
تحریر : سی ایم رضوان
کسی بھی سماج میں اختلاف اور نزاع فطری بات ہے، ایسے معاملات کو حل کرنے کے لئے لوگ خاندان اور سماج کے تجربہ کار بزرگوں کی طرف رجوع کرتے ہیں اور متنازع معاملات میں ان کے فیصلہ کو مانتے ہیں، یہ اختلاف ذرا بڑا ہو، تو اکثر و بیشتر حضرات خاندان اور سماج کے بزرگوں کی بجائے حکومت کی عدالتوں میں جاتے ہیں، صرف اس لئے کہ عدالتیں اپنے فیصلہ کو نافذ کرانے کے لئے پولیس کی طاقت اور حکومت کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں۔ اسی طاقت اور صلاحیت کے لئے قانون اسلامی کی اصطلاح میں قوت نافذہ کا لفظ استعمال ہوتا ہے، یہ قوت نافذہ یا پولیس کی طاقت اور حکومت کی صلاحیت گو کہ فیصلے کا حصہ نہیں ہوتی لیکن فیصلہ کے نفاذ میں عدالت کی معاون اور اس کے تابع ہوتی ہے۔ فیصلہ کے صادر ہونے یا اس کا نفاذ ہونے سے پہلے فیصلے کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ قانون کے مطابق حق اور سچ کا اظہار عدالت نے کر دیا ہے اور کسی بھی معاملہ میں سچ کو جھوٹ سے الگ کر کے، دعویٰ اور دلیل کی مطابقت دیکھ کر، شہادتوں کا جائزہ لے کر فیصلہ کرنے والے جج نے اپنی آئینی اور بنیادی ذمہ داری پوری کر دی ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ فیصلہ کرنے والوں کی فطری صلاحیت، علمی لیاقت اور صحیح نتیجہ تک پہنچنے کی قوت یکساں نہیں ہوتی لیکن یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کسی بھی معاملے میں کسی بھی جج کی جانبداری یا پسند ناپسند کی کیفیت و حالت فیصلہ پر اثر انداز ہو اور اگر ایسا ہو تو یہ انصاف کا صریح قتل ہوتا ہے اسے کوئی اور نام دیا ہی نہیں جا سکتا۔ لیکن افسوس کہ وطن عزیز میں عمران پراجیکٹ کے نفاذ کے بعد آج تک جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے، فیصلہ کرنے والوں کی غیر جانبداری بھی مشتبہ ہوتی جا رہی ہے، حالانکہ یہ غیر جانبداری فیصلہ کرنے والے کے لئے بہت اہم ضرورت اور بڑی قیمتی صفت ہوتی ہے۔ اسلامی قانون کی زبان میں فیصلہ کرنے والے کے لئے ’’ عدالت‘‘ کی شرط بھی ہے، جس کے دائرہ میں غیر جانبداری بھی آتی ہے۔ حکومت کی عدالتوں میں فیصلہ کرنے والوں کے لئے بھی یہ شرط موجود ہے اور ججوں سے یہ امید بھی کی جاتی ہے کہ وہ وطن سے محبت اور قانون کے احترام کے جذبہ کے تحت غیر جانبدار رہیں گے اور ایسے فیصلے کریں گے، جو ان کی لیاقت، قابلیت اور شہادت کے لحاظ سے درست ہوں ان فیصلوں میں سچ کی حمایت اور حق کا اظہار ہو گا اور غیر جانبداری اور دیانتداری ہر حال میں برقرار رہے گی لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ کوئی بھی کیس خاص طور پر ملکی سیاست سے متعلقہ کسی بھی کیس کی سماعت پر کسی بھی جج کی تعیناتی کے بعد یہ پیش گوئی کر دینا آسان ترین ہو گیا ہے کہ فیصلہ کیا آئے گا۔ یہاں تک کہ سپریم کورٹ کے ججوں کی تعیناتی کے بعد ان کی گروپنگ کے باوصف یہ کھے عام کہا جا رہا ہے کہ سب سپریم کورٹ میں میں فلاں فلاں طاقت کا غلبہ ہو گیا ہے اب فلاں فلاں گروہ کی شامت آئے گی اور فلاں کی طاقت بڑھے گی۔ اسی نوعیت کے فیصلے گزشتہ روز چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں ہوئے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں ملک کی تمام ہائی کورٹس کی جانب سے بھیجے گئے ناموں پر غور کیا گیا۔ یاد رہے کہ حکومت نے سادہ بل کے ذریعے سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد کو 34تک کر دیا ہے اور آٹھ ججز کی تعیناتی کے بعد سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد 24ہو گئی ہے۔ ملک کی چاروں ہائی کورٹس سے پانچ پانچ سینئر ججز کے نام طلب کیے گئے جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے تین ججز کے نام جوڈیشل کونسل کو بھیجے گئے تھے۔ تاہم تعیناتیوں کے بعد وکلاء کا ایک گروہ اسی امر کو لے کر احتجاج کرنے آ گیا کہ اس طرح تو سپریم کورٹ میں ان کے حامی ججز کی تعداد کم ہو جائے گی اور حکومت کے حامی ججز زیادہ ہو جائیں گے۔ تاہم وکلا کی بڑی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے وکلا کا جو دھڑا اس احتجاج میں شامل نہیں تھا نے یہ الزام عائد کیا ہے کہ ان وکلا کے احتجاج کے پس پردہ موجودہ عدلیہ کی وہ شخصیات ہیں جن کی ان ججز کی تقرری اور ٹرانسفر سے سینیارٹی متاثر ہوئی ہے اس کے علاوہ ان وکلا کا ایک سیاسی ایجنڈا بھی ہے۔ وکلا کی سب سے بڑی تنظیموں پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے علاوہ سندھ بار کونسل اور خیبر پختونخوا بار کونسل نے بھی وکلا کے ایک دھڑے کی اس کال کو مسترد کر دیا ہے اور ان تنظیموں کا موقف ہے کہ صرف منتحب نمائندوں کے پاس ہی احتجاج کی کال دینے کا اختیار ہے۔ یاد رہے کہ جوڈیشل کونسل کے 27جنوری کو ہونے والے اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ سپریم کورٹ میں آٹھ ججز کی تعیناتی سے متعلق جوڈیشل کونسل کا اجلاس 11فروری کو بلایا جائے تاہم بعد ازاں اس میں ترمیم کر کے دس فروری کو اجلاس بلانے کا نیا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔ ادھر سپریم کورٹ میں آٹھ ججز کی تعیناتی کے معاملے پر سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ سمیت چار ججز نے چیف جسٹس پاکستان کو خط لکھا تھا جس میں یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ 26ویں ترمیم کیس کے فیصلے تک آٹھ ججز کی تعیناتی کے عمل کو موخر کیا جائے جبکہ دیگر ججز میں جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔ اس خط میں کہا گیا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کیس میں آئینی بینچ فل کورٹ کا کہہ سکتا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ نئے ججز آئے تو فل کورٹ کون سی ہو گی یہ ایک نیا تنازع بنے گا۔ خط لکھنے والے ججز کا موقف ہے کہ موجودہ حالات میں ججز لانے سے ’’ کورٹ پیکنگ‘‘ کا تاثر ملے گا۔ انہوں نے اپنے خطوط میں لکھا کہ ’ وہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ عدالت کو اس صورتحال میں کیوں ڈالا جا رہا ہے؟‘۔ سپریم کورٹ کے ان ججز کی طرف سے لکھے گئے خط میں یہ بھی سوال اٹھایا گیا ہے کہ کس کے ایجنڈے اور مفاد پر عدالت کو اس صورتحال سے دوچار کیا جا رہا ہے؟ خط میں یہ موقف بھی اختیار کیا گیا ہے کہ اگر موجودہ آئینی بینچ نے ہی 26ویں آئینی ترمیم سے متعلق درخواستوں کو سنا تو اس پر بھی پہلے ہی عوامی اعتماد متزلزل ہے اور عوام کو موجودہ حالات میں ’’ کورٹ پیکنگ‘‘ کا تاثر مل رہا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ کے علاوہ جسٹس منیب اختر بھی جوڈیشل کمیشن کے رکن ہیں۔ جوڈیشل کمیشن کے ایک اور رکن اور پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر علی ظفر نے بھی چیف جسٹس کو خط لکھتے ہوئے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کو موخر کرنے کی استدعا کی تھی۔ گزشتہ روز علی ظفر نے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو خط لکھ کر جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ خط میں کہا گیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کی سینیارٹی کا معاملہ حل ہونے تک اجلاس موخر کیا جائے کیونکہ ججز کی ٹرانسفر سے اسلام آباد ہائیکورٹ کی سینیارٹی لسٹ تبدیل ہو گئی ہے۔ اپنے خط میں انہوں نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ ان تعیناتیوں سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ جیسے سابق وزیر اعظم بانی پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی سزاں کے خلاف اپیلوں کی سماعت کے لئے صف بندی کی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ یکم فروری کو صدر مملکت آصف علی زرداری نے آئین کے آرٹیکل 200کی شق ( ون) کے تحت تین ججز کے تبادلے کیے تھے جن میں لاہور، سندھ اور بلوچستان ہائیکورٹ سے ایک، ایک جج کا تبادلہ کر کے انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں تعینات کیا گیا تھا۔ جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر کا لاہور ہائیکورٹ، جسٹس خادم حسین سومرو کا سندھ ہائیکورٹ اور جسٹس محمد آصف کا تبادلہ بلوچستان ہائیکورٹ سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں کیا گیا تھا جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں نئے ججز کے تبادلے پر بھی بعض ججز نے اپنے تحفظات ظاہر کیے تھے۔
چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کے ان چاروں ججز کے علاوہ بیرسٹر علی ظفر کے خط پر کوئی ردعمل نہیں دیا تھا تاہم بیرسٹر علی ظفر کا کہنا ہے کہ انہوں نے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں شریک ہو کر مگر کارروائی کا حصہ نہ بن کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔ بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسلام آباد ہائیکورٹ کے موجودہ چیف جسٹس عامر فاروق سپریم کورٹ میں بطور جج تعینات ہو جاتے ہیں تو پھر اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیف جسٹس کون ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس سرفراز ڈوگر کو لاہور ہائی کورٹ سے اسلام آباد ہائیکورٹ ٹرانسفر کیا گیا ہے اور نئے نوٹیفکیشن کے مطابق وہ اب سب سے سینئر جج ہیں جن پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے دیگر ججز نے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور سینیارٹی کے معاملے کو لے کر اسلام آباد ہائیکورٹ کے کچھ ججز نے چیف جسٹس کو خط بھی لکھا ہے۔ بدقسمتی ہے کہ وکلا کا ایک دھڑا اس احتجاج کو سپورٹ نہیں کر رہا ہے اور اس سے اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ جیسے بار اور بینچ کے درمیان خلیج مزید گہری ہوتی جا رہی ہے۔
بدقسمتی تو یہ بھی ہے کہ چند وکلا رہنما اپنی سیاسی دکان چمکانے کے لئے یہ احتجاج کر رہے ہیں حالانکہ وکلا کو تو آئین اور قانون کے ساتھ کھڑے ہونا چاہیے۔ اس حقیقت کی موجودگی میں کہ قانون سازی کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے اور پارلیمنٹ جو بھی قانون سازی کرے وکلا کو اس کے ساتھ کھڑے ہونا چاہیے۔ ہاں اگر پارلیمنٹ ایسی قانون سازی کرتی ہے جو بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہو تو پھر سپریم کورٹ کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ ایسے قانون کو کالعدم قرار دے لیکن اگر کسی سیاسی جماعت کو کوئی قانون پسند نہیں ہے تو اگلے انتخابات میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ اس قانون کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ کوئی بھی قانون مستقل نہیں ہوتا اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں بہتری لانے کے لئے ترامیم لائی جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر لاہور، بلوچستان اور سندھ ہائیکورٹ سے جن ججز کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں ٹرانسفر کیا گیا تو یہ تمام عمل قانون کے مطابق ہوا ہے۔ البتہ اپوزیشن کو چاہیے کہ اگر ان کے کسی بھی قانون سے متعلق کوئی تحفظات ہیں تو وہ یہ معاملہ پارلیمنٹ میں لے کر جاتے تو اس پر حکومت بھی بات کرنے پر مجبور ہوتی لیکن بات یہی ہے کہ ملک کی عدلیہ میں واضح گروپنگ موجود ہے اور عمران پراجیکٹ کے پروردہ عناصر اس گروہ بندی سے فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس کھیل میں ملک کے نظام انصاف کا ستیاناس ہو کر رہ گیا ہے۔
سی ایم رضوان