امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مزاج

تحریر : روشن لعل
کسی بھی فرد کے رویوںسے اس کے جذبات اور جوش کی جو شدت ظاہر ہوتی ہے اسی کو اس کا مزاج کہا جاتا ہے ۔ لوگوں کے مزاج کو ان کی شخصیت کا آئینہ تصور کیا جاتا ہے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق انسانی ’’ مزاج‘‘ کی چار بنیادی قسمیں ہیں۔ ان ماہرین کا ماننا ہے کہ کسی بچے کی پیدائش کے بعد چند ہفتے تک اس کی حرکات و سکنات کا جائزہ لے کر یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بنیادی طور پر اس کا مزاج کس قسم کا ہے۔ کسی انسان کی زندگی کے ابتدائی دنوں میں اس کے مزاج کی بنیادی قسم طے ہونے کے بعد بھی تغیر پذیر حالات و واقعات، اس کے خصائل کی تشکیل پر زندگی بھر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مزاج کی بات کی جائے تو بعض ماہر نفسیات انہیں مزاجاً خود پرست اور کچھ خو د آگاہی کے خبط میں مبتلا تصور کرتے ہیں۔ خود پرستی(narcissism) اور خود آگاہ(solipsism) کے خبط میں مبتلا ہونے کو بعض لوگ ایک ہی قسم کا نفسیاتی عارضہ تصور کرتے ہیں لیکن ماہرین نفسیات کے مطابق چاہے باریک سہی لیکن دونوں نفسیاتی عارضوں میں فرق موجود ہے۔ یہاں جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کا مقصد خود پرستی اور خود آگاہی کے خبط کے فرق کو اجاگر کرنا نہیں بلکہ یہ واضح کرنا ہے کہ صرف عام لوگ ہی نہیں ڈونلڈ ٹرمپ کے مزاج کا اندازہ لگانے کی کوشش کرنے والے ماہرین نفسیات بھی الجھائو کا شکار ہیں۔
جس ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے رویوں کی وجہ سے ماہرین نفسیات کو الجھنوں کا شکار کر رکھا ہے اس کے متعلق ایک سادہ سے خیال یہ بھی ہے کہ موجودہ امریکی صدرسے کیا متوقع اور کیا غیر متوقع ہو سکتا ہے اس بارے میں حتمی طور پر کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ ٹرمپ جیسے غیر متوقع لوگوں کے متعلق کوئی نہیں سوچ سکتا کہ یہ کب تک سیدھا چلیں گے ، کس وقت دائیں یا بائیں مڑیں گے ا ور کن حالات میں اچانک یو ٹرن لے لیں گے۔جو لوگ اس حد تک غیر متوقع ہوں ان کے متعلق حتمی طور پر کچھ کہنے سے گریز کرنے کے ساتھ ، احتیاطاً یہ بات ضرور ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اپنی سابقہ زندگی میں جب وہ سیدھا چلے تو اس کی کیا وجہ تھی، جب کوئی موڑ مڑے تو کیا حالات تھے اور جب اچانک یوٹرن لیا تو سامنے کیا آگیاتھا۔ ایسی باتوں کو ذہن میں رکھنے سے غیر متوقع شخصیات سے معاملات طے کرنا نسبتاً آسان ہو جاتا ہے۔ صدر ٹرمپ اپنے دوسرے صدارتی دور کے ابتدائی ہفتوں کے دوران اچانک کچھ موڑ مڑنے کے ساتھ کچھ یوٹرن بھی لے چکے ہیں۔ ٹرمپ نے گزشتہ چند ہفتوں کے دوران جو کچھ کیا اس کی وجوہات کے متعلق ابھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن اگر ان گزشتہ صدارتی دور کی کارکردگی کو مد نظر رکھا جائے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کیوں ، کیا کچھ کرتے رہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے 2016ء میں اپنی پہلی صدارتی مدت کے لیے چلائی گئی انتخابی مہم کے دوران جن تین ملکوں کے متعلق سخت باتیں کیں ان میں سے ایک شمالی کوریا، دوسرا ایران اور تیسرا سعودی عرب تھا۔ پہلی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے شمالی کوریا اور ایران کے متعلق جو کچھ کہا اسے سخت تنقید جبکہ سعودی عرب کے لیے کیے گئے اظہار کو تحفظات کے زمرے میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ عجیب بات ہے کہ اپنی انتخابی مہم کے دوران جس سعودی عرب کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ تحفظات کا کرتے رہے، اپنے پہلے بیرونی دورے کے لیے اسی کا انتخاب کیا۔ مئی 2017ء میں سعودی عرب کے دورے کے دوران ٹرمپ نے سعودی عرب کو 110بلین ڈالر کا جنگی سامان فوری فروخت کرنے اور آئندہ دس برسوں میں 350بلین ڈالر کے اسلحہ کی فراہمی جاری رکھنے کا معاہدہ کیا۔ سعودی عرب کے ساتھ اسلحہ کی فروخت کا معاہدہ کرنے بعد ٹرمپ وہاں سے سیدھے اسرائیل گئے ۔ اسرائیلی زمین پر پائوں رکھتے ہی ٹرمپ نے یہ بیان دیا کہ انہیں مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی نئی امیدیں نظر آرہی ہیں۔ ٹرمپ کے اس بیان پر مبصر حیران ہوئے تھے کہ دو دشمن سمجھے جانے
والے ملکوں میں سے ایک کے ساتھ کئی بلین ڈالر کے اسلحہ کی فروخت کا معاہدہ کرنے کے بعد کوئی خطے میں امن قائم ہونے کی امیدیں نظر آنے جیسی باتیں کیسے کر سکتا ہے۔ اصل میں اس وقت ٹرمپ کا یہ منصوبہ تھا کہ ایران اور سعودی عرب میں پہلے سے موجود چپقلش کو ہوا دے کر ان کی دشمنی کو حد تک لے جایا جائے کہ دونوں ملک ایک دوسرے کو متوقع حملہ آور سمجھنے لگیں۔ خاص طور پر جب سعودی عرب کے لیے ایران متوقع حملہ آور ہو جائے گا تو وہ ایران کے اعلانیہ دشمن اسرائیل کے لیے اپنی روایتی پالیسی پر نظر ثانی کرنا شروع کر دے گا کیونکہ نہ تو سعودی عرب بیک وقت دو ملکوں سے کسی متوقع جنگ میں الجھنے کا متحمل ہو سکتا ہے اور نہ ہی اس کا امریکہ سے خریدا گیا اسلحہ اسرائیل کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں ایران اور شمالی کوریا کو ایک جیسی برائی قرار دینے کے بعد یورپی یونین میں شامل ملکوں کی مخالفت کے باوجود ایران کے اوبامہ دور میں کیے گئے نیوکلیئر معاہدے کو ختم کر کے اس پر پھر سے اقتصادی پابندیاں عائد کرکے دھمکیاں دینا شروع کردی تھیں۔ ایران تو اس سلسلے میں اقوام عالم کے سامنے اپنی صفائیاں پیش کرتا رہا مگر ٹرمپ کی دھمکیوں کو کسی خاطر میں نہ لاتے ہوئے شمالی کوریا نے جولائی 2017ء میں بین البراعظمی بلاسٹک میزائل Hwasong-14کا تجربہ کر دیا ۔ اس تجربے کے بعد ٹرمپ نے شمالی کوریا کو تباہ و برباد کرنے کی دھمکی دی۔ ٹرمپ کی اس دھمکی کو بھی ہوا میں اڑاتے ہوئے شمالی کوریا نے پہلے ستمبر 2017ء میں ہائیڈروجن بم بنانے کا دعویٰ کیا اور پھر نومبر 2017ء میں5 Hwasong-1کے کامیاب تجربے کے سا تھ ہی یہ دعویٰ کر ڈالا کہ اب امریکہ کا کوئی بھی علاقہ شمالی کوریا کے بلاسٹک میزائل حملوں کی زد سے باہر نہیں رہا۔ شمالی کوریا کے اس دعوے کے قابل عمل ہونے کی تصدیق کرنے کے بعد یکایک ٹرمپ کا رویہ شمالی کوریا کے لیے تبدیل ہونا شروع ہو گیا۔ ٹرمپ کے رویے میں تبدیلی کے ساتھ ہی شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے برسوں سے منقطع رابطے بحال ہو گئے۔ ان روابط کی بحالی کے تسلسل میں جون 2018ء میں امریکی صدر ٹرمپ اور شمالی کوریا کے کم جونگ ان کی سنگا پور میں پہلی ملاقات ہوئی اور ٹھیک ایک سال بعد ٹرمپ کم جونگ سے ملاقات کرنے شمالی اور جنوبی کوریا کے بارڈر پر پہنچ گیا۔
اپنی دوسری صدارتی مدت کے آغاز پر اسرائیل کی غزہ میں برپا کردہ تباہی کے باوجود ٹرمپ پھر سے سعودی عرب کے قریب آنا شروع ہو گیا ہے، آج کسی کو یاد نہیں کہ ٹرمپ جس شمالی کوریا کو تباہ کرنے کے دعوے کیا کرتا تھا اسے اس نے آخری مرتبہ کب دھمکی دی تھی لیکن یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ ایران آج بھی اس کے نشانے پر ہے۔ مذکورہ تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی نہ کسی حد تک یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ٹرمپ کس قسم کے مزاج کا حامل انسان ہے۔