گروہ بندی کا شکار صحافت

امتیاز عاصی
عوام الناس کو معاشرے کے حالات و واقعات سے باخبر رکھنے کا ذرائع ابلاغ موثر ذریعہ ہے۔ پرنٹ میڈیا کے بعد الیکٹرک میڈیا کے آنے کے بعد صحافت کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے۔ جو خبریں عوام تک اگلے روز پہنچتی تھیں وہ اسی روز پہنچ جاتی ہیں البتہ ان میں کتنی صداقت ہوتی ہے یہ ایک الگ موضوع ہے۔ راقم کا تعلق شروع سے اردو صحافت سے رہا ہے، ایک بڑے اردو اخبار میں کئی سال تک ملازمت کرنے کا موقع ملا، جہاں خبر کی چھان بین کے بعد ہی اس کی اشاعت ممکن ہوتی تھی۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں جہاں اخبارات مختلف نظریات کے حامل ہیں وہاں صحافت سے وابستہ حضرات اپنے اپنے نظریات رکھتے ہیں، جیسا کہ کچھ صحافی حضرات بعض سیاسی جماعتوں سے وابستہ ہو کر ان کی پروجکیشن کیلئے کام کرتے ہیں۔ نصف صدی سے زیادہ عرصے پر نظر دوڑائیں تو ہمیں آغا شورش کاشمیری، نثار عثمانی اور جناب مجید نظامی ایسی شخصیات دکھائی دیتی ہیں، بڑا سے بڑا حکمران انہیں ان کے نظریات سے ہٹا نہیں سکا، ان کی راست بازی سے وقت کے حکمران خائف رہتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب صحافت میں روپے پیسے اور پلاٹوں نے جگہ نہیں لی تھی بلکہ راست بازی ان کا بڑا سرمایہ ہوا کرتی تھی۔ گو صحافی برادری میں دائیں اور بائیں بازو کے لوگوں کے دو گروپ پہلے سے موجود تھے پر
جس طرح کی صحافت آج کل کے دور میں ہورہی ہے اس پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ اہل صحافت کیلئے پریس کلب ایک اچھا فورم ہوتا ہے جہاں صحافت سے وابستہ لوگ سیاست دان ، تاجر، مزدور تنظیمیں اور وکلاء برادری مختلف تقاریب کا انعقاد کرتے ہیں، جہاں سے اٹھنے والی آواز اقتدار کے ایوانوں تک آسانی سے پہنچتی ہے۔ ہمیں یاد ہے ایک دور میں راولپنڈی پریس کلب میں پروگرام میٹ دی پریس نے بڑی شہرت حاصل کی جہاں مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگ پروگرام میں آکر صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیتے تھے۔ پروگرام میٹ دی پریس کے روح رواں اور پریس کلب راولپنڈی کے صدر جناب حاجی نواز رضا کی شبانہ روز کاوشوں سے یہ پروگرام بڑی کامیابی سے جاری رہا۔ ان دنوں یہ ناچیز پریس کلب کا رکن تھا، بعدازاں ایک طویل عرصے تک قید و بند میں رہنے سے میں پریس کلب کی رکنیت سے محروم کر دیا گیا، جس کا مجھے ملال نہیں۔ اگر ملال ہے تو چند روز قبل فیس بک پر حاجی نواز رضا صاحب سے متعلق ایک ریلیز نظر سے گزری تو انتہائی دکھ ہوا۔ نواز رضا کے نام جو مراسلہ جاری ہوا، جس کی زبان سے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا آج کی صحافت
سیاسی جماعتوں کی آپس کی پرخاش سے بہت آگے جا چکی ہے۔ یہ بات درست ہے پریس کلب کے انتخابات ہوتے ہیں، ووٹر جنہیں ووٹ دے کر کامیاب بناتے ہیں وہی پریس کلب کے مختار کل ہوتے ہیں تاہم اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں وہ فریق ثانی کو کسی قسم کی تقریب کا انعقاد نہ کرنے دیں۔ حاجی نواز رضا کا یہ معمول رہا ہے کہ وہ دنیا سے سدھار جانے والے صحافیوں کی یاد میں تقاریب کا انعقاد کرتے رہتے ہیں۔ پریس کلب کے گزشتہ انتخابات سے قبل صحافیوں کے ایک گروپ نے بعض غیر عامل صحافیوں کی رکنیت پر اعتراضات کئے تھے اور کچھ صحافیوں نے سول عدالت سے بھی رجو ع کیا تاہم اس کے باوجود وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
