Column

یوم محبت

تحریر : صفدر علی حیدری
دن منانے کی بدعت کو دور جدید کا منفرد فتنہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ روز کوئی نہ کوئی دن منایا جا رہا ہوتا ہے۔ ہمیں البتہ اس وقت پتہ چلتا ہے جب وہ دن گزر چکا ہوتا ہے، یا گزر رہا ہوتا ہے۔ سو ہم اس پر کچھ لکھ نہیں پاتے۔ کچھ دن مفید اور کچھ کچھ مضحکہ خیز بھی۔ جدت پسند اسے بدعت حسنہ سمجھتے ہیں۔ دن منانے کا چلن اس قدر عام ہو گیا ہے کہ اگر اس سلسلے کو نہ روکا گیا تو جلد سال کے دن بڑھانے پڑ جائیں گے ۔
منانے والوں کا بھی ایک موقف ہے۔ وہ بھی اپنی بات کا جواز رکھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے سے کچھ باتوں کو اجاگر ہونے کا موقع ملتا ۔ بعض اوقات کسی بیماری بعض اوقات کسی اہم مسئلے کے حوالے سے دن منایا جاتا ہے تاکہ لوگوں میں شعور و آگاہی بیدار ہو سکے۔
اس بدعت کے مخالفین کی بھی کوئی کمی نہیں۔ یہ قدامت پسند طبقہ ہر نئی چیز کو تنقیدی نظر سے دیکھتا ہے اور منفی سمجھتا ہے۔ ان کے پاس بھی اپنے موقف کے حق میں کئی دلیلیں موجود ہوتی ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ جن چیزوں کا دن منایا جاتا ہے اور اور معاشرے کے لیے اہم بھی ہیں ، ان کا کوئی مخصوص دن نہیں ہوتا۔ ان کی اہمیت ہر دن ہر وقت ہوا کرتی ہے
اب آتے ہیں ویلنٹائن ڈے کی تاریخی اہمیت کی طرف۔ ویلینٹائن ڈے اصلاً رومیوں کا تہوار ہے جس کی ابتدا تقریباً1700سال قبل ہوئی تھی۔ اہلِ روم میں 14فروری ’’ یونودیوی‘‘ کی وجہ سے مقدس مانا جاتا تھا جسے ’’ عورت اور شادی بیاہ کی دیوی ‘‘ سمجھا جاتا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ ویلنٹائن نامی ایک پادری نے خفیہ طریقے سے شادیوں کا اہتمام کیا۔ جب شہنشاہ کو اس بات کا علم ہوا تو اس نے ویلنٹائن کو قید کر دیا، آج اسی نسبت سے ویلنٹائن ڈے منایا جاتا ہے۔ ایک دوسری روایت کے مطابق ویلنٹائن ڈے کا آغاز رومن سینٹ ویلنٹائن کی مناسبت سے ہوا جسے ’’ محبت کا دیوتا‘‘ بھی کہتے ہیں۔ اسے مذہب تبدیل نہ کرنے کے جرم میں پہلے قید میں رکھا گیا، پھر سولی پر چڑھا دیا گیا، قید کے دوران ویلنٹائن کو جیلر کی بیٹی سے محبت ہو گئی ، سولی پر چڑھائے جانے سے پہلے اس نے جیلر کی بیٹی کے نام ایک الوداعی محبت نامہ چھوڑا جس پر دستخط سے پہلے لکھا تھا ’’ تمہارا ویلنٹائن‘‘۔ اسی کی یاد میں لوگوں  نے 14فروری کو یومِ تجدید ِمحبت منانا شروع کر دیا۔
