ارضِ خون بار

فلسطین ارضِ مقدس،جو دنیا کے تین الہامی مذاہب کے لیے مقدس اور بابرکت سمجھی جاتی ہے۔ فلسطین رسالت اور فیوض و برکات کا منبع رہا ہے۔ اسی سر زمین میں مسجد اقصیٰ موجود ہے، جہاں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو معراج عطا ہوئی۔ اسے ارضِ مطہر،بیت المقدس یا ارضِ مقدس بھی کہتے ہیں۔ خود رب کریم نے سورہ مائدہ آیت نمبر بیس میں اسے مقدس سرزمین کہا ہے۔اس سرزمین میں موجود مسجد اقصیٰ یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے۔اور مسلمانوں کا قبلہ اول بھی رہی ہے۔ اسے تیسرا حرم بھی کہا جاتا ہے۔یہ یہودیوں کے لیے اس لیے اہم ہے کہ یہاں حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہیکلِ سلیمانی تعمیر کیا تھا۔ عیسائیوں کے لیے اس لیے اہم ہے کہ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جائے ولادت ہے۔ مسلمانوں کے لیے اس لیے اہم ہے کہ یہاں حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے تمام انبیاء کرام ٌ کی جماعت کی امامت کروائی اور سفرِ معراج کیا۔اسے بابل کے بادشاہ بخت نصر نے تباہی سے دوچار کیا۔اس کے بعد سائپرس دی گریٹ نے اسے حاصل کرکے یہاں یہودیوں کو آباد کیا۔پھر عیسائی بادشاہ ٹائیٹس نے یروشلم پر حملہ کرکے اس علاقے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔جنوری 1915ء میں ہربرٹ سیموئیل نے اپنے خفیہ میمو’’ دی فیوچر آف فلسطین‘‘ میں برطانیہ کی سرپرستی میں خودمختار ریاست کے قیام کی حمایت کی۔یہی وجہ ہے کہ یہودیوں نے مال واسباب پر قابض ہو کر اس سلطنت کے قیام کے لیے جنگِ عظیم اول اور جنگِ عظیم دوئم برپا کیں۔
یہودی یہاں اقلیت میں وارد ہوئے۔ اور آہستہ آہستہ اپنا دائرہ کار بڑھاتے چلے گئے۔اس کام کے لیے انھیں امریکہ کا آشیر باد حاصل تھا۔جو آج تک اسرائیل کو اپنے سائے تلے پناہ دیے ہوئے ہے۔فلسطین کی سرسبز اور بڑی کھیتیاں،جہاں عرب کسان کھیتی باڑی کیا کرتے تھے۔وہ ان سے اصل قیمت سے کئی گنا زیادہ قیمت پر خریدنے کے بعد یہودیوں کو فروخت کر دی گئیں۔عالمی سطح پر یہودیوں نے پراپیگنڈا اور تشہیراتی مہم سے ظاہر کیا کہ وہ مظلوم اور دربدر قوم ہیں۔ جو صدیوں سے ظلم و جارحیت کا شکار ہیں۔جبکہ عرب جو اپنی زمینیں واپس لینے کی کوشش کر رہے ہیں،وہ بڑے شر پسند اور جابر لوگ ہیں۔ یہودیوں نے فلسطین پر قبضہ جمانے کے لیے تین قسم کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے۔
پہلا: فلسطینیوں کے ساتھ سنگدلانہ سلوک اختیار کیا اور انھیں کسی بھی رحم کے لائق نہیں گردانا۔
دوسرا: عالمی اداروں اور اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارمز پر جھوٹ اور دروغ گوئی کی مدد سے خود کو مظلوم ثابت کیا۔
تیسرا: سازباز کرکے حکومتیں گرا کر اپنے من پسند اتحادی بٹھا کر عالمی رہنمائوں کی ہمدردیاں سمیٹیں اور انھیں اپنے مقصد کے حصول کے لیے ہموار کیا۔یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے اسرائیل کو مسلم امّہ کے سینے میں گھونپا گیا خنجر اور امریکہ کی ناجائز اولاد قرار دیا تھا۔یہودی ہیکلِ سلیمانی کی حفاظت نہ کر پانے کی پاداش میں خود کو مجرم متصور کرتے ہیں۔اسی لیے دیوارِ گریہ کے پاس آہ و زاری کرتے ہیں۔یہود ایمان رکھتے ہیں کہ انھیں تیسری بار پھر حکومت ملے گی۔اس لیے وہ مسجد اقصیٰ کو گرا کر وہاں تھرڈ ٹیمپل تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔لیکن ان کے مطابق اس سے پہلے انھیں سرخ گائے قربان کرنا ہوگی۔مسجد اقصیٰ کی بنیادیں، وہپہلے ہی کھوکھلی کر چکے ہیں۔