منڈی احمد آباد کا تاریخی مندر

تحریر : رفیع صحرائی
قریبا” سات کنال رقبے پر مشتمل گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول منڈی احمد آباد ضلع اوکاڑا ( اولڈ کیمپس) کی عمارت تقسیمِ بر صغیر سے پہلے ہندووں کا مندر ہوا کرتا تھا۔ یہ مندر ابھی زیرِ تعمیر تھا جب پارٹیشن ہو گئی تھی۔ مندر کی مرکزی عمارت اور مینار تعمیر ہو چکے تھے۔ مرکزی عمارت کا فرش ابھی نہیں ڈالا گیا تھا۔ البتہ پوجا پاٹ کا سلسلہ چند سال سے شروع ہو چکا تھا۔ یہ مندر اب بھی موجود ہے اور اس کے مینار میلوں دور سے دکھائی دیتے ہیں جن کی اونچائی 100فٹ سے بھی زائد ہے۔ عمارت بہت مضبوط ہے تاہم چھت قدرے کمزور ہو چکی ہے ۔ مندر کی عمارت کے اندر بیٹھ کر برسوں طلباء پڑھتے رہے ہیں۔ اب حکومت کی طرف سے اس عمارت کو مخدوش قرار دے دیا گیا ہے۔ اس مندر کا رقبہ قریباً ڈیڑھ ایکڑ تھا۔ مرکزی عمارت سے مغرب کی جانب پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پختہ اینٹوں سے ایک کنواں تعمیر کیا گیا تھا۔ مندر کی تعمیر کے لیے پانی اسی کنوئیں سے لیا جاتا تھا۔ کنوئیں سے تھوڑے فاصلے پر مغربی دیوار میں لوہے کی مضبوط سلاخوں والا ایک بھاری بھرکم گیٹ تھا۔ یہ مندر کا مرکزی دروازہ تھا جو بازار کی طرف کھلتا تھا۔مرکزی عمارت سے مغرب کی جانب ہی قریباً تیس فٹ کے فاصلے پر پیپل کا ایک قدرآور اور گھنا درخت تھا گرمی کے موسم میں زائرین اور پجاری اس کے سائے میں بیٹھا کرتے تھے۔ پیپل کے ساتھ ہی جنوبی طرف چار کمرے بنے ہوئے تھے۔ پیپل کے سامنے والا کمرہ بڑے پنڈت کے لیے مخصوص تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کمرے کی مغربی دیوار میں ایک سرنگ کا دروازہ تھا۔ یہ سرنگ دوسری طرف مندر کی مرکزی عمارت کے اندر کھلتی تھی۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ یہ سرنگ کافی طویل تھی اور نامعلوم مقام پر جا کر کھلتی تھی۔
مندر کی مرکزی عمارت چوکور ہے۔ چونتیس فٹ چوڑائی اور سڑسٹھ فٹ لمبائی کی حامل اس عمارت کی دیواریں پختہ اینٹوں سے بنی ہوئی ہیں۔ اس کی چھت کی اونچائی بیس فٹ ہے۔ عمارت خوب روشن اور ہوادار ہے۔ عمارت کی مغربی دیوار میں 4×6فٹ سائز کے آٹھ دروازے ہیں۔ مندر کا ’’ کرشن ہال‘‘ بہت خوب صورتی سے بنا ہوا ہے جس میں سٹیج اب بھی موجود ہے جس پر بیٹھ کر پنڈت مذہبی رسومات ادا کیا کرتے تھے۔ کرشن ہال کے تین اطراف یعنی جنوب، مغرب اور شمال کی دیواروں میں دس فٹ اونچی گیلری بنی ہوئی ہے جہاں مذہبی تہواروں کے اجتماع کے موقع پر ہندو خواتین بیٹھا کرتی تھیں۔ شمالی دیوار کے ساتھ شروع سے آخر تک الماریاں بنی ہوئی ہیں۔ جن میں ضروری سامان رکھا جاتا تھا۔ مندر کی عمارت کے وسط میں دونوں میناروں کی بنیادیں ہیں۔ ہر مینار کی بنیاد 12×10فٹ پر مشتمل ہے۔ اور دونوں بنیادوں کے اندر کمرے بنے ہوئے ہیں ۔ ان کمروں کے اندر بڑے بتوں کے مجسمے مشرقی دیواروں کے ساتھ ایستادہ کیے ہوئے تھے۔ ان کمروں کے اندر بہت خوب صورت نقش و نگار بنائے گئے تھے جو تاحال موجود ہیں جبکہ فرش بھی بہت مضوط اور ڈیزائن والے بنے ہوئے ہیں۔ ان کمروں کی گنبد نما محرابی چھتیں بھی پختہ رنگوں کے نقش و نگار سے مزیّن ہیں۔ میناروں کی بنیاد والے کمروں کی مغربی دیواروں کی بیرونی جانب 1×1.5فٹ سائز کے جالے ( طاق) بنے ہوئے ہیں جن میں بت ایستادہ تھے۔ یہ مینار شمالا” جنوبا” ایک دوسرے کے برابر میں تعمیر کیے گئے ہیں جن کی بنیادوں کے درمیان تین فٹ کا فاصلہ ہے۔