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی آج ویلنٹائن ڈے اور ’’ یوم حیا‘‘ ایک ساتھ منائے جارہے ہیں۔ ایک طبقہ سرخ پھولوں کا تبادلہ کرے گا تو وہیں پر ملک میں ایک بڑا طبقہ ’’ یوم حیا ‘‘ کے عنوان سے حجاب، شرم و حیا اور اسلامی اقدار کو پروان چڑھانے کے لئے مختلف تقریبات منعقد کرے گا ویلنٹائن ڈے کیلئے نوجوان نسل کی تیاریاں عروج پر ہیں، محبت کے اظہار کے لیے تحائف، پھولوں ،کیک اور کارڈز کی خریداری زوروں پر ہے جبکہ سوشل میڈیا پر بھی اسی دن کے چرچے ہیں۔ ذیل میں ہم ویلنٹائن ڈے کے آغاز اور پاکستان میں اس دن کے یومِ حیا کے طور پر منائے جانے کے حوالے سے روشنی ڈالیں گے۔
مغرب میں مدتوں سے 14فروری کو ویلنٹائن ڈے منایا جاتا ہے لیکن گزشتہ کچھ سالوں کے دوران پاکستان میں بھی اس دن کی اہمیت دو چند ہوگئی ہے۔ بالخصوص سوشل میڈیا کے باعث اس مغربی تہوار سے مشرق کا ہر نوجوان واقف ہوچکا ہے۔ پاکستان میں جب ویلنٹائن ڈے کی روایت عروج پر پہنچی تو مذہبی رجحان رکھنے والوں نے اسے یوم حیا کے طور پر منانا شروع کر دیا ۔ اس روایت کو شروع کرنے کا سہرا اسلامی جمعیت طلبہ کے سر ہے، پاکستان میں پہلی مرتبہ ’’ یوم حیا‘‘ منانے کا فیصلہ 9فروری 2009ء کو پنجاب یونیورسٹی لاہور میں کیا گیا۔ ویلنٹائن کے مقابلے میں اس روز کو ’’ یوم حیا ‘‘ کا نام اسلامی جمعیت طلبہ جامعہ پنجاب کے ناظم قیصر شریف نے دیا، انہوں نے 9فروری کو اعلان کیا کہ پنجاب یونیورسٹی میں 14فروری 2009ء کو ویلنٹائن کی بجائے ’’ یوم حیا ‘‘ منایا جائے گا ۔ اگلے سال  جب قیصر شریف اسلامی جمعیت طلبہ پنجاب کے ناظم بنے تو انہوں نے ’’ یوم حیا ‘‘ کو 14فروری 2010ء کے روز پورے صوبے میں جوش و خروش سے منانے کا فیصلہ کیا اور پھر 2011ء میں پورے پاکستان میں ’’ یوم حیا‘‘ منایا گیا۔ اسی طرح کہا جا سکتا ہے کہ ’’ یوم حیا‘‘ کے بانی قیصر شریف ہیں۔
اپنے آپ کو لبرل، سیکولر اور آزاد خیال سمجھنے والے لوگ آج ’’ یوم محبت‘‘ منائیں گے تو مذہبی سوچ کے حامل افراد اسے ’’ یوم حیا‘‘ کے طور منائیں گے فیصلہ تو دل نے کرنا ہے کہ کس صف میں شامل ہونا ہے۔
ایک اور روایت کہتی ہے کہ ایک یہودی ملعون جس کا نام ’’ ویلینٹائن‘‘ تھا، نے شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکی کے بیچ زنا کو جائز قرار دیا تھا۔ اسی بات پر انگلینڈ کی گورنمنٹ نے اسے 14فروری کو پھانسی کی سزا دی تھی۔ اس دن کو انگلینڈ کی نئی نسل نے اسکی یاد میں منانا شروع کر دیا۔ افسوس صد افسوس کہ اب مسلمانوں نے بھی اس بے حیا اور بے شرم نسل کی طرح اس دن کو منانا شروع کر دیا ہے۔ یاد رکھیں، رسولؐ اللہ کی ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ، ’’ جو شخص جس قوم کی مشابہت کرے گا وہ انہی میں سے ہو گا‘‘ ( ابو دائود)۔
ایک اور جگہ پر اللہ پاک کا ارشاد ہے کہ ’’ بے حیائی کے جتنے بھی طریقے ہیں ان کے پاس بھی مت جائو، خواہ وہ اعلانیہ ہوں، خواہ پوش‘‘۔
