محسن نقوی کی تقلید

تحریر : ندیم اختر ندیم
رسول کریمؐ کی حدیث مبارکہ ہے کہ مزدور کی مزدوری اُس کے پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دو، یعنی اُس کا حقِ خدمت وقت پر ادا کر دیا جائے۔ ہمارے پاکیزہ دین اسلام میں نہ صرف مزدوروں بلکہ تمام انسانوں کے مقام مرتبہ کو احسن طریقے سے بیان کیا گیا ہے۔ اللہ کے نزدیک تمام انسان برابر ہیں بس تقویٰ و پرہیز گار اور علم والوں کو فضیلت ضرور بخشی گئی ہے۔ ہم نے اسلامی تعلیم سے روگردانی کی ہے ہم مزدور کو حقیر سمجھتے ہیں جس سے ہمارا معاشرتی نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا ہے، معاشروں کی ترقی میں ایسے ہی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے جہاں چھوٹے بڑے کی تفریق کو مٹا دیا جائے گزشتہ دنوں کرکٹ بورڈ کے چیئرمین محسن نقوی نے قذافی سٹیڈیم کی ریکارڈ مدت میں تکمیل پر ہزاروں مزدوروں کے اعزاز میں خصوصی ظہرانہ دیا۔ محسن نقوی نے ان کی نشستوں پر جا کر ملاقات کی اور ساتھ بیٹھ کر نہ صرف کھا نا کھایا بلکہ مزدوروں کا شکریہ بھی ادا کیا۔ ورکرز نے ان کے ساتھ سیلفیاں، تصویریں اور ٹک ٹاک بنوائیں۔ محسن نقوی نے انہیں پاکستان اور نیوزی لینڈ کا میچ دیکھنے کی دعوت بھی دی۔ ایک ورکر نے کہا میرے پاس موبائل نہیں ہے، جس پر چیئرمین نے نیا موبائل لیکر دینے کا وعدہ کر لیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ محسن نقوی ان مزدوروں کو انگلینڈ کی سیر بھی کرائیں۔
محسن نقوی نے مزدوروں کی توقیر کرکے اپنے قد کو بڑھایا ہے اور دنیا میں پاکستان کا ایک اچھا پیغام بھی گیا ایسے اقدامات ایسی حوصلہ افزائی سے محنت کی بھٹی میں جلنے والے مزدوروں میں نئی امنگ نئے ولولے پیدا ہونگے جن سے مزدوری کرتے ہوئے کسی کو کم مائیگی کا احساس نہ ہوگا بلکہ وہ فخر لگن اور شوق سے محنت کو شعار بنائے گا جرمنی کو یورپ کا انجن کہا جاتا ہے جرمنی میں جب مزدوروں کی کمی سے مسائل بڑھ گئے تو جرمنی جیسے ترقی یافتہ ملک کو اپنے قوانین بدلنا پڑ گئے تاکہ بیرون ملک سے مختلف شعبوں میں مہارت کے حامل افراد جرمنی میں جا کر نہ صرف اپنی معاشی راہوں کو ہموار کریں گے بلکہ جرمنی کو مسائل کے اس گرداب سے نکالیں کیونکہ جرمنی میں مزدوروں کی کمی ان کی معاشی ترقی کی راہ میں حائل ہوگئی تھی دنیا بھر میں مزدوروں کا استحصال کیا جاتا رہا ہے ہمارے اسلامی ممالک تو حقیقت میں انسانی حقوق کے سب سے بڑے علمبردار ہیں ہمارے عرب ممالک کو لیجئے جہاں نہ صرف اسلامی ممالک کے لوگ مزدوری کو جاتے ہیں بلکہ غیر مسلم بھی وہاں حصول رزق کی خاطر پہنچتے ہیں تو عرب ممالک میں تمام مذاہب کے مزدوروں کو یکساں احترام و تکریم سے نوازا جاتا ہے ہمارے اسلامی ممالک کے برعکس اگر ہم دنیا کے غیر مسلم ممالک کو دیکھیں تو مزدوروں کے استحصال اور ان کی حق تلفی میں انہوں نے پس و پیش نہیں کی مزدوروں کو جتنی اذیت غیر مسلم ممالک سے پہنچی اتنی اذیت انہیں شائد کسی موڑ پر پیش نہ آئی ہو اس لیے کہ ہمارے عرب ممالک اسلامی تعلیمات اور اقدار سے پوری طرح واقف ہیں جس سبب وہ مزدوروں کو ان کا حق محنت فوری ادا کرتے ہیں اور انہیں تعظیم دیتے ہیں یہی کردار معاشروں کو پختہ بناتا ہے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے انسانی تکریم کا جذبہ خدمت انسانیت کی رہنمائی اسلامی تعلیمات سے ہی حاصل کی ہیں وگرنہ غیر مسلم ممالک کی اخلاقی حالت یا ان کے کردار کو دیکھنا ہو تو آج امریکہ کو دیکھا جا سکتا ہے جہاں انسان کا وقار مجروح ہے دنیا نے دیکھا کہ ایک ظالم ملک اسرائیل نے کس طرح بے گناہ فلسطینیوں کو تہہ و بالا کیا اور دنیا کا ٹھیکیدار امریکہ کس طرح اس کی امداد کو پہنچا آج ایک امریکہ کا جنونی صدر دنیا کے ہر قانون کو رونتا ہوا انسانی خون کی پیاس میں تڑپ رہا ہے انسان کی عزت و وقار کو جانچنا ہو تو دین اسلام کی تعلیمات کا مطالعہ ضروری ہے ۔
ہم نے محسن نقوی کا یہ جذبہ دیکھا تو اس سے متاثر ہوئے۔ ہم تو ایک ہی محسن نقوی سے واقف تھے جو شہرہ آفاق شاعر تھا اس محسن نقوی نے ادب میں جتنا نام کمایا ہے ہمارے کرکٹ بورڈ کے چیئرمین جناب محسن نقوی خدمت کی سیاست میں اتنا نام پیدا ضرور کریں گے محسن نقوی کی محنت لگن اور جذبہ خدمت جذبہ حب الوطنی تعمیری شوق کو چاہتے اور سراہتے ہوئے ہم اس کالم پر آمادہ ہوئے محسن نقوی صاحب ایسے ہی تعمیری سوچ کی سیاسی شخصیت ہیں کہ جن کی رہنمائی میں ان کے شعبے ترقی کرتے آگے بڑھتے پھلتے بھولتے نظر آتے ہیں پاکستان کو ایسے ہی انسانی ہمدردی سے سرشار انسانی خیر خواہی کے جذبوں سے لبریز شخصیات کی ضرورت ہے جو اپنے مرتبے سے نیچے آ کر مزدوروں کی توقیر بڑھاتے ہیں ایسے لوگوں سے نہ صرف اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے بلکہ وہ انسانوں کے دلوں میں بھی اپنی محبت کا راستہ ہموار کرتے ہیں پاکستان کو ایسے ہی وزیروں اور ایسی ہی سیاسی شخصیات کی ضرورت ہے اسلئے دوسری شخصیات دوسرے وزیروں کو بھی محسن قوی کی تقلید کرنی چاہیے۔