دراصل صحافت کے شعبہ میں روپے پیسے کا رواج اسی کے عشرے میں وارد ہوا جس کے بعد سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ بعض حکمرانوں نے صحافیوں کو پلاٹ کا لالچ دے کر اپنا گرویدہ بنا لیا اور کچھ نی سرکاری خزانے سے یلیو سکیم کی گاڑیاں دے کر اپنا ہمنوا بنا لیا۔ دور حاضر میں صحافت کا یہ عالم ہے کہ بعض اخبارات کے مالکان نے چند صحافیوں کو اہل اقتدار کی مدح سرائیوں اور بعض کو حکومت کی کمزوریاں اجاگر کرنے کیلئے مامور کر رکھا ہے۔ اخبارات اور نجی ٹی وی چینلز کو ماسوائے اپنے اشتہارات کے نہ تو عوام کے مسائل اور نہ ورکرز کی فلاح و بہبود سے کوئی سروکار ہے۔ نجی ٹی وی چینلز پر چند مخصوص لوگوں کو بلا کر عوام کی مشکلات کی بجائے سیاست دانوں کی تعریف و توصیف کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے۔ سیاست دانوں کی سیاست کا مرکز و محور ملک اور عوام کی ترقی کی بجائے ذاتی مفادات ہیں۔ حال ہی میں ارکان اسمبلی کے ماہانہ الائونسز میں اضافہ اس امر کا غماز ہے کہ انہیں ملک اور عوام کے مفادات کی بجائے ذاتی مفادات عزیز ہیں۔ ملک میں آئین اور قانون نام کی کوئی چیز نہیں ہے، آئینی ترامیم کرکے عدلیہ کے پر کاٹ دیئے گئے ہیں۔ مخصوص سیاسی جماعتوں کو بار بار اقتدار میں لایا جارہا ہے۔ ایک عام شہری چند لاکھ روپے بنک میں ڈیپازٹ کرے تو باز پرس کی جاتی ہے جب کہ بعض سیاست دانوں نے اربوں کا سرمایہ بیرون ملک منتقل کر دیا ہے۔ چیئرمین نیب کا اخباری بیان نظر سے گزرا، کہتے ہیں کئی ہزار پاکستانی اپنا سرمایہ ملک سے باہر منتقل کر چکے ہیں۔ آزاد صحافت ایسی ہے کہ مخصوص سیاسی جماعتوں کی پروجکیشن ہوتی ہے۔ عوام کی پسندیدہ سیاسی جماعتوں کیلئے تمام راستے بند کر دیئے گئے ہیں۔ جہاں ہماری سیاست ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے وہاں صحافت میں دراڑیں ہیں۔ ہماری پریس کلب کے ذمہ داروں سے گزارش ہے وہ اپنے تمام تر اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صحافتی تنظیموں کو گاہے گاہے تقاریب کا انعقاد کرنے کی اجازت دیا کریں، جو صحافی برادری میں اتحاد کا ذریعہ ثابت ہوگا۔ انتخابی اختلافات اپنی جگہ ضرور ہونے چاہئیں لیکن اس طرح کی تقاریب جو گزرے ہوئے صحافی بھائیوں کی یاد میں منعقد کرائی جائیں ان میں پریس کلب کے عہدیداروں کو بھرپور تعاون کرکے یک جہتی کا مظاہر ہ کرنا چاہئے۔ پریس کلب کا عہدے دار کوئی بھی ہو صحافی برادری کے اس اہم فورم سے بلا تفریق تمام صحافیوں کی فلاح و بہبود کیلئے آواز بلند ہونی چاہئے۔ صحافت سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے مسائل کیونکر ابھی تک حل طلب ہیں ایک ہی وجہ ہے کہ صحافی برادری مختلف گروہوں میں بٹ چکی ہے۔ جو دنیا سے چلے گئے انہیں اس سے کوئی غرض نہیں پریس کلب کی انتظامیہ کون ہے، وہ ہم سب کی دعائوں کے طلب گار ہیں۔