Column

کیا طلبہ یونین سیاسی اخلاقیات بنا سکتی ہیں؟

تحریر : غلام العارفین راجہ
بین الاقوامی دنیا میں طلبہ یونین کو جمہوریت کی نرسریاں قرار دیا جاتا ہے۔ ان کا باقاعدگی کے ساتھ انتخاب ہوتا ہے۔ جس میں کالجز و جامعات کے طلباء و طالبات براہ راست الیکشن میں حصہ لیتے ہیں یا اپنا حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہیں۔ ووٹ دینے والے اور ووٹ حاصل کرنے والے دونوں اطراف طلبہ ہی ہوتے ہیں۔
طلبہ یونین اپنے اپنے تعلیمی اداروں میں طلبہ کی نمائندہ ہوتی ہیں۔ یونین کے تحت منتخب نمائندگان یونیورسٹی کی مرکزی سنڈیکیٹ میں بھی شامل ہوتے ہیں۔ تعلیمی ادارے کے اندرونی فیصلوں میں بھی ان کی رائے یا مشاورت کے بغیر کوئی آمرانہ فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ان نمائندگان کو طلبہ کے حقوق کا محافظ بھی کہا جاتا ہے۔
طلبہ یونین درحقیقت ایک تسلیم شدہ ادارہ ہے جس کو آئین تحفظ دیتا ہے۔ جبکہ اقوامِ متحدہ کا بنیادی انسانی حقوق کا چارٹر بھی طلبہ کے یونین سازی کے حق کو تسلیم کرتا ہے۔ عالمی دنیا میں اس کی پزیرائی بالکل واضح ہے۔
دنیا کے مختلف ممالک میں طلبہ یونینز تعلیمی اداروں میں مختلف ناموں کے ساتھ کام کر رہی ہیں جس میں طلبہ سینٹ، طلبہ یونین، طلبہ ایسوسی ایشن اور گورنمنٹ آف سٹوڈنٹ باڈی سمیت دیگر شامل ہیں۔ امریکہ میں طلبہ یونین کے سالانہ انتخابات سرکاری سطح پر منعقد ہوتے ہیں ان کا یہ خیال ہے کہ یونینز طلبہ کے تعلیمی ، قومی و علاقائی مسائل کا واحد حل ہیں۔
آسٹریلیا کی بڑی جامعات میں ہر شعبہ کی الگ الگ یونین موجود ہیں۔ سیاسیات، معاشیات، وکالت او ر میڈیا سمیت دیگر شعبہ جات میں طلباء یونینز زیادہ فعال ہیں۔ چین میں طلباء یونینز سٹوڈنٹس لیگ کے نام سے فعال ہیں۔ اسی طرح مصر، ہانگ کانگ، ملائیشیاء نیوزی لینڈ، فرانس، جرمنی، یونان، آئر لینڈ، یورپ میں بھی طلبہ تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ ان ریاستوں میں اہم عہدوں پر اکثریت انہی لوگوں کی ہے جو اپنے دورِ طلبہ علمی میں طلبہ یونین میں سرگرمِ عمل رہے ہیں جس کے ذریعے ان کی تربیت ہوئی ہے۔
پاکستان میں بھی طلبہ یونین ایک مدت تک بحال رہی ہیں۔ یہ یونین کالجز و یونیورسٹیوں میں کام کرتی رہی ہیں۔ البتہ ان یونین کو شروع دن سے ہی ہمیشہ متنازعہ کر کے عام فہم لوگوں کے سامنے پیش کیا جاتا رہا ہے کہ طلبہ یونین صرف جنگ و بغاوت کو دعوت دیتی ہیں۔ طلبہ آپس میں گتھم گتھا ہوتے نظر آتے ہیں۔ تعلیمی ادارے ہمیں تعلیم کی بجائے جنگی اکھاڑے محسوس ہوتے ہیں۔
لیکن ہم دیکھتے ہیں جب تک یونین بحال تھی تب تک ہمیں نئے ابھرتے ہوئے چہرے نظام حکومت میں نظر آتے رہے ہیں۔ لیکن جب سے طلبہ یونین پر پابندی عائد کی گئی ہے تو کہی موروثیت کے منڈلاتے بادل ہیں تو کہی سیاسی اخلاقیات کا فقدان ہے۔ آج ملکی نظام پر چند سو لوگوں کا مشترکہ اتحاد قابض نظر آتا ہے۔ حالانکہ یہ چند سو لوگ بظاہر آپس میں ایک دوسرے کو ناپسند کرتے ہیں اختلافات رکھتے ہیں مگر اپنے ذاتی وسیع تر مفادات کے لئے متحد ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں 9فروری 1984ء وہ دن تھا جب ملک میں جمہوری نرسریوں پر پابندی عائد کر دی گئی۔ مارشل لاء کے تحت طلبہ مزاحمت کے خوف سے یہ پابندی لگائی گئی کیونکہ اُس وقت ملک میں طلبہ ایک اہم ترین اسٹیک ہولڈر لے طور پہچانے جاتے تھے۔
وطن عزیز پاکستان کی آبادی کا نصف سے زائد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے جن میں اکثریت طلبہ کی ہے۔ لیکن ان کو بولنے اور ان کی آواز سننے کے لئے کسی بھی پلیٹ فارم پر شنوائی نہیں ہے۔ ان کو سیاسی میدان میں آنے کے لئے بھی مال و دولت اور بڑا سیاسی پس منظر ہونا ضروری ہے۔ ان کی قابلیت اور صلاحیت کو تولنے کے لئے کسی جگہ ترازو نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملکی سیاسی نظام مچھلی بازار کا منظر پیش کر رہا ہے۔