اس کے نیچے بارودی سرنگوں کا جال بھی بچھا چکے ہیں۔حالیہ، اپنا سمندری دفاع مضبوط کرنے کے لیے اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر، حماس کی آڑ لے کر قیامت ڈھا دی ہے۔ستر ہزار ٹن سے زائد بارود غزہ کی پٹی کو ملیامیٹ کرنے کے لیے گرایا جا چکا ہے۔ عالمی قوانینِ جنگ کی دھجیاں اڑا کر فاسفورس بم بے دریغ استعمال کیے گئے ہیں۔ مرد، عورت، بچے، بوڑھے، شیر خوار اور نومولود تک کسی کو بھی نہیں بخشا۔ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں برپا ہونے والی تباہی کا تخمینہ انیس ارب ڈالرز سے بھی تجاوز کر چکا ہے۔دس لاکھ شہری بے گھر اور پچھتر فی صد آبادی نقل مکانی پر مجبور ہو چکی ہے۔اسرائیلی
بمباری کے شاخسانے میں شہداء کی تعداد سولہ ہزار سے متجاوز ہو چکی ہے،جن میں سات ہزار کے قریب بچے شامل ہیں۔ستر کے قریب صحافی،دو سو سے زائد ہیلتھ کیئر ورکرز،چھبیس سول ڈیفنس اہلکار،ایک فلسطینی فٹ بالر سمیت متعدد ڈاکٹرز اور نرسیں شامل ہیں۔ اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری و ساری ہے اور شہداء کی تعداد میں ہر گزرتا دن مسلسل اضافہ کرتا جا رہا ہے۔ سو سے زائد سرکاری تنصیبات، ڈھائی سو سے زائد سکول، ڈیڑھ سو کے قریب مساجد،گرجا گھر اور تقریباً پچاس ہزار کے قریب مکانات مسمار ہو چکے ہیں۔چھبیس ہسپتال،پچاس سے زائد مراکزِ صحت و پناہ گزین کیمپ تباہ اور پچاس کے قریب ایمبولینس سروس کو ناکارہ کیا گیا ہے۔ اسرائیلی فوج غزہ میں تین ہزار کے قریب جرائم اور قتل کی سنگین وارداتوں میں ملوث ہے۔ آٹھ لاکھ کے قریب فلسطینی غزہ کے شمال میں مشکل حالات میں پھنسے ہوئے ہیں۔اس امرِ قبیح پر اقوامِ متحدہ میں جنگ بندی کی قرارداد کو امریکہ،برطانیہ اور فرانس نے مسترد کر کے اپنا مکروہ چہرہ دنیا بھر کے سامنے عیاں کر دیا ہے۔
فلسطین اور غزہ کو اس بحران سے نکالنے کے لیے اور اسرائیل کو لگام ڈالنے کے لیے چند ایک حل درج ذیل ہیں۔
1: سفارتی سطح پر اسرائیل پر شدید دبا ڈالا جائے۔
2: اسرائیلی مصنوعات اور برآمدات کا بائیکاٹ کر کے اسے معاشی طور پر کمزور کیا جائے۔
3: مسلمان ممالک اپنے تعلقات اسرائیل سے منقطع کر کے سرحدیں بند کر دیں اور اسرائیل کو امداد کی فراہمی بند کر دیں۔
4: عرب ممالک اجماع کر کے اسرائیل پر معاشی اور اقتصادی پابندیاں عائد کریں۔
5: عرب ممالک اسرائیل کو تیل کی سپلائی بند کر دیں۔ اور تا حالتِ جنگ بندی منقطع رکھیں۔
( لیکن افسوس کہ ابھی حالیہ دنوں میں سعودی عرب نے سو سے زائد تیل کے کنٹینرز بھیجے ہیں)۔
6: مسلمان ممالک فلسطینی باشندوں کی ہر سطح پر سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھیں۔
7: آخری پائیدار حل یہ ہے کہ تمام مسلم ممالک عملی جہاد کا اعلان کر دیں۔ لیکن ایک شعر موجودہ ستاون اسلامی ممالک اور ان کی مشترکہ فوج کی حالت کا بہترین عکاس ہے۔
یہ مصرع لکھ دیا کس شوخ نے محرابِ مسجد پر
یہ ناداں گر گئے سجدوں میں جب وقتِ قیام آیا
مسلم ممالک کی مجرمانہ غفلت ہی مظلوم فلسطینیوں پر ظلم و ستم ڈھانے کے لیے اسرائیل کو اکسا رہی ہے۔امریکہ گزشتہ دو سو سال سے مصروفِ جنگ ہے۔اسرائیل اپنے قیام سے مصروفِ جنگ ہے۔لیکن یہ ممالک کمزور نہیں ہوئے۔الٹا طاقتور ہوتے چلے گئے۔جبکہ جہاد جن کا شیوہ تھا،وہ آج مٹھی بھر یہود سے تھرائے ،گھبرائے اور لرزاں اپنے ہی بھائیوں کی اموات، مائوں،بہنوں کی عزتوں کے لٹنے اور معصوم بچے،بچیوں کے قتلِ عام پر ان فاسق درندوں کی جانب بغلوں میں ہاتھ دبائے، رحم طلب نظروں سے دیکھ دیکھ رہے ہیں۔افسوس صد افسوس!
اللّٰہ پاک مظلوم فلسطینیوں کی مدد فرمائے۔ آمین!