چمپیئنز ٹرافی 2025

جینٹلمین گیم کے نام سے پہچانی جانے والی کرکٹ ،دور جدید میں کئی رنگ بدلنے کے بعد ،عوام کی تفریح کا سبب بن رہی ہے اور اس کو چلانے والی آئی سی سی، ہمہ وقت اس میں جدت لانے میں کوشاں دکھائی دیتی ہے۔ گو کہ آئی سی سی کے منتظمین کبھی پس پردہ تو کبھی پیش منظر میں ایک مخصوص لابی کے زیر اثر دکھائی دیتی ہے اور قوانین کا اطلاق یکساں لاگو ہوتا نظر نہیں آتا بلکہ ایک مخصوص کرکٹ ٹیم کو امتیازی سلوک کا مستحق سمجھا جاتا ہے اور اسے آئی سی سی کے قوانین کے برعکس خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ بھارتی کرکٹ بورڈ ،اپنی حکومت کے سامنے بے بس نظر آتا ہے اور خواہش کے باوجود پاک بھارت کرکٹ ٹاکرے،پاکستان کی سرزمین پر منعقد کروانے سے قاصر ہے، اس ضمن میں بھارتی حکومت و بورڈ نے پس پردہ کیا کیا کھیل رچائے اور کس طرح کرکٹ کو پاکستان کے میدانوں سے دور کیا،پاکستانی کرکٹ شائقین کے لئے اندرون ملک کرکٹ کیونکر بند کروائی، یہ اب کوئی راز نہیں رہا اور ساری کرکٹ دنیا ان حقائق سے بخوبی آگاہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب پاکستان کے کرکٹ گرائونڈز پھر سے آباد دکھائی دیتے ہیں اور عالمی کھلاڑی اور ٹیمیں پاکستان میں کرکٹ کھیل کر نہ صرف خوش ہوتی ہیں بلکہ پاکستانی شائقین کے کرکٹ جنون کی دلدادہ بھی ہیں۔ تاہم ان تمام تر رکاوٹوں کے باوجود،دبائو اور سازشوں کے باوجود،پاکستانی سرزمین کبھی بھی کرکٹ ہیروز کے معاملے میں بانجھ نہیں رہی اور اس سرزمین نے عالمی معیار کے زبردست کرکٹر ،دنیائے کرکٹ کو فراہم کئے،جن کے کھیل اور ان کی انفرادی شخصیت کی دنیا دیوانی رہی ۔ اس ضمن میں وقت کی کوئی قید نہیں رہی اور ہر دور میں ہی پاکستانی کرکٹرز نے عالمی سطح پر اپنی صلاحیتیوں کو نہ صرف لوہا منوایا ہے بلکہ اپنی انفرادی کرشمہ ساز شخصیت سے کہیں دنیائے کرکٹ تو کہیں عالمی سیاست میں اپنی حیثیت منوائی ہے،یہ الگ بات ہے کہ پاکستان میں ان شخصیات سے کماحقہ فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا،بہرحال یہ بحث پھر کبھی کے لئے رکھتے ہیں کہاس بحث کے لئے حالات قطعا سازگار نہیں اور ’’ حکمرانوں‘‘ کی جبینوں پر شکنوں کا جال لہرا جاتا ہے،فون کھڑک جاتے ہیں اور ایسی محفلوں میں ’’ زباں بندی‘‘ کے احکامات جاری ہو جاتے ہیں۔ تاہم وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا اور جلد یا بدیر تاریخ اپنے بطن میں چھپے حقائق کو آشکار کر دیتی ہے اور وقت کے حکمرانوں کی تمام تر چالوں کو بے نقاب کر دیتی ہے،اس پس منظر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ایک ہم ہیں کہ خود اپنی ہی صورت کو لیا بگاڑ،بہرحال امید پر دنیا قائم ہے۔ خیر اس کا تذکرہ بے محل قطعی نہیں کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے ساتھ جو کچھ گزشتہ تین سالوں میں ہور ہا ہے اور جس طرح پاکستان کرکٹ بورڈ کو چلایا جارہا ہے،اس میں اسی سوچ کا اظہار دکھائی دیتا ہے حتی کہ موجودہ چیف کوچ و سلیکٹرعاقب جاوید،جو اپنے وقت کے بہترین گیندباز رہے ہیں،کی پالیسی پر یقینی طور پر اعترضات کی ایک بھرمار دکھائی دیتی ہے کہ جس طرح وہ ٹیم میں انتہائی سرعت کے ساتھ تبدیلیاں کر رہے ہیں،اس سے پاکستان کرکٹ کو کوئی فائدہ پہنچ رہا ہے یا ٹیم کا شیرازہ بکھر رہا ہے؟