پاکستان میں دہشتگردی کا مین سپانسر بھارت اور سہولتکار افغانستان

تحریر : امجد آفتاب
میں نے اپنے گزشتہ کالم میں بھی یہ لکھا تھا کہ دہشتگردوں کا کوئی مذہب نہیں، نہ ان کا اسلام سے کوئی تعلق ہے۔ یہ کھلم کھلا انسانیت کے دشمن ہیں۔ یہ کوئی قوم، قبیلہ بھی نہیں رکھتے، بلکہ یہ اپنی قوم اپنے قبیلے کے لیے بد نما داغ ہوتے ہیں۔ ان دہشتگردوں کا اسلام سے تو کوئی تعلق نہیں جس کی وجہ سے جہنمی تو ہیں ہی اور ان کا تعلق پاکستان میں بسنے والی کسی قوم، قبیلے سے بھی نہیں۔ یہ تو نہ بلوچ ہیں، نہ پٹھان، نہ پنجابی، نہ سندھی، نہ سرائیکی اور نہ ہی پاکستان میں بسنے والے دیگر قبیلوں، قوم اور زبان سے ان کا تعلق ہے۔ یہ وہ درندے ہیں جن کا واحد مقصد درندگی کرنا اور انسانیت کی تذلیل کرنا ہوتا ہے۔
دہشتگردی کیخلاف جنگ میں جتنی قربانیاں پاکستان نے دی ہیں شاید ہی کسی دوسری ملک نے دی ہوں۔ دنیا میں امن قائم کرنے اور دہشتگردوں سے بچانے کے لیے ہم نے 80ہزار سے زائد جانیں قربان کی ہیں، اس جنگ میں دنیا کا کون سا ملک ایسا ہے جس نے اس دنیا کو دہشتگردی کے ناسور سے بچانے کیلئے اتنی تعداد میں انسانی جانیں قربان کی ہوں۔ نائن الیون کے بعد دنیا اور امن کا ساتھ دینے کیلئے پاکستان کو فرنٹ پر آنا پڑا،اور اس کے بعد لگی آگ میں آج تک ہمارا ملک جل رہا ہے۔ گزشتہ دنوں بی ایل اے کے دہشتگردوں کی جانب سے بلوچستان میں ٹرین کو ہائی جیک کرتے ہوئے پوری دنیا نے دیکھا۔
جعفر ایکسپریس پر حملہ کرنے والے تمام33دہشتگردوں کو عین موقع پر کیفرکردار کو پہنچانے اور ٹرین میں سوار 339مسافر بحفاظت بازیاب کرانے میں پاک فوج، بالخصوص اس کی ضرار کمپنی نے جو بے مثال کردار ادا کیا ، اسکی کامیاب حکمت عملی اور بہادری پوری قوم اورعالمی برادری کیلئے حرف ستائش بنی ہوئی ہے۔ چین، امریکہ، روس، ایران، ترکیہ،یورپی یونین اور بالخصوص اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اس واقعہ، دہشتگردوں کی پشت پناہی کرنے اور انھیں سہولت کاری دینے والی قوتوں کے عزائم کی مذمت کی ہے۔
گزشتہ روز پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کے ساتھ قوم کے سامنے تفصیل رکھتے ہوتے بتایا کہ بلوچستان میں جعفر ایکسپریس کا واقعہ بھارت کی دہشتگرد ذہینت کا تسلسل ہے، مشرقی پڑوسی پاکستان میں دہشتگردی کا مین سپانسر جبکہ افغانستان مددگار ہے، سوشل میڈیا پر ٹرین واقعے کی اے آئی سے جعلی ویڈیوز بنائی گئیں، پوری کارروائی کے دوران دہشتگرد افغانستان میں اپنے ہینڈلر سے مسلسل رابطے میں تھے، دہشت گردوں کے پاس غیرملکی اسلحہ اور آلات موجود تھے، جعفر ایکسپریس پر حملے میں 18یرغمالی جوانوں سمیت 31افراد شہید ہوئے، مرنے والوں میں ریلوے پولیس کے تین اہلکار اور پانچ عام شہری شامل ہیں، یہ شہادتیں آپریشن شروع کیے جانے سے قبل ہوئیں، اس کے علاوہ پوری کارروائی کے دوران ایف سی کی 5آپریشنل شہادتیں بھی ہوئی ہیں، جن میں ایف سی کے 3جوانوں کو دہشت گردوں نے ٹرین کو نشانہ بنانے سے قبل چوکی پر حملہ کرکے شہید کیا، ایف سی کا ایک جوان 12 مارچ کی صبح فائرنگ کے تبادلے میں شہید ہوا، ٹرین میں ڈیوٹی پر مامور ایف سی کے جوان کی بھی حملے کے دوران شہادت ہوئی ہے۔ 354یرغمالیوں کو زندہ بازیاب کرایا گیا ہے جن میں 37زخمی بھی شامل ہیں، جس کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے، دہشتگرد کسی مسافر کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ نہیں لے گئے۔ امریکہ، برطانیہ اور انڈیا میں بھی مسنگ ہیں، کس ملک میں کہاں پر وہ اپنی افواج پر اور اپنے اداروں پر چڑھ دوڑتے ہیں؟۔
وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’ را‘‘ دہشتگردوں کی نانی ہے، ریاست کے پاس تمام شواہد موجود ہیں۔ پی ٹی آئی دور میں دہشتگردوں کو لاکر بلوچستان میں بسایا گیا، مسنگ پرسن کے معاملے کو ریاست کے خلاف پروپیگنڈا ہتھیار کے طورپر استعمال کیا جا رہا ہے، بدامنی پھیلانے والے عناصر سے کوئی رعایت نہیں برتی جائیگی، علیحدگی پسندوں سے دہشتگردوں جیسا برتائو کرنے کا فیصلہ کیا ہے، دہشت گردوں نے ان تمام روایات کو پامال کر دیا ہے، اس لیے میں کہتا ہوں انہیں بلوچ نہ کہا جائے ، افغان سرزمین ہمارے خلاف استعمال ہو رہی ہے اور بہت پہلے سے ہو رہی ہے، یہ دنیا کو بھی سوچنا پڑے گا کہ یہ خطرہ صرف پاکستان کے لیے نہیں ہے ۔
دراصل پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے بھارت و افغانستان دہشتگردوں اور ان کی تنظیموں کی سرپرستی کر رہی ہیں، جس کی وجہ سے غیر ریاستی عناصر مختلف طرح کی بے رحمانہ کارروائیاں کر رہے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد دہشتگردوں کو محفوظ پناہ گاہیں مل گئی ہیں جس کی وجہ سے پاکستان بالخصوص خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشتگرد حملوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے ۔
پاکتیکا افغانستان کے مشرقی حصے میں واقع وہ صوبہ ہے، جس کی سرحدیں کے پی کے اور بلوچستان سے ملتی ہیں ۔ افغانستان کا یہ صوبہ سرحدی تنازعات، سرحد پار غیر قانونی نقل و حرکت دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کی سبب بہت معروف ہے۔ اس لیے افغانستان کو چاہیے کہ وہ پاکستان پر الزام لگانے کی بجائے اس صوبے میں موجود دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو ختم کرے۔
بلوچستان میں دہشتگردی کی وارداتوں کے باعث پولیس اور قانون نافذ کرنے والے پر دبائو بڑھا ہے اور وسائل کی کمی باوجود ان کی قربانیاں قابل تعریف ہیں۔ دوسری جانب ہماری سکیورٹی فورسز ان کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں بلکہ ان کے مذموم عزائم کیخلاف سیسہ پلائی دیوار کی طرح قائم ہیں، اس لیے ان کی طرف سے پاک فوج کیخلاف سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈا کیا جاتا ہے تاکہ عوام کے دلوں میں اس محبت کو ختم کیا جا سکے جو سکیورٹی فورسز کے لیے ایک ڈھال کا کام کرتی ہے۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشتگردی کا ہونا ایک حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہماری سکیورٹی فورسز ان واقعات کی روک تھام کیلئے برسر پیکار ہیں۔ اِس صورتحال میں اگر کوئی سیاسی و علاقائی جماعت سکیورٹی فورسز کیخلاف عوام کو بھڑکانے کی کوشش کرتی ہے تو وہ ملک و قوم کی سالمیت اور بقا کے ساتھ کھیل رہی ہے جس کی اجازت ہرگز نہیں دی جا سکتی !