ڈیرہ اسماعیل خان میں مبینہ طور پر ’ونی‘ کی گئی 13 سالہ لڑکی کے والد کی خودکشی

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس کا کہنا ہے کہ ایک شخص نے پنچایت کی جانب سے اُس کی 13 سالہ بیٹی کو ’ونی‘ کرنے کے فیصلے کے بعد خودکشی کر لی ہے۔
اس معاملے سے متعلق ڈی آئی خان کے تھانہ پہاڑپور میں سرکاری مدعیت میں درج ہونے والی ایک ایف آئی آر کے مطابق گاؤں بگوانی شمالی کے علاقے میں ونی ہونے والی ایک 13 سالہ بچی کے والد نے زہریلی گولیاں کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کیا ہے۔
مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ اس کیس میں مرکزی ملزم اور عرائض نویس (پنچایت کا فیصلہ لکھنے والے) کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ ’واقعے میں ملوث دیگر ملزمان بھی جلد پولیس کی حراست میں ہوں گے۔‘
واضح رہے کہ ونی کی رسم کے تحت پاکستان کے بعض قبائل میں پنچایت بطور سزا کسی کی بیٹی، بہن کی جبری شادی کا حکم دیتی ہے اور اس لڑکی کو رات کی تاریکی میں گھر سے رخصت کر دیا جاتا ہے۔
عام طور پر ونی قرار دی جانے والی بچیوں کا تعلق غریب گھرانوں سے ہوتا ہے جن کے والدین کے پاس نقصان کے ازالے کے لیے نقد رقم موجود نہیں ہوتی اور انھیں نہ چاہتے ہوئے بھی انھیں جرگے کے اس نوعیت کے غیرقانونی فیصلے ماننا پڑتے ہیں۔
’نازیبا حرکات‘ کا الزام اور پنچایت کا فیصلہ
تھانہ پہاڑپور میں درج مقدمے کے متن کے مطابق بگوانی شمالی سے ایک آڈیو پیغام وائرل ہوا جو اس علاقے میں بطور حجام کام کرنے والے شخص عادل رمضان کا ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق عادل نے ’خودکشی کر کے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا ہے۔‘
ایف آئی آر کے مطابق پولیس کو ابتدائی تحقیقات میں معلوم ہوا ہے کہ ایک شادی کی تقریب کے دوران عادل کا بھانجا اس کیس کے ملزم کی بیٹی کے ساتھ مبینہ طور پر ’نازیبا حرکات کرتے ہوئے پکڑا گیا تھا۔‘
یہ معاملہ جرگے کے سامنے آیا اور عادل کے بھانجے پر چھ لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا گیا تاہم مرکزی ملزم نے عادل پر دباؤ ڈالا کہ ’میری بیٹی کی عزت آپ کے گھر میں خراب ہوئی ہے۔
ایف آئی آر میں درج تفصیلات کے مطابق اس کے بعد مقامی لوگوں کی ایک پنچایت نے ’عادل کو بُلا کر زبردستی اس کی 13 سالہ بیٹی کو ونی کرنے کا بیان تحریر کروایا۔‘
پولیس کے مطابق ’رسم و رواج کے مطابق عادل کی بیٹی کی مرکزی ملزم کے بیٹے سے منگنی کر کے جلد نکاح، اور پھر رخصتی کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔‘
مدعی مقدمہ کے مطابق عادل نے پنچایت کے اس فیصلے سے ’دل برداشتہ ہو کر خودکشی کر کے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا ہے‘ تاہم مقامی پولیس کے مطابق اُن کے ورثا نے اس حوالے سے پولیس میں کوئی شکایت درج نہیں کروائی۔
پولیس کے مطابق ان کی ابتدائی تحقیقات میں یہ سامنے آیا ہے کہ ’عادل کی موت کی وجہ بیٹی کو ونی دینے کا فیصلہ ہے۔‘
اس حوالے سے سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر عادل کا پیغام بھی زیر گردش ہے جو انھوں نے خود کو ہلاک کرنے سے قبل ریکارڈ کیا۔ یاد رہے کہ پولیس نے سوشل میڈیا پر یہ آڈیو پیغام وائرل ہونے کے بعد ہی اپنی مدعیت میں اس مقدمے کی ایف آئی آر درج کی ہے۔
