تحریک انصاف اور عمران خان: احتجاجی سیاست میں کامیابی یا ناکامی کی مثال؟

تحریر : راؤ بلال سال 2024 کے آغاز میں ایک سیاسی جماعت، جو خود کو پاکستان کی 80 فیصد آبادی کی نمائندہ جماعت قرار دیتی تھی، الیکشن سے پہلے اپنے انتخابی نشان سے محروم ہو گئی۔بات ہو رہی ہے تحریک انصاف کی۔ اس جماعت نے دعویٰ کیا کہ اسے انتخابات میں ناکام بنانے کے لیے یہ سب کیا جا رہا ہے۔ 8 فروری کو انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے اور ایک صوبے میں حکومت بنانے کے باوجود، مارچ میں حکومتوں اور کابینہ کے حلف اٹھانے کے بعد بھی دھاندلی کے الزامات سامنے آئے۔ کچھ تجزیہ کاروں نے 1971 سے مماثلت کی کوشش کی، مگر ایک سال بعد بھی ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔
مارچ 2024 میں جماعت نے ملک گیر احتجاج کی کال دی، مگر یہ ناکام رہا۔ سوشل میڈیا پر پرانی احتجاجی ویڈیوز چلائی گئیں، لیکن تجزیہ کاروں نے اسے "فلاپ شو” قرار دیا۔ جولائی میں ترنول میں احتجاج کی اجازت نہ ملی، اگست میں بانی کی گرفتاری کے ایک سال مکمل ہونے پر احتجاج کی کال دی گئی، مگر محدود اثر رہا۔ ستمبر میں لاہور، اسلام آباد اور راولپنڈی میں احتجاج کی کال دی گئی۔ 8 ستمبر کے جلسے میں قیادت نے حکومت اور اداروں پر تنقید کی، مگر وزیراعلیٰ کے پی کی اچانک گمشدگی پر حکومت نے دعویٰ کیا کہ وہ آئی ایس آئی کے دفتر میں معافیاں مانگ رہے تھے۔ 21 ستمبر کو لاہور کے جلسے میں عوام کی عدم دلچسپی واضح تھی، اور 28 ستمبر کو راولپنڈی میں جلسے کی اجازت نہ ملی۔
اکتوبر میں جب پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کی میزبانی کر رہا تھا، جماعت نے احتجاج کی کال دی اور بھارتی وزیر خارجہ کو شرکت کی دعوت دی، جس پر سوالات اٹھے۔ وزیراعلیٰ کے پی اسلام آباد پہنچے، مگر کارکنان کو پولیس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ 14-15 اکتوبر کو اجلاس کے دوران جماعت نے احتجاج کا ارادہ ترک کر دیا۔ 18 اکتوبر کو 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف احتجاج محض اعلان تک محدود رہا، اور 20 اکتوبر کو یہ ترمیم منظور ہو گئی۔ 24 اکتوبر کو بانی کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی رہائی کے بعد "ڈیل” کی قیاس آرائیاں ہوئیں، مگر کوئی بڑی پیشرفت نہ ہوئی۔
نومبر میں جماعت نے امریکی انتخابات کے بعد ٹرمپ کی ممکنہ حمایت کی امید باندھی، مگر حکومت نے اس بیانیے کو مسترد کر دیا۔ بعد میں قیادت بشریٰ بی بی کے سپرد کر دی گئی اور 26 نومبر کو "فائنل کال” دی گئی، مگر اسی رات جماعت کی نئی لیڈر پرانے مسیح کے ساتھ فرار ہوتے دیکھی گئی۔ 31 جنوری تک جماعت کو امید تھی کہ ٹرمپ عمران خان کو بچا لے گا، مگر یہ خواب ہی رہا۔ 17 جنوری کو 190 ملین پاؤنڈ کیس میں سزا کے بعد مذاکراتی کوششیں دم توڑ گئیں۔ 8 فروری 2025 کو جماعت نے یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا، مگر احتجاج صرف صوابی تک محدود رہا۔ اب جماعت ایک بار پھر احتجاج کی تیاری میں ہے، لیکن بطاہر اس کا بیانیہ پرانا ہو چکا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کو عام طور پر احتجاجی سیاست کی ماہر جماعت سمجھا جاتا ہے، لیکن دستیاب ڈیٹا اس کے برعکس ہے۔ 2024 میں متعدد احتجاجی کالز کے باوجود، عوامی ردعمل کمزور رہا، اور بیشتر مظاہرے ناکام ثابت ہوئے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ عوام نے احتجاجی سیاست کے بجائے کارکردگی کو ترجیح دینا شروع کر دیا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ تحریک انصاف تب تک قابل ذکر احتجاج کرسکی جب اسے مکمل طور پر اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ حاصل تھی۔