دشمن ہمیشہ ناکام رہیں گے

سانحہ نائن الیون کے تحت دہشت گردی کے عفریت نے پاکستان میں بھی پنجے گاڑے۔ دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ میں اُس کے فرنٹ لائن اتحادی ہونے کی حیثیت سے پاکستان کو بڑے نقصانات بھگتنے پڑے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں پاکستان اور اُس کے عوام نے دیں، جہاں وطن عزیز میں بدامنی کو بڑھاوا ملا، وہیں معیشت کے لیے بھی دہشت گردی سوہانِ روح ثابت ہوئی۔ بدترین بدامنی کے باعث سرمایہ کار اپنا تمام تر سرمایہ سمیٹ کر دوسرے ملک جانے لگے۔ معیشت کو اتنے زیادہ نقصانات پہنچے کہ جن کی تلافی آج تک نہیں ہوسکی ہے۔ 80 ہزار بے گناہ شہری جاں بحق ہوئے، جن میں بہت بڑی تعداد میں شہید افسران اور جوان بھی شامل ہیں۔ انفرا اسٹرکچر کو نقصان پہنچا۔ اس کے ساتھ ہی دہشت گرد عناصر کی جانب سے لوگوں کے ذہنوں میں 2001ء سے ہی زہر گھولنے کے مذموم سلسلے کا آغاز کیا گیا، جو کسی نہ کسی صورت آج بھی جاری ہے۔ 2014ء میں سانحہ اے پی ایس پشاور کے بعد دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب اور ردُالفساد کے ذریعے کامیابی حاصل کی گئی اور پاکستان نے تن تنہا دہشت گردی کے جن کو بوتل میں بند کرنے میں سرخروئی سمیٹی۔ 7سال تک امن و امان کی صورت حال برقرار رہی۔ جب سے امریکا کا افغانستان سے انخلا ہوا ہے، پھر سے دہشت گردی کا فتنہ سر اُٹھارہا ہے۔ پچھلے تین سال سے جہاں فتنۃ الخوارج کے دہشت گردوں کی صورت پھر سے چیلنج درپیش ہے، وہیں ملک اور اداروں کے خلاف آج بھی عوام کے ذہنوں میں زہر بھرنے کے لیے ہر مذموم ہتھکنڈا و حربہ آزمایا جاتا ہے۔ پچھلے چند سال میں اس حوالے سے ایک سے زائد مثالیں سامنے آچکی ہیں۔ اس کے لیے سوشل میڈیا کا بھرپور سہارا لیا جاتا ہے۔ مقصد صرف لوگوں کو گمراہ کرنا اور اُن کے اندر ملک و اداروں کے خلاف خناس بھرنا ہوتا ہے۔ دشمن اور ان کے آلۂ کار اپنے مذموم مقاصد میں کسی طور کامیاب نہیں ہوسکتے کہ پاکستان کو دُنیا کی بہترین افواج کا ساتھ میسر ہے، جو محدود وسائل کے باوجود بہترین خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ فتنۃ الخوارج کے دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے سیکیورٹی فورسز مصروفِ عمل اور ان کے خاتمے کے لیے پُرعزم ہیں۔ فتنۃ الخوارج اپنی فرسودہ سوچ ملک پر مسلط کرنے کے لیے مذموم حربے آزما رہے ہیں۔ اسی حوالے سے گزشتہ روز آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اظہار خیال کیا ہے۔چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ پاکستانی عوام، بالخصوص نوجوانوں کا پاک فوج سے ایک انتہائی مضبوط رشتہ ہے، ملک دشمن عناصر کی فوج اور عوام کے درمیان خلیج ڈالنے کی کوشش ہمیشہ ناکام رہی ہے اور رہے گی، ان شاء اللہ، ہمیں اپنے مذہب، تہذیب اور روایات پر فخر ہے، آئی ایس پی آر کے مطابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر نے پاکستان بھر سے مختلف جامعات سے آنے والے اسٹوڈنٹس سے ملاقات اور بات چیت کی۔ انہوںنے کہا کہ پاکستان کے آئین کا آغاز بھی اِنَّ الحکم اِلَّاللّٰہ ( حاکمیت صرف اللہ کی ہے) سے ہوتا ہے، یہ فتنہ الخوارج کس شریعت اور دین کی بات کرتے ہیں؟، ہم کبھی بھی فتنہ الخوارج کو اپنی فرسودہ سوچ ملک پر مسلط نہیں کرنے دیں گے، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے غیور لوگ دہشت گردوں کے خلاف آہنی دیوار کی طرح کھڑے ہیں۔ آرمی چیف نے پاکستان بھر سے نوجوانوں کی نمائندگی کرنے والے یونیورسٹیز اور کالجز کے طلبہ سے خطاب میں طلبہ کو تعلیمی میدان میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کی۔ آرمی چیف نے طلبہ کو ایسی مہارتیں حاصل کرنے کی ترغیب دی جو انہیں ملکی ترقی میں مثبت کردار ادا کرنے کے قابل بنائیں۔ آرمی چیف نے خاص طور پر سرحد پار سے دہشت گردی کے خطرے پر بھی خیالات کا اظہار کیا۔ آرمی چیف نے نوجوانوں کی توانائی، تخلیقی صلاحیت اور اختراعی صلاحیتوں کی تعریف کی اور کہا کہ نوجوان ہی پاکستان کے مستقبل کے رہنما ہیں، پاکستان کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کے لیے جنرل عاصم منیر نے پاک فوج کے کردار کو اجاگر کیا۔ آرمی چیف نے دہشت گردی کے خلاف قومی جدوجہد میں پاکستانی عوام کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا اور مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ثابت قدمی اور تعاون کی تعریف کی۔آرمی چیف کا فرمانا بالکل بجا ہے۔ پاک افواج اور عوام کے درمیان انتہائی مضبوط رشتہ قائم ہے۔ دشمن اور اُن کے غلام چاہے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیں، وہ عوام کے دلوں سے پاک افواج سے محبت اور احترام کا رشتہ کبھی ختم نہیں کرسکتے۔ عوام پاک افواج کے شانہ بشانہ ہیں اور اُنہیں اپنی بہادر افواج پر فخر ہے، جو پچھلے 77سال سے دشمنوں کے تمام تر مذموم حربے و ہتھکنڈے، سازشیں ناکام بناتی چلی آرہی ہیں۔ عوام دہشت گردوں سے سخت نفرت کرتے ہیں اور پورے ملک کے عوام ان کے خلاف آہنی دیوار کی طرح کھڑے ہیں۔ پاکستان فتنۃ الخوارج کے دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے برسرپیکار ہے، ان شاء اللہ اس مقصد میں جلد کامیابی ملے گی۔
بجلی کی قیمت میں کمی
ملک میں بجلی خطے کے دیگر ممالک کی نسبت خاصی گراں ہے۔ بجلی کے ماہانہ بل غریب عوام کے لیے سوہانِ روح ثابت ہوتے ہیں۔ ان کی ادائیگی میں اُن کی آمدن کا بڑا حصّہ صَرف ہوجاتا ہے۔ ماضی اس حوالے سے خاصا مشکل رہا ہے جب دو دو کمروں کے گھروں کے مکینوں کو لاکھوں روپے ماہانہ بجلی کے بل موصول ہوئے۔ ایسی ڈھیروں نظیریں موجود ہیں۔ میاں شہباز شریف کی قیادت میں قائم ہونے والی حکومت بجلی قیمتوں کے زائد ہونے کا پوری طرح ادراک رکھتی ہے اور کافی عرصے سے بجلی قیمت میں معقول حد تک کمی یقینی بنانے کے لیی متواتر اقدامات کر رہی ہے۔ اس کی جانب سے جلد بجلی قیمتوں میں بڑی کمی کے عندیے بھی دئیے جارہے ہیں۔ موجودہ حکومت نے کئی آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے ختم کیے ہیں، جس سے قومی خزانے کو اربوں روپے کی بچت ہوگی اور مزید کے ساتھ معاہدے ختم کرنے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ ان شاء اللہ ان اقدامات کے طفیل بجلی قیمت مناسب سطح پر آسکے گی۔ عوام کے لیے خوشی کی بات یہ ہے کہ ماہانہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی 1روپیہ 23پیسے سستی کردی گئی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سرکاری ڈسکوز اور کے الیکٹرک صارفین کے لیے بجلی سستی کردی گئی۔ ملک بھر کے بجلی صارفین کے لیے اچھی خبر سامنے آئی ہے، ماہانہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی کی قیمتوں میں کمی کردی گئی ہے۔ اس حوالے سے نیپرا کی طرف سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق سرکاری تقسیم کار کمپنیوں کے صارفین کے لیے فی یونٹ 1روپیہ 22پیسے اور کے الیکٹرک صارفین کے لیے فی یونٹ قیمت میں 1روپیہ 23پیسے کمی کی گئی ہے۔ قیمتوں میں کمی ماہانہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کی گئی ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق سرکاری ڈسکوز کے صارفین کے لیے ماہِ دسمبر کے ایف سی اے کی مد میں کمی کی گئی جب کہ کے الیکٹرک صارفین کے لیے ماہِ نومبر کے ایف سی اے کی مد میں بجلی سستی کی گئی ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق ملک بھر کے صارفین پر قیمت میں کمی کا اطلاق فروری کے بلز پر ہوگا۔ بجلی قیمت میں کمی خوش آئند امر ہے۔ یقیناً اگلے وقتوں میں حکومتی اقدامات کی بدولت بجلی کی قیمت مناسب سطح پر آجائے گی۔ اس سے عوام کی حقیقی اشک شوئی ہوسکے گی۔ ضروری ہے کہ بجلی کی پیداوار کے مہنگے ذرائع سے بتدریج جان چھڑائی جائے اور بجلی کی پیداوار کے سستے ذرائع پر تمام تر توجہ مرکوز کی جائے۔ اس حوالے سے زیادہ سے زیادہ منصوبے لگائے جائیں۔ چھوٹے ہوں یا بڑے، آبی ذخائر تعمیر کیے جائیں۔ ڈیموں کی تعمیر سے ناصرف آبی قلت کا دیرینہ مسئلہ حل ہوسکے گا بلکہ ملکی ضروریات کے مطابق بجلی بھی اس سے وافر پیدا ہوسکے گی۔