا ہے؟ کہیں پرائیویٹ پبلشرز کو نوازنے کے لیے تو ایسا نہیں کیا جا رہا؟ ایک طرف سابقہ حکومتیں ہر سال شرح داخلہ میں اضافے پر زور دیتی رہی ہیں جبکہ دوسری طرف تعلیمی عمل میں رکاوٹیں ڈال کر اپنے ہی احکامات کو غیر اہم بھی کرتی رہی ہیں۔
اب سرکاری سکولوں میں طلبہ کے سالانہ امتحانات ہو رہے ہیں۔ یکم اپریل سے نئے تعلیمی سیشن کا آغاز ہو گا۔ نئے سال کے لیے کتابیں چھپنا شروع ہو چکی ہوں گی۔ کیا پنجاب حکومت اور خصوصاً وزیر تعلیم رانا سکندر حیات تک کوئی درد مند یہ اہم مسئلہ پہنچائے گا کہ ردی کی حیثیت رکھنے والی انگلش میڈیم کتابوں کی بجائے اس سال طلبہ کو عملی افادیت رکھنے والی اردو میڈیم کتابیں مہیا کر کے طلبہ اور غریب والدین کی دعائیں لی جائیں۔
اے چارہ گرو! کچھ چارہ گری کرو۔
سابقوں کی کھینچی گئی لکیر کے فقیر بننے کی بجائے اپنے مثبت نقوش ثبت کر جائیں تاکہ آنے والے حکمران آپ کی تقلید کریں۔