سانحہ جعفر ایکسپریس

تحریر : صفدر علی حیدری
بندے اغوا ہو جاتے ہیں، گاڑی، ٹرک، بس حتی کہ جہاز تک اغوا کر لیے جاتے ہیں لیکن کسی ٹرین میں بیٹھے مسافروں کا اغوا کر لیا جائے یقیناَ اپنی طرز کا ایک انوکھا مگر قابل شرم واقعہ ہے۔ پوری دنیا میں جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔ قومی اسمبلی میں جعفر ایکسپریس حملے کے خلاف متفقہ مذمتی قرارداد پیش کرنے اسے اس واقعے کی شدت کو کم نہیں کیا جا سکتا۔ اس افسوس ناک سانحے میں کئی افراد کی ہلاکت نے اس کی سنگینی اور بڑھا دی ہے ۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں نے نہتے مسافروں کو شہید کیا۔ مسافروں کے مطابق وہ دو دن تک بھوکے رہے۔ صرف پانی پر گزارہ کرتے رہے۔ دہشت گردوں نے نہتے مسافروں کو مارا۔ سیکیورٹی فورسز کے کامیاب آپریشن سے قبل جعفرایکسپریس کے درجنوں مسافروں کو دہشت گردوں نے یرغمال بنائے رکھا۔ دہشت گرد یرغمالیوں کو تین الگ مقامات پر لے گئے تھے، خودکش بمبار بھی ساتھ بٹھا دئیے تھے۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے جعفر ایکسپریس پر حملے سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 11مارچ کو ایک بجے بولان کے قریب ریلوے ٹریک کو پہلے دھماکے سے اڑایا گیا۔ دہشت گردوں نے بعد میں جعفر ایکسپریس کو روک کر مسافروں کو یرغمال بنایا ۔ دہشت گرد افغانستان میں اپنے سہولت کاروں سے رابطے میں تھے۔ سیکیورٹی فورسز نے بھرپور طریقے سے آپریشن شروع کیا اور یرغمالیوں کو بازیاب کرایا، وہاں پر موجود تمام 33دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ مرحلہ وار یرغمالیوں کو رہا کرایا گیا، آپریشن سے قبل دہشت گرد 21جانیں لے چکے تھے ، آپریشن کے دوران 4ایف سی اہلکار شہید ہوئے ۔ عبدالرئوف جن کے والد عمر فاروق نے آبدیدہ لہجے میں کہا مجھے کچھ خبر نہیں میرے والد کہاں ہیں وہ شوگر اور دل کے مریض ہیں، ہم حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ اس آپریشن کو جلد ختم کرے اور ہمارے پیاروں کا پتہ چلے کہ وہ کہاں پر ہیں۔
بلوچستان کے ضلع بولان میں کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس پر کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی ( بی ایل اے) نے منگل کو حملہ کر کے ٹرین کو مسافروں سمیت سرنگ میں یرغمال بنا لیا، جسے پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ قرار دیا جا رہا ہے، تاہم بلوچستان میں اس سے قبل بھی ٹرینوں پر متعدد حملے ہو چکے ہیں۔ ریلوے ٹریک کے ساتھ پاکستان میں سب سے زیادہ ٹنل بولان میں ہیں، جن کی تعداد 17ہے اور منگل کو ٹنل نمبر آٹھ میں ٹرین کو یرغمال بنانے کا مقصد ٹرین میں موجود افراد کا رابطہ باہر کی دنیا سے منقطع کرنا ہے، کیوں کہ ٹنل میں فون کے سگنل نہیں آتے ۔ اس کے علاوہ حکمت عملی کے ساتھ سرنگ کے اندر ٹرین کو روکنے سے بی ایل اے نے خود کو سکیورٹی فورسز سے محفوظ بھی رکھنا تھا ، کیوں کہ ٹنل میں فورسز سے خود کو بچانا باہر کی نسبت آسان ہے۔
بلوچستان میں مختلف کالعدم عسکریت پسند گروہوں کی جانب سے ٹرینوں پر حملے، سڑکوں پر گاڑیوں سے لوگوں کو اتار کر شناختی کارڈ چیک کرکے جان سے مارنے اور بم دھماکوں جیسے واقعات عام ہیں، مگر اس طرح ٹرین پر حملہ کر کے مسافروں کو یرغمال بنا لینا اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے ۔ کچھ عرصہ پہلے تک کالعدم بلوچ عسکریت پسند گروہوں نے سڑکوں پر ناکہ بندی کر کے مختلف لوگوں کو شناخت کے بعد قتل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا اور اب ان گروپوں نے ٹرینوں کو نشانہ بنانا شروع کیا ہے ۔ یہ حملے عموماً بلوچ علیحدگی پسند گروہوں یا دیگر مسلح تنظیموں کی طرف سے کیے جاتے ہیں، جو حکومت کے خلاف احتجاج یا علیحدگی کی تحریکوں کا حصہ ہیں اور ان کا مقصد حکومتی اثر و رسوخ کو کمزور کرنا، توجہ حاصل کرنا اور بلوچستان میں اپنے سیاسی مطالبات کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔
متاثرہ ٹرین جعفر ایکسپریس پر اس سے قبل کئی بار حملے ہو چکے ہیں بلکہ بلوچستان میں دیگر ٹرینوں پر حملوں کے واقعات بھی سامنے آ چکے ہیں۔ بلوچستان میں ٹرینوں پر حملے 2005سے ریکارڈ کیے گئے، مگر ان حملوں میں شدت 2011 کے بعد دیکھی گئی۔2005 سے 2017کے درمیان صوبے میں ٹرینوں پر 64حملے ہوئے، جن میں 60اموات اور 239 افراد زخمی ہوئے۔ 2006 میں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ریلوے ٹریکس کو دھماکوں سے نقصان پہنچایا گیا ۔
جس سے کئی ٹرینیں متاثر ہوئیں۔2008میں کوئٹہ کے قریب ریلوے لائن کو نشانہ بنایا گیا ، جس سے ایک مسافر ٹرین کو نقصان پہنچا۔2011میں بلوچستان کی حدود میں ٹرینوں پر 14حملے ہوئے۔ اس کے علاوہ 2013اور 2015میں کوئٹہ سمیت صوبے کے کئی علاقوں میں ریلوے ٹریکس کو دھماکوں سے اڑا دیا گیا، جس کے نتیجے میں مسافر بردار اور مال گاڑیوں کو نقصان کے ساتھ متعدد افراد زخمی ہوئے۔2017میں مستونگ کے قریب ریلوے ٹریک پر دھماکہ ہوا، جس سے ایک ایکسپریس ٹرین متاثر ہوئی، کم از کم پانچ افراد جان سے گئے اور 16زخمی ہوئے۔2019 سے 2023کے درمیان بلوچستان میں ٹرینوں پر متعدد حملوں کے نتیجے میں ریلوے ٹریکس کو نقصان پہنچایا گیا۔ ستمبر 2024میں بلوچستان میں بارشوں اور ریلوے ٹریک کو شدت پسندوں کی جانب سے نشانہ بنانے کے ساتھ بولان کے علاقے دوزان میں برطانوی دورِ حکومت میں تعمیر ہونے والا ریلوے پل بم دھماکے کے باعث گر گیا تھا، جس سے بلوچستان سے پنجاب اور سندھ کے لیے ٹرین سروس کئی مہینوں تک معطل رہی۔9نومبر 2024کو کوئٹہ کے ریلوے سٹیشن پر اس وقت خودکش دھماکہ ہوا جب مسافر جعفر ایکسپریس سے پشاور جانے کی تیاری میں مصروف تھے۔ اس خود کش بم دھماکے میں 26افراد جان سے گئے جب کہ درجنوں زخمی ہوئے۔ 2024میں دہشت گردی کے حملوں کی تعداد 2014یا اس سے قبل کی سکیورٹی صورت حال کے برابر پہنچ گئی ہے ۔
پاکستان میں 2024میں شدت پسندی کے مجموعی طور پر 521حملے ہوئے، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 70فیصد اضافہ ظاہر کرتے ہیں۔ بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ ( بی ایل ایف) کے حملوں میں حیرت انگیز طور پر 119فیصد اضافہ دیکھا گیا، جو بلوچستان میں 171واقعات پر مشتمل تھا۔ بلوچستان میں امن و امان کا مسئلہ کئی عشروں پر محیط ہے ۔ رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کو ہمسایہ ملک بھارت سے شدید خطرہ رہا ہے ۔ بھارتی وزیر اعظم اپنے ایک خطاب میں بلوچستان کو توڑنے کے بات کر چکے ہیں۔ ایک حاضر سروس فوجی افسر کا نیٹ ورک پکڑا گیا۔ عدالت سے سزا بھی ہوئی مگر اس پر آج تک عمل درآمد نہیں ہو سکا۔
ہمارا یہ بدقسمت صوبہ معدنی دولت سے مالا مال ہے۔ اگر امن و امان کی صورت حال بہتر ہو جائے اور اس صوبے میں تیل گیس اور دیگر معدنیات کی تلاش کا کام شروع کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ بہت جلد اس میں بے پناہ کامیابی مل سکے۔ قرضے تلے دبا پاکستان اپنے پائوں پر کھڑا ہو سکتا ہے۔ مگر اس کے لیے امن و امان کا مسئلہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جب تک اس مسئلے پر قابو نہیں پایا جاتا ، تب تک حالات میں بہتری کی کوئی امید نہیں ہے۔
حکومت کے طرف سے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان خوش آئند ہے مگر ملک کی ابتر سیاسی صورت حال کے پیش نظر اس سے کسی بہتری کی امید رکھنا عبث ہے۔ لاڈلوں کو نوازنے اور مخالف سیاسی جماعت کو دیوار سے لگانے کی پالیسی نے ملک کی سیاسی فضا کو مکدر کر دیا۔ اب بھی وقت ہے کہ سنبھل جائیں۔ جعلی مینڈیٹ والی حکومت کو ختم کیے بنا بہتری ممکن نہیں۔ حکومت ہر طرح سے ناکام ہو چکی ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ صاف و شفاف انتخابات کرائے جائیں اور جو نتائج سامنے آئیں اس کو تسلیم بھی کیا جائے۔