ColumnRoshan Lal

چھ نئی نہریں ۔ مگر کیا پانی دستیاب ہے

تحریر : روشن لعل
کہا جاتا ہے کہ جس علاقے میں کوئی نئی نہر تعمیر ہو وہاں سبز انقلاب برپا ہونے کی راہ ہموار ہو جاتی ہے۔ نئی نہروں کی تعمیر سے سبز انقلاب برپا ہونا عین ممکن ہے مگر ایسا ہونا اس بات سے مشروط ہے کہ نہروں میں بہانے کیلئے دریائی پانی ، غیر متنازعہ طور پر وافر مقدار میں دستیاب ہو۔ پنجاب کے چولستانی علاقوں میں سبز انقلاب برپا کرنے کا نعرہ لگاتے ہوئے چھ نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کا اعلان ہونے کے بعد صوبہ سندھ کی طرف سے یہ اعتراض اٹھایا گیا ہے ان نہروں کے لئے پانی غیر متنازعہ طور پر دستیاب ہو نے شرط پوری نہیں کی جارہی۔
پنجاب اور سندھ کے درمیان دریائی پانی کے تقسیم پر تنازع کی تاریخ تقسیم ہند سے بھی پرانی ہے۔ ہندوستان کی تقسیم سے پہلے جب دریائے ستلج پر ’’ ستلج کینالی ویلی پراجیکٹ‘‘ کے نام سے تعمیر کیے گئے تین بیراجوں سی نہریں نکالی گئیں تو صوبہ سندھ میں خاص طور پر ربیع کے موسم میں ضرورت کے مطابق پانی دستیاب نہ ہوا۔ اس وقت کی منتخب سندھ حکومت نے ضرورت کے مطابق پانی دستیاب نہ ہونے کی بنا پر گورنر جنرل ہندوستان کے سامنے اپنا احتجاج ریکارڈ پر لاتے ہوئے سندھ اور پنجاب کے درمیان پانی کی تقسیم اور دونوں صوبوں کا حصہ طے کرنے کا مطالبہ کیا۔ سندھ حکومت کا مطالبہ تسلیم کیے جانے کے بعد دونوں صوبوں کے محکمہ انہار کے چیف انجینئروں نے مذاکرات کیے۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں نہ صرف دریائے سندھ کے پانی کے بڑے حصے پر بلکہ اس کے تمام معاون دریائوں کے پانیوں کے مخصوص حصے پر بھی صوبہ سندھ کا حق تسلیم کیا گیا۔
تقسیم ہند کے بعد جب پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم کا تنازع کھڑا ہوا تو کئی سال جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد سندھ طاس معاہدے کے تحت یہ طے پایا کہ دریائے سندھ اور اس کے معاون دریائوں میں دونوں ملکوں کا کتنا حصہ ہوگا۔ اس معاہدے سے پہلے دریائے سندھ اور اس کے پانچ معاون دریائوں ستلج، بیاس، راوی، چناب اور جہلم کے کل دستیاب پانی کو جو تخمینہ لگایا گیا وہ ہندوستان کے مطابق 119ملین ایکٹر فٹ جبکہ پاکستان کے مطابق 118ملین ایکٹر فٹ تھا۔ اس پانی کی تقسیم کے لیے ابتدا میں ہندوستان کا مطالبہ خود 29ملین ایکڑ فٹ لینے اور پاکستان کو 90ملین ایکڑ فٹ پانی دینے کا تھا جبکہ پاکستان چاہتا تھا کہ ہندوستان کو 15.50ملین ایکڑ فٹ پانی دیا جائے اور 102.50ملین ایکڑ فٹ پانی اسے ملے ۔ جب دونوں ملک پانی کی تقسیم کے کسی فارمولے پر متفق نہ ہوئے تو ورلڈ بنک کی ثالثی میں یہ طے پایا کہ ہندوستان کو تین مشرقی دریائوں ستلج ، بیاس اور راوی کا مکمل پانی ملے گا جبکہ پاکستان کے حصے میں تین مغربی دریائوں چناب، جہلم اور سندھ کا 97فیصد پانی آئے گا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدہ طے پانے کے بعد پاکستان کے صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا تنازع کھڑا ہو گیا ۔ اس تنازع کو حل کرنے کیلئے کئی کمیشن بنے اور آخر کار 1991میں جب مرکز اور ملک کے چاروں صوبوں میں مسلم ن کی سر کردگی میں اتحادی حکومتیں کام کر رہی تھیں اس وقت پنجاب، سندھ، کے پی کے اور بلوچستان کے درمیان پانی کی تقسیم کا معاہدہ طے پا گیا۔ اس معاہدے کے بعد اس پر کچھ ایسے سوال اٹھائے گئے جن کا کبھی بھی کوئی تسلی بخش جواب سامنے نہیں آسکا۔
