ColumnImtiaz Aasi

باغبان نے آگ لگا دی آشیانے کو

امتیاز عاصی
فطرت انسانی ہے جس پر کوئی احسان کیا جائے اس سے انسان کو امیدیں وابستہ ہو جاتی ہیں۔ اس کے دوسرے پہلو پر غور کیا جائے تو حضرت علیؓ کا فرمان ہے جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو۔ گویا دونوں باتیں اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔ انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے حوالے سے ہمیں دونوں باتیں یاد آرہی ہیں عمران خان کو سلطان سکندر راجا سے بہت سی توقعات ہوں گی اسے کیا معلوم تھا وہ وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے والا کھلاڑی ہے۔ کہیں اور سے سفارش آئی ہوگی جسے رد کرنا عمران خان کے لئے دشوار تھا ۔ عمران خان سے دوستی کا دعویٰ دار شیخ رشید بھی سکندر سلطان کا سفارشی تھا۔ عام طور پر کہا جاتا ہے ملک میں صرف ایک بار منصفانہ انتخابات ہوئے البتہ 2024ء کے الیکشن نے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ دیئے۔ حکومت اپوزیشن دونوں راجے پر متفق تھیں سکندر کو حکومت سے رضامندی کی ضرورت تھی وہ اسے بڑوں نے دلوا دی۔ فریق ثانی کی طرف سے اسے کسی قسم کا خدشہ نہیں تھا۔ نواز شریف کا قرب رکھنے والا سابق بیوروکریٹ سعید مہدی سکندر سلطان کا سسر تھا لہذا اپوزیشن کی طرف سے اسے کسی قسم کا خوف نہیں تھا اور بالاآخر وہ چیف الیکشن کمشنر کے منصب پر فائز ہوگیا۔ ہما کسی کسی کے سرپر بیٹھتی ہے سلطان سکندر ویسے بھی مقدر کا سکندر تھا ملک کی قسمت ایسی بدلی دنیا حیرت میں گم ہو گئی۔ یہ تو بھلا ہو راولپنڈی کے اس وقت کے کمشنر کا جس کے ضمیر نے اسے جھنجھوڑا اور اس نے سب کچھ اگل دیا۔ ملک کے عوام انتخابی نتائج سن کر حریت کے سمندر میں ڈوب گئے۔ اب تو اعلیٰ عدلیہ سے آوازیں اٹھنے لگی ہیں جن تین ستونوں پر ملک کی اساس تھی وہ گر چکے ہیں۔ کبھی ہم نے نہیں سنا تھا آئی ایم ایف کا وفد عدالتی نظام دیکھے گا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے۔ دنیا کی نظریں ہم پر ہیں ملک کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس پر انگلی نہ اٹھتی ہو۔ ذہن میں بار بار یہ سوال آتا ہے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی پہلے کئی بار اقتدار میں رہ چکی تھیں دونوں جماعتوں کو اچانک اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی کمی پورا کرنے کا خیال کیسے آگیا؟۔ اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی کمی کو پورا کرنے کے لئے جو ناٹک رچایا گیا اس نے عدلیہ پر رہا سہا اعتماد متزلزل کر دیا۔ یہ بات درست ہے صدر مملکت کو ججوں کو آئین میں دیئے گئے اختیار کے تحت بدلنے کا اختیار حاصل ہے۔ معاملہ یہیں ختم نہیں ہوتا آخر آئین نے جو اختیار دیا ہے اس میں تبدیل ہو کر آنے والے جج کو اور بھی کچھ کرنا ہوتا ہے وہ کیونکر نہیں ہوا؟ ملک میں مارشل لاء بھی رہا جمہوریت کا بوریا بسترا جو اس مرتبہ گول ہوا اس نے سابقہ ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ ہم حکومت کو داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتے صرف ایک شخص کا راستہ روکنے کے لئے آئین کے ساتھ جو کھلواڑ کیا گیا ہے ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ صاحب اقتدار کو سرحدوں پر رونما ہونے والے واقعات کی فکر نہیں نہ سفارتی تعلقات پر نظر ثانی کی ضرورت سمجھی جا رہی ہے۔ بس مہنگائی کم ہونے کے دعویٰ مسلسل ہو رہے ہیں اللہ ہی جانے مہنگائی کہاں سے کم ہوئی ہے۔ حکومت کی ملک کی معاشی حالت بہتر بنانے کی بجائے تمام تر توجہ بانی پی ٹی آئی پر مرکوز ہے کہیں وہ باہر نہ آجائے اور ان کے لئے کوئی مسئلہ کھڑا نہ کر دے۔ عمران خان کے خط کا شورو غوغا ہے قانونی طور پر قیدی اپنے پاس کاغذ یا پنسل نہیں رکھ سکتا جب عمران خان کے پاس کاغذ اور پین نہیں تو وہ اندر سے کیسے خط لکھ سکتا ہے۔ ہاں ایک بات ضرور ہے وہ اپنے قابل اعتماد ملاقاتی کو ہدایات دے سکتا ہے وہ اس کی طرف سے جو باتیں وہ بتائے لکھ کر بھیج دے۔ الیکشن ہوئے ایک سال ہو چکا ہے انتخابی عذرداریوں کا معاملہ جو ں کا توں پڑا ہے بعض الیکشن ٹریبونل ایسے بنائے گئے ہیں جن کا ماضی میں ریکارڈ حوصلہ افزاء نہیں رہا۔ حکومت کو ملک کے معاشی حالات نہ عوام کی مشکلات کی فکر ہے ارکان اسمبلی
کے الائونسز میں اضافہ کرنا بہت ضروری سمجھا، حکومت، اپوزیشن ارکان اسمبلی ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ ہم بات کر رہے تھے چیف الیکشن کمشنر کی جو اپنی مدت پوری کرنے کے باوجود اپنے عہدے پر براجمان ہے۔ پھر وہ کیوں نہ ہو اتنا کچھ کرنے کے باوجود اس نے منصب چھوڑنے کی کوشش نہیں کی اس کے ساتھی ارکان کی مدت بھی پوری ہو چکی ہے پتہ نہیں وہ بدستور کام کر رہے ہیں یا عہدے چھوڑ چکے ہیں۔ نئے چیف الیکشن کمشنر پر اپوزیشن کی مشاورت کب ہو گی کسی کو علم نہیں جیسے حکومت نے جوڈیشل کمیشن قائم کر دیا ہے ایسے ہی اپوزیشن سے مشاورت کا قصہ تمام ہو جانے کا قوی امکان ہے۔ بس غور و فکر جاری ہے گتھی کو ایسے کھولا جائے کانوں کان خبر نہ ہونے پائے۔ وزیراعظم شہباز شریف نواز شریف کی نسبت سعید مہدی پر کم بھروسہ کرتے ہیں۔ شائد اسی لئے سعید مہدی کا بیٹا کہاں اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے کی سربراہی کے ساتھ چیف کمشنر بھی تھا۔ عمران خان بھی اس پر بڑا مہربان تھا۔ ان دنوں پر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا سیکرٹری ہے۔ نواز شریف وزیراعظم ہوتا تو عامر علی احمد کب کا بائیس گریڈ لے چکا ہوتا۔ سلطان سکندر واقعی اپنے محکمہ کا سلطان ثابت ہوا۔ وہ اپوزیشن جماعتوں اور عوام کی تنقید کی پروا کئے بغیر فرائض کی انجام دہی دے رہا ہے۔ پی ٹی آئی کا بانی دل ہی دل میں پچھتا رہا ہوگا ۔وہ بھی اس وقت بڑوں کے ساتھ ایک پیچ پر کھڑا تھا۔ یہ تو بعد میں چنگاری نے آگ پکڑی عمران خان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا اس سے ہو کیا گیا ہے۔ وقت کسی کا ساتھ نہیں دیتا، عمران خان قسمت کا دھنی ضرور ہے پر اسے لوگوں کی پہچان کم ہے۔ پاکستان کے عوام کو خان سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں اور ہیں البتہ اس نے غلط راستے کا انتخاب کرکے قید و بند کی صعوبتیں مول لے لیں۔ اسے اقتدار میں لانے والوں سے بڑی امیدیں تھیں، بالاآخر باغبان نے ہی آشیانے کو آگ لگا دی۔

جواب دیں

Back to top button