آڈیو میں انھوں نے اپنی بیٹی کے ونی کرنے پر کہا کہ ’ہمارا کوئی قصور نہیں تھا میں نے انھیں نہیں بخشا، آپ بھی انھیں چھوڑنا نہیں۔‘
اس آڈیو میں عادل الزام عائد کر رہے ہیں کہ انھیں زبردستی اٹھا کر لے گئے تھے جہاں زبردستی اشٹام کروایا گیا لیکن انھوں نے شناختی کارڈ نہیں دیا، ان کی بڑی منت سماجت کی لیکن وہ نہیں مانے اور مجھ پر الزام عائد کیا ہے۔
انھوں نے آڈیو میں اپنی بچوں کی پرورش اور حفاظت کرنے کی بھی درخواست کی ہے۔
یہ کہتے ہوئے وہ رونے لگے اور کہا کہ ’میری بیٹی پر کوئی آنچ نہ آئے میں قربان ہو جاؤں اس کی پرواہ نہیں ہے لوگوں سے کچھ بھی کہہ دینا کیسی موت ہے لیکن میرا کوئی گناہ نہیں تھا مجھے خواہ مخواہ پھنسایا گیا ہے۔‘
پاکستان میں ونی (جسے سوارہ بھی کہا جاتا ہے) کے خلاف قوانین موجود ہیں جو پولیس کی جانب سے درج ہونے والی ایف آئی آر میں بھی شامل کیے گئے ہیں۔ ان میں تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 310 اے (سزا کے طور پر لڑکی کو ونی کرنا) شامل ہے۔ اس کے تحت ملزمان کو زیادہ سے زیادہ 10 سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
پولیس نے اس مقدمے میں دفعہ 322 بھی شامل کی ہے۔
پولیس نے اب تک کیا کارروائی کی ہے؟
خیبر پختونخوا پولیس کا کہنا ہے کہ ونی کے اس کیس اور وائرل ہونے والے وائس نوٹ پر انسپکٹر جنرل آف پولیس خیبرپختونخوا نے فوری نوٹس لیا اور متعلقہ پولیس حکام کو جلد از جلد ملوث ملزمان کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اس پر فوری کارروائی کرتے ہویے ملزمان کو ٹریس کیا گیا اور اس سلسلے میں مارے گئے ایک چھاپے میں کمسن بچی کو ونی کرنے والے مرکزی ملزم اور عرائص نویس کو گرفتار کیا ہے۔
ایس پی پہاڑپور گوہر خان کا کہنا تھا کہ متاثرہ کمسن بچی کو بازیاب کر کے ورثا کے حوالے کیا گیا ہے۔
پولیس کے مطابق ’گرفتار ملزمان سے مزید تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔ واقعے میں ملوث دیگر ملزمان بھی جلد پولیس کی حراست میں ہوں گے۔‘
اس بارے میں ضلعی پولیس افسر ڈیرہ اسماعیل خان صاحبزادہ سجاد نے بی بی سی کو بتایا کہ ’بچی کے ونی کرنے اور پھر اس کے والد عادل کی خودکشی کا واقعہ پیش آنے کے بعد پولیس کو جیسے ہی معلوم ہوا تو فوری طور پر اس کا مقدمہ درج کیا گیا۔‘
ان سے جب پوچھا گیا کہ اس علاقے میں پنچائیت کتنی مضبوط ہے تو ان کا کہنا تھا کہ یہ کوئی پنچائیت کا فیصلہ نہیں تھا بلکہ یہ ادھر خاندان کے لوگ آپس میں بیٹھ کر فیصلے کرتے رہے، ‘یہ کوئی کھلے حجرے یا باقاعدہ علاقے میں اعلان کر کے فیصلہ نہیں ہوا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ فیصلہ کہ لڑکی کو ونی کرنا اور آپس میں لے دے کے فیصلے بیٹھک کے اندر ہوئے ہیں اور پولیس کو جیسے ہی معلوم ہوا کہ اس طرح کا واقعہ پیش آیا ہے تو پولیس نے فوری طور پر مقدمہ درج کر لیا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس سلسلے میں دو افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ کچھ فرار ہو گئے ہیں انھیں بھی جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔‘
انھوں نے کہا کہ بچی اپنے گھر میں ہے اور عادل سے جو سات لاکھ روپے لیے گئے تھے وہ بھی برآمد کر لیے گئے ہیں۔‘