محبت ایک ایسا لفظ ہے جو معاشرے میں بیشتر پڑھنے اور سننے کو ملتا ہے اسی طرح معاشرہ میں ہر فرد اس کا متلاشی نظر آتا ہے اگرچہ ہر متلاشی کی سوچ اور محبت کے پیمانے جدا جدا ہوتے ہیں جب ہم اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات چڑھتے سورج کے مانند واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام محبت اور اخوت کا دین ہے اسلام چاہتا ہے کہ تمام لوگ محبت، پیار اور اخوت کے ساتھ زندگی بسر کریں مگر قابل افسوس بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں محبت کو غلط رنگ دے کر محبت کے لفظ کو بدنام کر دیا گیا اور معاشرے میں محبت کی بہت ساری غلط صورتیں پید ہو چکی ہیں اس کی ایک مثال عالمی سطح پر ’’ ویلنٹائن ڈے ‘‘ کا منایا جانا ہے ہر سال14 فروری کو عالمی یومِ محبت کے طور پر’’ ویلنٹائن ڈے‘‘ کے نام سے منایا جانے والا یہ تہوار ہر سال پاکستان میں دیمک کی طرح پھیلتا چلا جارہا ہے ۔ اس د ن جو بھی جس کے ساتھ محبت کا دعوے دار ہے اسے گلدستہ پیش کرتا ہے۔
محبت کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ لوگ تو اس جہان کو پیار کا پھیلائو کہہ دیا کرتے ہیں۔
ایک شاعر کہتے ہیں
محبت جہاں ہے وہاں زندگی ہے
محبت نہ ہو تو کہاں زندگی ہے ؟
شاید اس شعر سے متاثر ہو کر کوئی انسان اس دنیا میں چلا آیا تھا مگر
مجھے بتایا گیا تھا یہاں محبت ہے
میں آ گیا ہوں دکھا کہاں محبت ہے
اب آپ میرا ایک افسانچہ دیکھیے
یوم محبت
ندیم خوشی خوشی اپنے پسندیدہ گانے کی دھن پر سیٹی بجاتا گھر کی جانب رواں دواں تھا۔ اسے آج چودہ فروری کے تاریخی دن، تاریخی کامیابی ملی تھی ۔ اس کا جی چاہتا تھا مجھ گلی گلی ناچتا پھروں۔۔۔۔ آج واقعی اس نے کے ٹو کی چوٹی سر کر لی تھی۔۔۔ پتھر میں جونک ڈال دی تھی۔۔۔۔ ایک سنگدل صنم کو موم کر ڈالا تھا۔ اس کا دیا ہوا سرخ پھول اس کی جیب میں تھا مگر اس کی خوشبو اب تک میرے مشام جاں کو معطر کر رہی تھی۔ اچانک وہ ٹھٹھک کر رک گیا۔ اس کے گھر کے دروازے پر ایک سایہ سا تھا جو اچانک غائب ہو گیا۔ شاید کوئی دروازہ پر موجود تھا۔ وہ تیزی سے آگے بڑھا۔ جب میں دروازہ پر پہنچا تو وہاں کوئی نہیں تھا۔ اس نے اپنا وہم سمجھ سر جھٹکا اور دروازہ کھول کر گھر میں داخل ہو گیا۔ اس کی ماں گھر پر نہیں تھی۔ وہ صحن میں بچھی چارپائی پر بیٹھ گیا۔’’ اماں ۔۔ اماں ۔۔۔ سحرش۔۔ سحرش ‘‘، بھائی اماں پڑوس میں گئی ہیں۔ کچھ چاہیے تھا آپ کو ’’ وہ اپنا ہاتھ پشت پر چھپاتے ہوئے بولی۔ ’’ اچھا ۔۔۔ اچھا ایسا کرو ایک کپ چائے کا بنا لائو ‘‘۔ اچھا بھیا، سحرش محبوب کا دیا سرخ پھول کتابوں کے پیچھے چھپاتی، سانسیں ہموار کرتی کچن کی جانب بڑھ گئی ۔

جواب دیں

Back to top button