میناروں اور کرشن ہال کی گیلری پر خوبصورت نقاشی کی گئی ہے۔ مندر کی مرکزی عمارت کے دروازے دیار کی لکڑی کے بنے ہوئے ہیں جو اب کافی مخدوش حالت میں ہیں۔
دونوں میناروں کے اوپر چوٹی پر کلس موجود ہیں جنہیں عرصہ دراز تک لوگ سونے کے بنے ہوئے سمجھ کر اتارنے کی ناکام کوشش بھی کرتے رہے۔ شمالی مینار کے کلس پر پیتل سے بنا ہوا ایک جھنڈا بھی لگا ہوا ہے۔ یہ دونوں مینار نر اور مادہ کے نام سے بھی معنون ہیں۔ شمالی جانب واقع مینار پر دیویوں کے مجسمے ایستادہ تھے جبکہ جنوبی جانب والے مینار پر دیوتاں کے مجسمے نصب تھے اور اسی نسبت سے انہیں نر اور مادہ میناروں کا نام دیا گیا ہے۔
تقسیم برصغیر کے بعد اس مندر میں بوائز مڈل سکول کی کلاسز کا آغاز کیا گیا۔ یہ مڈل سکول 1964ء میں گورنمنٹ ڈی سی ہائی سکول بنا تو اس مندر کے صحن کو غالباً دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ سات کنال پر مشتمل مشرقی حصہ چھٹی سے دسویں کلاسز کے لیے ہائی سکول کے حصے میں آیا جبکہ پہلی سے پانچویں کلاسز کے لیے مغربی جانب قریباً پانچ کنال رقبہ پرائمری سکول کو ملا۔
جب بابری مسجد کا سانحہ ہوا تھا تو پورے ملک کی طرح منڈی احمد آباد کے باسیوں میں بھی شدید غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی تھی۔ شہر کی مذہبی اور سیاسی قیادت کی سربراہی میں بہت بڑا جلوس نکالا گیا۔ نوجوانوں میں سخت غصہ اور اشتعال پایا جاتا تھا۔ اسی جوش کے عالم میں ہتھوڑوں اور لوہے کے راڈوں سمیت جس کے جو ہاتھ لگا وہ لے کر اس مندر کو گرانے کے لیے دوڑ پڑا مگر اس موقع پر مقامی علماء کرام اور سیاسی قیادت نے نہایت بردباری اور سمجھ بوجھ سے کام لیتے ہوئے مشتعل نوجوانوں کو سمجھایا کہ جذبات پر قابو رکھیں اور پُر امن احتجاج ریکارڈ کرائیں۔۔۔ اگر آج ہم نے اس مندر کو گرا دیا تو ممکن ہے ہندوستان میں اس کے بدلے میں 100مساجد کو شہید کر دیا جائے۔ گو نوجوان بہت پرجوش تھے مگر بات ان کی سمجھ میں آ گئی۔
اس دور میں گورنمنٹ ہائی سکول منڈی ہیرا سنگھ ( منڈی احمد آباد کا پرانا نام منڈی ہیرا سنگھ ہے) میں صرف چار کلاس روم تھے۔ سکول کی جنوبی دیوار کے ساتھ ایک قطار میں بنے ہوئے ان چار کلاس رومز کے آخر میں مشرقی جانب ہیڈ ماسٹر صاحب کا دفتر تھا اور دفتر کے بالکل ساتھ ہی سکول کا مین گیٹ تھا۔ یعنی شروع کے دور میں سکول کا مین گیٹ شمالی جانب تھا۔ آج کل مین گیٹ عمارت کی مشرقی جانب ہے۔ دفتر کے بالکل سامنے آم کا ایک درخت تھا جس پر گھنٹی لٹکی رہتی تھی۔ اس دور میں سکول کے نائب قاصد برکت علی قریشی ( مرحوم) گھنٹی بجایا کرتے تھے۔ وہ گھنٹی بجانے کے ’’ سپیشلسٹ‘‘ تھے۔ ان کی گھنٹی کی آواز نہ صرف آدھے شہر میں بلکہ قریبی گائوں بونگہ صاحبہ، کاہن سنگھ والا ( موجودہ گوہر آباد) اور موضع کمیریاں میں بھی سنائی دیتی تھی۔ سکول لگنے سے پندرہ منٹ پہلے ’’ وارننگ بیل‘‘ ہوتی تھی اور یہ گویا طلبہ کے لیے اعلان تھا کہ فورا سکول کی جانب چل پڑیں۔
سکول میں چونکہ کلاس رومز کی تعداد کم تھی اس لئے مندر والی بلڈنگ کے سامنے صحن میں جنوبی دیوار کے ساتھ دو عدد برآمدے اپنی مدد آپ کے تحت بنوا دیئے گئے تھے۔ بعد میں جب کلاسز کے سیکشنز بننے لگے تو پھر دو کلاسز مندر والی بلڈنگ میں بھی بیٹھنے لگیں۔