Abdul Hanan Raja.Column

دانشوروں کی نہیں دانش مندوں کی ضرورت

تحریر : عبد الحنان راجہ
دانشوروں کی ہمارے ہاں کمی نہیں۔ ایوان اقتدار میں بھی اور حزب اختلاف تو دانشوری کی یونیورسٹی۔ قومی ہو یا سوشل میڈیا ان سے بھرا پڑا ہے۔ تو ان حالات میں فہم تدبر فراست علم اور حلم نے تو رخصت پہ جانا ہی بہتر سمجھا۔ بلکہ سچ تو یہ کہ ہماری زبانیں ہمارے ٹریفک نظام کی طرح بے ہنگم۔ یہی تو وجہ کہ ہزاروں لاکھوں دانشوروں میں دانش مند ملنے کو نہیں۔ دہشت گردی کے دو بڑے واقعات بنوں کینٹ اور بلوچستان میں جعفر ایکسپریس پر بہت کچھ لکھا اور سنا جا چکا۔ اس پر جس نے جو کہا اپنے ظرف اور فہم کے مطابق ہی کہا اس پر ھم کیوں سیخ پا ہوں ہاں کسی کی شر انگیزی اور متعصبانہ گفتگو پر اظہار افسوس ضرور۔ دانائوں نے احمقوں کی جو نشانیاں بیان کیں اس کے مطابق ہمیں خود کو اس ہر جانچ کر اصلاح کی ترکیب کرنی چاہیے اور اس پیمانے پر قومی راہنمائوں کی اہلیت کو تول کر اپنا نظریاتی قبلہ درست۔ کہ جن کے ہاتھ ہم اپنی و ملک کی تقدیر سپرد کئے بیٹھے ہیں وہ کتنا اس کے اہل اور کس حد تک ان شرائط پر پورا اترتے ہیں۔
01۔ بلا وجہ غصہ
2۔ فضول خرچی
3۔ بلا مقصد گفتگو
4۔ دوست دشمن میں پہچان نہ کر سکنا
5۔ راز افشا کرنا
06۔ اپنے اپ کو دانشور جان کر جو جی میں آئے کہہ گزرنا۔
معروف تابعی سفیان بن عینیہ فرماتے ہیں کہ ’’ اچھے برے میں تمیز کر لینا عقل مندی نہیں بلکہ اچھائی کو پہچان کر عمل اور برائی سے بچ جانا دانش مندی ہے‘‘۔
علم اور حکمت سے عاری دانشوروں کے لئے پاکستان جنت کہ بے لگام آزادی اظہار اب اس سے بھی زیادہ کے خواہش مند۔ جو جی میں آیا کہہ ڈالا بلا روک ٹوک و بلا جھجک۔ ادارے پوچھتے نہیں اور ضمیر رخصت پہ۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم دانشور اور دانش مند کے مابین فرق کو اب تلک نہ سمجھ سکے اور نتیجہ انتہا پسندی اور ہیجان انگیزی کی صورت میں سامنے۔ شعلے اگلتی زبانیں اور عدم برداشت مسائل کی گھتیوں کو سلجھانے کی بجائے مزید الجھانے کا سبب۔ صحافت سیاست بلکہ ہر شعبہ میں دانشوروں کا جمعہ بازار مگر دانش مند ڈھونڈنے کو نہیں ملتا۔ بھلا کون فہمیدہ راہنما اپنے کنبے قبیلے اور ملک کے لیے منفی جذبات و خیالات رکھ سکتا ہے چاہے اختلاف ذاتی نوعیت کے ہوں سیاسی و مذہبی ہوں یا علاقائی۔ اختلاف رائے کا حق تو ہر کسی کو مگر حدود و قیود کے ساتھ۔ اپ اپنے بنیادی حقوق پرسکون اور اچھی زندگی کے لیے مطالبات کر سکتے ہیں اداروں سے حکومتوں سے ریاست سے مگر دنیا کا کوئی قانون ضابطہ اور شرعی حجت اپ کو اپنے نظریات کے پرچار یا حقوق کے حصول کے لیے نفرت انگیز مہم یا مسلح جد و جہد کی اجازت نہیں دیتی۔ پاکستان کی ایک بدقسمتی یہ بھی کہ اس کے ایک طرف پانچ گنا بڑا دشمن تو دوسری سرحد اپنوں سے غیر محفوظ۔ پھر آستین کے سانپوں کی حمایت بھی۔
نفرتیں بیچنے والوں کی بھی مجبوری ہے
مال تو چاہئے دکان چلانے کے لیے
دستیاب معلومات کے مطابق کم از کم پانچ ممالک چہار سو جانب سے پاکستان پر دہشت گردی کی یلغار میں یک سو اور وہ کسی طور دنیائے اسلام کی واحد ایٹمی قوت کو پنپنا دیکھ نہیں سکتے۔ رہی سہی کسر نااہل سیاست دانوں بد مست بیوروکریسی نے پوری کر رکھی ہے جبکہ سیاست دانوں کے انتہا پسند گروپ اور مقتدرہ کی چپقلش اس سے سوا۔ مگر کیا یہ بھی حقیقت نہیں کہ شر ہمارے خمیر میں داخل ہو گیا یا کر دیا گیا کہ تعلیم یافتہ ہونے اور دور جدید کا باسی ہونے کے باوجود ہم معتدل مزاجی برداشت اور حکمت سے محروم اور ہمارے روئیے اور گفتگو تعمیر کی بجائے آمادہ بہ تخریب۔ تنگ نظری ایسی کہ دل و دماغ سے دور ہی نہیں ہوتی اور شکوک کے سائے گہرے۔ انتہا پسندی کہیں مذہبی بنیادوں تو کہیں سیاسی و لسانی تفریق۔ ان حالات میں کہ جب ملک میں دہشت گردی کی زد میں ایسے میں نفرتوں کی سوداگری نامناسب اور قابل مذمت۔ بلوچستان میں جعفر ایکسپریس کے مسافروں کے ساتھ تو دہشت گردوں نے جو کرنا تھا سو کیا مگر اس موقع پر اپنوں کے گھائو نے مضطرب و مضمحل ضرور کیا۔ یہ تو اللہ کی مدد سیکیورٹی اداروں کے شامل حال رہی اور انکی مہارت ایسی کام آئی کہ سازشی عناصر کی توقعات تباہ و برباد ہو گئیں۔ ایسے واقعات میں ترقی یافتہ ممالک اور جدید ترین اسلحہ بردار بھی بے بس ہوتے پائے گئے۔ مگر سلام ہمارے جری جوانوں کو کہ جنہوں نے جرات اور فراست سے اس کو ناکام بنایا اور دہشت گردوں نے جس طرح کی طویل منصوبہ بندی کر رکھی تھی اور ہر گزرتے لمحہ کے ساتھ انہیں اندر کے ناسوروں کی اخلاقی حمایت ہونا تھی وہ ضرار کمپنی کے شیر دل جوانوں نے لمحوں میں زمیں بوس کر دی۔ مگر ایک بات قابل توجہ کہ ایسے حادثات ذمہ دار اقوام کے لئے سیکھنے اور سوچنے کی راہیں کھولتے ہیں مگر ایسا کیا ہے کہ افغانستان جیسے پڑوس کے ہوتے ہوئے جب وہاں ہمارے دونوں بڑے دشمن سر جوڑے بیٹھے ہیں کی سازشوں کو نظر انداز کیا گیا۔ اس میں بھی شک نہیں کہ جوں جوں سی پیک اور گوادر تعمیر کے آخری مراحل کی طرف بڑھ رہے ہیں اور یہ دونوں منصوبہ جات آمدہ سال پاکستان کی ترقی کے لیے زینہ ثابت ہونے کو ہیں ان حالات میں خفیہ اداروں کے ذمہ فرائض اور بھی زیادہ۔ ان واقعات کا تواتر نئی صف بندی اور منصوبہ بندی کا کھلا اشارہ کہ اندر کے منافقین کا قلع قمع کئے بغیر دہشت گردوں کی کمر توڑنا ممکن نہیں۔ ملکی سلامتی بارے گومگو کے فیصلوں نے وقت کا ضیاع بھی کیا اور جانوں کا بھی۔ ریاست غیر قانونی غیر ملکیوں بارے کیوں یکسو نہیں ملک بدری شروع ہوتی ہے اور چند یوم بعد یہ مہم روایتی غفلت کا شکار۔ ڈیجیٹل انتہا پسندی کو کیوں روکا نہیں جا رہا۔ ملک دشمنوں کو لگام ڈالنے میں رکاوٹ کیا ہے۔ قومی و سوشل میڈیا کو ترقی استحکام اور اصلاح احوال کے لیے درست اور پر اثر انداز سے استعمال کیوں نہیں کیا جا رہا۔ ملک کے اندر انتہا پسندی کے مراکز ابھی تک اداروں کی نظروں سے اوجھل کیوں۔ ایسے کٹھن مواقع پر حکومتی وزرا اور ذمہ داران اسٹیبلشمنٹ کے پیچھے کیوں چھپتی ہے۔ حکمران دہشت گردی و انتہا پسندی پر واضح موقف سے کیوں گھبرا تے ہیں۔ یہ وہ سوالات ہیں جن پر عمل کے بغیر دانشوروں پر قابو پایا جا سکتا ہے اور نہ دہشت گردی پر۔ اب ریاست کو اپنی رٹ کے قیام کے لیے مصلحت کو بالائے طاق رکھنا مجبوری ۔ ادھر بلوچ علیحدگی پسند جو چورن کو علم نہیں کہ خود وہ اور بعض سردار بلوچ عوام کی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ اور جہالت الگ ڈیرے جمائے بیٹھی ہے ۔ بلوچ عوام کے نام پر وسائل اور اقتدار کے مزے لئے جاتے ہیں مگر پھر بھی حالات ہیں کہ بدلتے نہیں۔ کیوں؟!!! قوم کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ گوادر اور سی پیک پیک کسی طور عالمی طاقتوں بشمول بھارت اور اسرائیل کو قبول نہیں اس لیے اس کے خلاف وہ اپنے تمام وسائل بروئے کار لا رہے ہیں بشمول نظریاتی تفریق جسے سوشل میڈیا کے ذریعے پروان چڑھایا جا رہا ہے اور بدقسمتی سے ہمارے بعض ذہین مگر نادان ان کی مہم کا شکار۔ پھر ہماری بدقسمتی یا نظام کی ناکامی کہ دشمن کو اس دھرتی سے سیاسی و مذہبی آلہ کار بھی خوب میسر جبکہ اہم اداروں میں کچھ کالی بھیڑیں ان کی معاون۔ فی الوقت ملک کو دانش ور کی نہیں دانش مند قیادت کی ضرورت کہ اب اگر مگر کی گنجائش ہے اور نہ مصلحت کوشی قومی مفاد میں۔ ذاتی اور قومی سطح پر جھوٹا پروپیگنڈا بند اور قانون شکن پر بلا تفریق قانون کی گرفت سخت کرنے کی ضرورت کہ اس کے بغیر امن کی شروعات ممکن نہیں، وگرنہ خاکم بدہن، مستقبل میں بھی بنوں کینٹ اور جعفر ایکسپریس جیسے حادثات ہمارے منتظر۔ پاکستان پائندہ باد ؟!!

جواب دیں

Back to top button