Columnمحمد مبشر انوار

کارکردگی

تحریر : محمد مبشر انوار (ریاض )
اپریل 2000ء کی بات ہے کہ جب سرزمین سعودی عرب پر بسلسلہ روزگار آمد ہوئی، دیگر ہزاروں، لاکھوں تارکین وطن کی طرح یہ خواہش تھی کہ بس دو سال یہاں گزار کر واپس وطن عزیز میں اپنے پیشہ میں نام بنانے کی کوشش کرونگا لیکن حالات و واقعات ہمیشہ خواہشات پر غالب آتے ہیں اور بعینہ ہزاروں، لاکھوں دیگر ہم وطنوں کی طرح یہاں قریبا 25برس یوں گزر گئے کہ کل کی بات لگتی ہے۔ افسوس اس امر کا ہے کہ اس دوران وطن عزیز کے حالات مزید دگرگوں ہو چکے ہیں اور گزشتہ تین سالوں میں ہم وطنوں کی ریکارڈ ہجرت دیکھنے کو ملی ہے کہ ایسی صورتحال تو اس وقت بھی نہیں دیکھی گئی جب یوسف رضا گیلانی نے اپنے دور حکومت میں انتہائی سادگی اور بھولپن کے ساتھ انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر پاکستان میں روزگار کے مواقع نہیں تو پاکستانی بیرون ملک روزگار کے لئے چلے جائیں۔ البتہ یوسف رضا گیلانی کا یہ فرمان تاریخ میں ان کا ہمیشہ پیچھا کرے گا اور ان کی ذہنی استعداد پر تین حرف بھیجے گا کہ اپنے وقت کا وزیر اعظم، جسے اپنے شہریوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرنے چاہئیں تھے، وہ انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ انہیں بیرون ملک ہجرت کرنے کا درس دے رہا تھا۔ پاکستانیوں کی ہجرت ہنوز جاری ہے کہ ارباب اختیار کی معاشی پالیسیوں نے پاکستان میں رہا سہا صنعتی پہیہ بھی روکنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تو دوسری طرف حالت یہ ہے کہ نجی شعبہ کو کساد بازاری کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے اور وہ عالمی منڈی سے مقابلے کی سکت کھو چکا ہے کہ جس قیمت میں چین یا کسی اور ملک کی مصنوعات صارف تک کھلی منڈی میں دستیاب ہیں، اس سے زیادہ لاگت پر پاکستان میں صنعتکار کو پیداواری لاگت کا سمنا ہے، اس پس منظر میں یہ کیسے اور کیونکر ممکن ہے کہ مقامی صنعت، کھلی منڈی میں مقابلہ کر پائے ؟ نتیجہ یہ ہے کہ پاکستانی صنعت دن بدن سکڑتی جا رہی ہے اور اس صنعتوں کو تالے لگ رہے ہیں لیکن آج بھی حکمران طبقے کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی اور ان کی اپنی سرمایہ کاری دنیا کے کئی ایک براعظموں میں پھیلی ہوئی ہے جبکہ یہ دنیا کے سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی ترغیب دیتے نظر آتے ہیں۔ بہرکیف اس سے ہٹ کر امن و امان کا مسئلہ اپنی جگہ پر ، سرمایہ کاروں کے اعتماد کو متزلزل کرنے کے لئے کافی ہے۔
امن و امان کے حوالے سے، ذہن پھر ماضی کے دریچوں میں جا کھلتا ہے اور سعودی عرب کے ابتدائی ایام یاد آنے لگتے ہیں کہ جب ابتداء میں یہاں زندگی انتہائی پر سکون گزر رہی تھی کہ پاکستان جیسے امن و امان حالات کا سامنا نہیں تھا بلکہ چارسو سکون تھا اور زندگی سے امن و امان کے حوالے سے پریشانیاں جیسے ختم ہو گئی تھی، البتہ یہاں سکیورٹی کا انتظام انتہائی سخت ترین تھا اور ہمہ وقت اپنا اقامہ اپنے ساتھ رکھنا پڑتا تھا وگرنہ قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ۔شروع کے ایام میں تو ایک شہر سے دوسرے شہر سفر کے لئے بھی کفیل کا اجازت نامہ درکار ہوتا تھا کہ جس کے بغیر دوسرے شہر میں سفر کا تصور بھی محال تھا لیکن ان حفاظتی تدابیر کے ساتھ، زندگی انتہائی پرسکون تھی۔ تاہم سانحہ 9؍11کے بعد تبدیلیاں بڑی تیزی سے رو پذیر ہوئی اور ایک
