فلسطینیوں کی نقل مکانی شرقِ اوسط کے لیے خطرہ ہے: ایران

ایران کے اعلیٰ سفارت کار نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی فلسطینیوں کو جنگ زدہ غزہ کی پٹی سے نکالنے کی تجویز شرقِ اوسط میں استحکام اور سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔
ایران کے ایک بیان کے مطابق وزیرِ خارجہ عباس عراقچی نے اپنے مصری ہم منصب بدر عبدالعاطی کے ساتھ ہفتے کے روز فون پر بات کی، "غزہ سے فلسطینیوں کو زبردستی بے گھر کرنا ایک نوآبادیاتی انداز میں فلسطین کو ختم کرنے کی سکیم کا حصہ ہے۔”
ٹرمپ کی طرف سے امریکہ کے غزہ پر قبضہ کرنے اور اس کے باشندوں کو منتقل کرنے کی تجویز پہلی بار منگل کو وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ ملاقات کے دوران سامنے آئی جس کی بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی۔
عراقچی نے کہا، یہ منصوبہ خطے میں "استحکام اور سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہے”۔
امریکی صدر نے تجویز دی کہ غزہ کے باشندے مصر یا اردن میں دوبارہ آباد ہو سکتے ہیں۔ البتہ دونوں حکومتوں نے ایسے اقدام کو سختی سے مسترد کر دیا ہے۔
عراقچی کے مطابق "یہ ضروری ہے کہ اسلامی ممالک اس منصوبے کے خلاف مضبوط و متحد مؤقف اختیار کریں۔”
ایرانی وزارتِ خارجہ کے مطابق عراقچی نے ہفتے کے روز تیونس اور ترکی کے ہم منصبوں کے ساتھ غزہ کی صورتِ حال کے بارے میں گفتگو کی۔
یہ تبادلۂ خیال حماس کے عہدیداروں اور ایران کے قائدِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کے درمیان ہفتہ کے روز تہران میں ہونے والی ملاقات کے بعد ہوا۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان 19 جنوری کو جنگ بندی عمل میں آنے کے بعد یہ اس طرح کی پہلی میٹنگ تھی۔
حماس کے کٹر حامی ایران نے 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے فلسطینی مقصد کو اپنی خارجہ پالیسی کے سنگِ بنیاد کے طور پر اہمیت دی ہے۔ تہران اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا۔