اس پر گفتگو کرنے سے قبل ،پی سی بی کی جانب سے چمپیئنز ٹرافی کی میزبانی ملنے کے بعد،جو اقدامات اٹھائے گئے،ان میں سب سے اہم سٹیڈیمز کی تزئین نو کا مرحلہ تھا کہ مختصر ترین وقت میں ان کو عالمی معیار کے مطابق بنایا جائے اور آئی سی سی کو یہ باور کروایا جا سکے کہ پاکستان اس میزبانی کا مستحق تھا۔اس میں قطعا کوئی دو رائے نہیں کہ چیئرمین پی سی بی کی ذاتی کوششوں سے سٹیڈیمز کی تزئین نو ،واقعتا انتہائی کم وقت میں ہوئی لیکن افسوس اس امر کا ہے کہ اس تزئین نو میں ’’ معیار‘‘ کو قطعا ترجیح نہیں دی گئی کہ ایک بارش نے اس تزئین نو کاپول کھول کر رکھ دیا ،جب چھتیں بارش کے باعث ٹپکنے لگی۔ تزئین نو کے اس معیار کو کسی بھی دوسرے ملک میں کسی بھی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا لیکن بدقسمتی سے یہ پاکستان ہے کہ جہاں ہر کام ’’ ڈنگ ٹپائو‘‘ کی بنیاد پرکیا جاتا ہے کہ ڈنگ ٹپنے کے بعد کون اس کی تحقیقات کرے گا کہ اس میں کس نے کیا کمایا ہے بعینہ جیسے لاہور میں موٹر بائیکرز کے لئے مختص کی گئی لین پر رنگ اترنے کا نہ کوئی احتساب ہو گا اور نہ ہی تحقیقات۔ بہرحال یہ تو وہ معاملات ہیں کہ جو دوررس اہمیت کے حامل ہیں کہ سٹیڈیمز پر کئے گئے اخراجات طویل مدتی اثر رکھتے ہیں لیکن نجانے کیوں ہمارے ارباب اختیار کو اس کی سمجھ کیوں نہیں آتی کہ ایسے ترقیاتی کام باربار نہیں کئے جاتے یا عین ممکن ہے کہ ’’ ذاتی مفادات‘‘ اتنے مقدم ہیں کہ ریاستی وسائل کو اسی طرح لٹانا ہی مقصود ہو، واللہ اعلم بالصواب۔
دوسری اہم ترین ذمہ داری ٹیم کی تیاری تھی جس کو کھیل کے میدان میں نہ صرف اپنے ہنر کا اظہار کرنا تھا بلکہ اپنی خداداد صلاحیتیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ،سبز ہلالی پرچم کو بلند کرنا تھا لیکن حسب سابق، گزشتہ ایونٹس کی مانند،اس ایونٹ میں بھی ٹیم پہلے راؤنڈ میں ہی کھیل سے باہر ہو گئی۔ واضح طور پر دکھائی دے رہا تھا کہ ٹیم کا ہر کھلاڑی غیر محسوس دبائو کا شکار ہے، جس کے باعث کہیں بھی ٹیم کا کھیل دکھائی نہیں دیا بلکہ ہر کھلاڑی اپنی انفرادی کوششوں میں مصروف دکھائی دیا۔ ایونٹ سے قبل ہی، مستند بلے باز کا روپ دھارتے ہوئے صائم ایوب ایک میچ میں زخمی ہو گئے، تو انہیں ایونٹ سے باہر کرنا پڑا تا کہ ان کا کرکٹ مستقبل محفوظ رہے،جو یقینی طور پر ایک اچھا فیصلہ تھا اور ایسے ہی ہونا چاہئے تھا۔ صائم ایوب کے متبادل کئی ایک کھلاڑیوں کی بازگشت سنائی دی،لیکن قرعہ فال جس کھلاڑی کے نام نکلاوہ سعود شکیل تھے ،جنہیں ایونٹ کے پہلے میچ میں بابر اعظم کے ساتھ بطور اوپننگ پلیئر بھیجا گیا لیکن بدقسمتی سے سعود شکیل نیوزی لینڈ کے خلاف صرف چھ سکور بنا سکے جبکہ بابر اعظم کے بلے نے رنز تو اگلے مگر سٹرائیک ریٹ قدرے کم رہا۔