طرف امریکہ نے اس سانحہ کو بنیاد بنا کر دنیا کو تہہ و بالا کرنا شروع کیا تو دوسری طرف عرب سپرنگ کے نام پر مشرق وسطیٰ میں ’’ رجیم چینج‘‘ کا عمل شروع ہو چکا تھا اور عرب ریاستوں میں امن و امان کی صورتحال خراب کی جارہی تھی۔ خودکش دھماکوں نے سعودی عرب کی پرسکون فضائوں میں بارود کی بو، رچ رہی تھی، عوام الناس میں خوف و ہراس پھیلانے کی کوششیں جاری تھی، سعودی عرب کے شہروں میں سڑکوں پر ناکے لگنا شروع ہو چکے تھے، گاڑیوں کی لمبی قطاریں ان ناکوں پر نظر آنا شروع ہو چکی تھی لیکن سعودی حکومت کے حوصلے قائم تھے، عزم غیر متزلزل تھا اور اس ناگفتہ بہ صورتحال سے نپٹنے کا عزم بھی واضح تھا۔ چند دھماکوں کے بعد ہی سعودی ایجنسیاں متحرک و فعال ہو چکی تھی، انتہائی خاموشی مگر سرعت کے ساتھ، ان خفیہ ہاتھوں تک ایجنسیاں پہنچ چکی تھی اور زیر زمین آپریشن کامیابی کے ساتھ جاری و ساری تھے۔ دھماکوں میں ملوث سعودی عرب میں موجود خفیہ ہاتھوں تک حکومت پہنچ چکی تھی اور انتہائی مہارت و دانشمندی کے ساتھ، ان دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کہیں یا کونسلنگ کہیں، ان اذہان کو کامیابی کے ساتھ قائل کر لیا گیا تھا اور سعودی عرب انتہائی مختصر وقت میں، امن امان کی صورتحال بحال کرنے میں کامیاب ہو چکا تھا تاہم احتیاطی تدابیر کے طور پر حفاظتی انتظامات کا حصار فوری طور پر ختم نہیں کیا گیا اور نہ ہی شہریوں کو بلاوجہ ان ناکوں پر روکا جاتا یا ان کی تذلیل کی جاتی البتہ مشکوک افراد پر کسی قسم کی نرمی کہیں بھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ جبکہ اس کے متوازی، معاشی سرگرمیوں میں کسی بھی قسم کا تعطل بھی دیکھنے کو نہیں ملا بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ، سعودی معاشی سرگرمیوں میں تیزی، بہتری
اور بڑھوتری نظر آئی ہے تاہم یہاں قیادت کی تبدیلی کے بعد سی انتہائی خوشگوار ماحول دیکھنے کو مل رہا ہے کہ سعودی عرب میں جدت پسندی بتدریج سعودی معیشت کا حصہ بن رہی ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اب سعودی عرب میں ماضی کی نسبت کچھ شعبہ ہائے جات میں غیرملکیوں کے لئے حصول روزگار انتہائی معدوم ہو چکا ہے اور مقامی سعودی شہریوں کے لئے مختص ان شعبہ ہائے زندگی میں صرف سعودی شہری ہی نظر آتے ہیں، جو حکمرانوں کے اپنے شہریوں کے لئے خلوص کے علاوہ انہیں عام زندگی کے معاملات میں شرکت کا احساس دلانا ہے۔ سعودائزیشن کا عمل تقریبا 2000ء سے جاری ہے لیکن ابتداء میں اس پر عمل درآمد میں اس قدر شدت اور سختی نہ تھی تاآنکہ سابق فرمانروا شاہ عبداللہ کے دور میں سعودی طالبعلموں کو خصوصی وظائف پر بیرون ملک اعلی تعلیم کے لئے بھیجا گیا اور وطن واپسی پر ان کے لئے انتہائی پرکشش ملازمتیں دے کر انہیں ملکی معیشت کا حصہ بنایا گیا ہے، جو یقینی طور پر نہ صرف قابل ستائش ہے بلکہ دیگر ممالک کے لئے قابل تقلید بھی ہے، اگر وہ چاہیں تو وگرنہ کئی ایک ممالک کشکول تھامے سعودی عرب کا رخ کرتے ہی رہتے ہیں، اس میں کسی ایک ملک کا نام نہیں لیا جاسکتا کہ عرب ممالک میں سے بھی کئی ایک ایسے ممالک ہیں، جو سعودی امداد کے محتاج دکھائی دیتے ہیں۔ سعودی عرب وژن 2030ء کے تحت ایک طرف آٹو میشن کی طرف گامزن ہے تو دوسری طرف مملکت سے کرپشن کے خاتمے کا عہد کئے ہوئے، بلاامتیاز ایسے افراد کے خلاف روبہ عمل ہے، جن پر انہیں رتی برابر بھی شک ہے کہ ان کے ذرائع آمدن میں کہیں بھی کرپشن کو عنصر شامل ہے، بلاامتیاز آپریشن کی مثال سعودی شہزادوں کے حراست میں لئے جانے کی ہے تاہم یہاں ’’ پلی بارگین‘‘ کے اصول کے مطابق، ریاست نے ان افراد سے خاطر خواہ رقم برآمد کرکے، انہیں اپنے کاروبار جاری رکھنے کی اجازت دی تا کہ ان نابغہ روزگار افراد سے معیشت کا پہیہ چلتا رہے جبکہ ان معروف کاروباری و سرمایہ کاروں نے اس کو اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنایا اور ریاست کے مطالبے پر رقم ادا کر کے، پھر سے اپنے کاروبار میں مشغول، ریاست کی معیشت میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں! وژن 2030ء کے تحت جاری میگا منصوبوں کے حوالوں سے ریاست سعودی عرب نے معیار انتہائی سخت کر رکھے ہیں اور کسی بھی ایسی مصدقہ اطلاع پر کہ کوئی بھی اعلیٰ یا ادنی عہدیدار کی کرپشن شکایت پر، اس کے خلاف بھرپور تحقیقات و تفتیش کے بعد، اس کو نہ صرف حراست میں لیا جاتا ہے بلکہ کرپشن کی مد میں بنائے گئے اس کے اثاثہ جات کو بھی بحق سرکار ضبط کرکے اسے قرار واقعی سزا بھی دی جاتی ہے کہ ملکی معیشت کو ترقی دینے، اس کے پھلنے پھولنے میں، یہی ایک زریں اصول ہے جس پر عمل درآمد کر کے ہی ملکی معیشت کی نشو نما کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
آج سعودی عرب میں خال ہی کہیں ناکوں کا وجود ہے کہ سعودی حکومت نے امن و امان کو یقینی بنانے کے بعد، شہریوں کے تحفظ کی ضمانت حاصل کرنے کے بعد، ایسی رکاوٹوں کو ازخود ختم کر دیا ہے اور آج سعودی عرب کے طول و عرض میں پورے اطمینان کے ساتھ عام شہری سفر کر سکتا ہے تو دوسری طرف کرپشن سے پاک معاشرہ تشکیل دینے کی جدوجہد مسلسل جاری ہے۔ بدقسمتی سے وطن عزیز، ابھی تک من و امان اور کرپشن کی صورتحال پر کماحقہ قابو پانے میں ناکام ہے، جبکہ ان وجوہات پر بات کرنے کی اجازت ہم جیسے قلمکاروں کو نہیں کہ ایسا کرنے سے ہم وطن سے غداری کے مرتکب ٹھہرتے ہیں۔ کارکردگی اگر سعودی عرب جیسی ہو تو یہاں کے اقامتی رہائشی ہونے کے باوجود، داد و تحسین ازخود سپرد قلم ہو جاتی ہے لیکن جب موازنہ کریں تو زباں بندی کا سامنا ہے، حب الوطنی پر سوالیہ نشان ہے؟؟؟۔

جواب دیں

Back to top button