اس مچھلی بازار کو سب سے زیادہ خطرہ نوجوانوں سے ہے کیونکہ یہ لوگ جانتے ہیں جس دن نوجوانوں کو سیاسی و سماجی اخلاقیات سے آشنائی مل گئی وہی دن ہمارا آخری ہو گا۔ ہماری دوہری پالیسی پر کھڑی سیاست کو گرنے کے لئے بھی کوئی جگہ میسر نہیں آئے گی۔
یہی وجہ ہے کہ 9فروری 1984ء میں لگائی گئی 1988ء پابندی ختم کی گئی طلبہ یونین کے الیکشن کا انعقاد ہوا مگر پھر کبھی یونین بحال نہ ہو سکی۔ 2008ء میں پابندی کو ختم کرنے کا اعلان بھی ہوا مگر عمل درآمد نہ کرایا جا سکا۔
مختلف جماعتیں حکومت میں آنے سے قبل طلبہ یونین کی بحالی کے منشور کے ساتھ میدان میں اترتی رہی ہیں اور جب کامیاب ہو گئی تو پھر طلبہ یونین بحالی کا نعرہ صرف منشور کی حد تک کی رہ گیا اس کو بحال نہیں کیا جا سکا۔ اس دوران صوبائی اسمبلیوں و سینیٹ سے بل بھی پاس ہوتے رہے مگر یونین بحال نہیں ہو سکی نہ ہی انتخابات کا انعقاد ممکن ہو سکا۔
ماضی میں مختلف واقعات رونما ہوئے جن میں تعلیمی ادارے جنگ کا منظر پیش کرتے نظر آئے اس میں شروع دن سے سارا ملبہ طلبہ یونین پر ڈال دیا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ان واقعات میں بھی سیاسی جماعتوں کے طلبہ ونگ نظر آتے ہیں جو مذموم مقاصد کے حصول کے لئے نوجوانوں کو اپنا مرکزی کردار بناتے ہیں مگر ہم دیکھتے ہیں کہ طلبہ یونین پر پابندی کے بعد بھی یہ سلسلہ زور و شور سے جاری رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں ملک میں پیش آنے والے واقعات یہ چیز بالکل واضح کرتے ہیں کہ اب بھی سیاسی جماعتیں مسلسل طلبہ و نوجوانوں کو استعمال کرنا چاہتی ہیں۔
یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا طلبہ یونین بحال ہونے کے بعد سیاسی اخلاقیات بنا سکتی ہیں؟ یقیناً کسی حد تک طلبہ یونین سیاسی اخلاقیات بنانے میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں۔ تعلیمی ادارہ بنیادی طور پر طلبہ میں شعور و بیداری کا مرکز ہے۔ جس میں طلبہ برداشت و مخالف نظریات کو مدلل جواب دینے کی تربیت حاصل کرتے ہیں۔ جامعہ براہ راست ملکی نظام میں حصہ نہیں لے سکتی البتہ جامعہ کے اندر ہونے والی مختلف اصلاحی و فکری سرگرمیاں ہونے سے ایسے قابل لوگوں کو پیدا کرتی ہے جو ملکی نظام کو چلانے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ طلبہ یونین کی طلبہ نمائندگی کرتے ہیں اپنے اور دیگر ساتھی طلبہ کی آواز بنتے ہیں۔ اس طرح وہ عملی طور پر مختلف مشکلات و مسائل کا سامنا کرتے ہیں جس سے ان کی اخلاقی تربیت ہوتی ہے۔ جو آگے چل کر ملکی نظام کو چلانے میں ان کی مدد کرتی ہے۔
طلبہ یونین میں طلبہ اپنے ادارے میں موجود مسائل کی درستی کے لئے کردار ادا کرتے ہیں۔ تعلیمی نصاب کی بہتری کے لئے کام کرتے ہیں۔ اپنے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے کام کرتے ہیں۔ جس سے طلبہ میں برداشت و احساس ذمہ داری کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔ طلبہ کے درمیان مختلف مقابلوں کا انعقاد ہوتا ہے جس سے ان کی صلاحیتیوں میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔ طلبہ میں قیادت کرنے کے اوصاف پیدا ہوتے ہیں صحیح و غلط میں فرق کرنے کی تربیت ہوتی ہے۔ جو آگے چل کر ملکی سیاست میں کردار ادا کرنے کی صلاحیت ملتی ہے۔
البتہ طلبہ یونین بحالی کے لئے ایک مضبوط ضابطہ اخلاق کا ہونا بھی ضروری ہی تا کہ کوئی ان کو اقتدار کے حصول کے لئے استعمال نہ کر سکے۔ لسانی و صوبائی بنیادوں کی بجائے قومی بنیادوں پر طلبہ یونین انتخابات کا انعقاد وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ تربیت یافتہ قیادت مستقبل قریب میں ہمیں ملکی سیاست میں نظر آئے۔

جواب دیں

Back to top button