جبکہ کپتان محمد رضوان ،فخر زمان بھی قابل قدر رنز سکور کرنے سے قاصر رہے البتہ سلمان آغا اور خوشدل شاہ نے قدرے تیز رفتاری سے بیٹنگ کی مگر ہدف تک نہ پہنچ سکے اورپاکستان اپنا پہلا میچ 60رنز سے ہار کر نیٹ رن ریٹ میں بھی بہت نیچے آ گیا۔جبکہ باؤلنگ کے شعبہ میں شاہین آفریدی نے 68،نسیم شاہ نے 63اور حارث رئوف نے 83رنز دئیے،جو کسی بھی طور عالمی باؤلرز کے حوالے سے قابل ستائش نہیں ،گو کہ حارث رئوف کی گیندوں پر چند کیچ بھی ڈراپ ہوئے مگر یہ پاکستانی ٹیم ہے،اس سے کچھ بھی متوقع ہے۔دوسرا میچ روایتی حریف بھارت کے ساتھ دبئی میں کھیلا گیا،جس کے اعدادو شمار بھی کچھ ایسے ہی رہے،سعود شکیل کی جگہ امام الحق کو بطور اوپنر آزمایا گیا اور امام الحق بھی قدرے سست روی سے بیٹنگ کرتے ہوئے صرف 10رنز سکور کر پائے،بابر اعظم کے بلے سے ایک بار پھر دلکش سٹروک پلے دیکھنے کو ملا لیکن وہ ہاردیک پانڈیا کی ایک اچھی گیند پر کلین بولڈ ہو گئے اور صرف 23رنز بنا سکے،سعود شکیل 62رنز کی ایک خوبصورت اننگز کھیل کر،سٹرائیک کو تیز کرنے کے چکر میں کیچ دے بیٹھے،اسی طرح رضوان نے 46رنز بنائے اور رضوان کی طرح سٹرائیک تیز کرنے کے چکر میں اپنی وکٹ گنوا بیٹھے بعد ازاں خوشدل شاہ نے تھوڑی کوشش کی لیکن دوسرے اینڈ سے کوئی ساتھ دینے کو تیار نظر نہ آیا، اور پاکستان یہ اہم ترین میچ بھی بھارت سے ہار کر ٹورنامنٹ سے تقریبا باہر ہو گیا گو کہ آخری میچ بنگلہ دیش کے ساتھ تھا،جو بارش کے باعث نہیں کھیلا گیا اور دونوں ٹیمو ں کو ایک ایک پوائنٹ دے دیا گیا۔ پاکستان ٹیم میں بابر اعظم ہو یا کوئی بھی دوسری کھلاڑی ،کیا میچ جیتنے کی ذمہ داری صرف ایک کھلاڑی کی ہے یا کرکٹ ایک ٹیم گیم ہے ،جس میں پوری ٹیم کو بوجھ اٹھانا ہوتا ہے؟ حیرت کی بات ہے کہ کسی بھی ٹورنامنٹ میں شکست کے بعد،نہ صرف بورڈ بلکہ سابق کھلاڑی بھی لٹھ لے کر صرف بابر پر چڑھ دوڑتے ہیں کوئی بھی احساس نہیں کرتا کہ بابر کے ساتھ کیا کیا جارہا ہے؟ کیسے اسے پہلے کپتانی میں دھچکے دئیے گئے،پھر اس کو کپتانی سے اتارا گیا،ٹیم میں اختلافات کو ہوا دی گئی،اسے طعنوں کے نشتروں سے زخمی کیا گیا،اس کا مورال ہر لمحہ گرانے کے کوشش کی گئی،حتی کہ تماشائیوں کی طرف سے اس پر کیسی کیسی پھبتیاں کسی گئی،یہ سب ایک مخصوص ذہنیت کی عکاسی ہے کہ ہم صرف چڑھتے سورج کی پوجا کرنے والا ہجوم ہیں۔بورڈ کی طرف سے میزبانی ملنے کے بعد جس طرح کا موقف بھارتی کرکٹ ٹیم کے متعلق اپنایا گیا، اس سے امید پیدا ہوئی تھی کہ بھارتی کرکٹ ٹیم پاکستان میں میچ کھیلے گی مگر آئی سی سی میں قیادت تبدیل ہوتے ہی، مذاکرات کی میز پر پاکستان نجانے کس عوضانے کے تحت بھارت کو نیوٹرل وینیو پر میچ کھلانے پر راضی ہو گیا؟ سابق کرکٹرز کو تنقید کے نشتر چلانے کی بجائے، بھارتی سابق کرکٹرز کے ساتھ بیٹھ کر صرف نکتہ چینی کی بجائے بھارتی کرکٹرزسے سیکھنے کی ضرور ت بھی ہے کہ کس طرح نوجوان کرکٹرز کو گروم کیا جائے۔ پاکستانی بورڈ کو بھی ’’ دنگ ٹپانے یا اقربا پروری‘‘ کرنے کی بجائے مستقل بنیادوں پر اپنی پالیسیوں کو ازسرنو ترتیب دینے کی ضرور ت ہے کہ چمپیئنز ٹرافی 2025تو ختم ہو گئی لیکن کرکٹ کے کئی مزید ٹورنامنٹس ابھی باقی ہیں۔