1991کے معاہدے کے تحت 114.34ملین ایکٹر فٹ کل دستیاب پانی میں سے پنجاب کا حصہ55.94 ملین ایکڑ فٹ ، سندھ کا حصہ48.76ملین ایکڑ فٹ، کے پی کے 5.78ملین ایکڑ فٹ اور بلوچستان کا حصہ 3.87ملین ایکڑ فٹ طے پایا۔ اس تقسیم پر یہ سوال اٹھا کہ جب قیام پاکستان کے وقت دریائے سندھ اور اس کے تمام معاون دریائوں کے کل پانی کا تخمینہ 118یا 119ملین ایکڑ فٹ تھا تو تین مشرقی دریائوں کے پانی سے پاکستان کے دستبردار ہونے کے باوجود یہ کیسے ممکن ہوا پاکستان میں دستیاب پانی کی مقدار 114.34ملین ایکڑ فٹ ہو گئی۔ اس سوال کا جواب جن اعداد و شمار کے ذریعے دینے کی کوشش کی جاتی ہے ان کی مطابقت دریائی پانی کے اس ڈیٹا سے کسی طرح بھی ثابت نہیں ہوتی جو ڈیٹا یہاں انگریز دور میں مدون ہوتا رہا ۔1991میں صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا جو معاہدہ طے پایا اس کے تحت معمول کے مطابق تو یہاں 114.34ملین ایکڑ فٹ پانی دستیاب ہوگا لیکن کچھ برسوں کے وقفے سے پاکستان میں جو سیلاب آتے ہیں ان کے ڈیٹا سے یہ ثابت کیا گیا کہی ہاں اوسطاً سالانہ 27ملین ایکڑ فٹ اضافی پانی بھی دستیاب ہوتا ہے۔ جن اعداد وشمار کی کی بنیاد پر 1947میں کل دستیاب 119ملین ایکڑ فٹ پانی کو تین دریائوں کے پانی سے دستبردار ی کے باوجود 114.34ملین ایکڑ فٹ بنا دیا گیا اسی ڈیٹا کو بنیاد بنا کر یہ مفروضہ پیش کیا جارہا ہے کہ یہاں اوسطاً سالانہ 27ملین ایکڑ فٹ اضافی پانی دستیاب ہوتا ہے۔ جس اضافی پانی کی دستیابی کی بنیاد ایک مفروضہ ہے اسی پانی کو دستیاب تصور کرتے ہوئے چولستان میں چھ نہروں کی تعمیر کا منصوبہ بنایا جارہا ہے ۔ صوبہ سندھ کا اس منصوبے پر بنیادی اعتراض یہ ہے کہ 1991کے پانی کی تقسیم کے معاہدے میں گو کہ کوٹری بیراج سے نیچے سمندر میں پانی کے ڈسچارج کا حصہ مختص نہیں کیا گیا تھا لیکن یہ بات ضرور طے پائی تھی کہ ٹھٹھہ اور بدین کے اضلاع کے ساحلی علاقوں کو مسلسل سمندری کٹائو سے بچانے کے لیے ہر برس سمندر میں 10ملین ایکڑ فٹ پانی پھنکنا ضروری ہے۔
ویسے تو 1976سے 2022کے واٹر ڈسچارج ڈیٹا کو بنیاد بنا کر یہ مفروضہ پیش کیا جارہا ہے کہ پاکستان میں اوسطاً سالانہ 27ملین ایکڑ فٹ اضافی پانی دستیاب ہوتا ہے لیکن حکومت سندھ کے ترجمانوں کے مطابق اسی ڈیٹا سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ سال 2000سے سال 2024تک صرف دو یا تین مرتبہ ایسا ہوا جب 10ملین ایکڑ فٹ تک پانی دریائے سندھ کے راستے انڈس ڈیلٹا تک گیا۔ حکومت سندھ کے ترجمانوں کا یہ کہنا ہے کہ اضافی پانی کا ملنا تو ایک طرف ، جب انہیں ہر سال ، ان کے طے شدہ حصے کے مطابق 48.76ملین ایکڑ فٹ پانی بھی پورا نہیں ملتا تو وہ کیسے مان لیں کہ پاکستان میں سالانہ27ملین ایکڑ فٹ اضافی پانی دستیاب ہوتاہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یہاں اضافی پانی دستیاب ہے تو پھر پنجاب اور چولستان میں نئی نہریں نکالنے کی بجائے سب سے پہلے ٹھٹھہ اور بدین کو سمندری کٹائو سے محفوظ رکھنے کے لیے سمندر میں10ملین ایکڑ فٹ پانی کے بہائو کو یقینی بنایا جائے۔
چولستان میں چھ نئی نہریں نکالنے کے معاملے میں پنجاب اور سندھ کا متضاد موقف یہاں بیان کر دیا گیا ہے ۔ اس حوالے سے یہاں پیش کیے گئے اعدادو شمار سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں ان نہروں کیلئے پانی کس حد تک دستیاب ہے۔

جواب دیں

Back to top button