ColumnRoshan Lal

سندھ کم ترقی یافتہ کیوں ہے؟

تحریر : روشن لعل
سندھ میں ترقی کی گنجائش کا ذکر کرتے ہوئے میڈیا کے لوگ اکثر یہ سوال اٹھاتے رہتے ہیں کہ وہاں پنجاب کے معیار کی ترقی کیوں نظر نہیں آتی۔ جن لوگوں کو پنجاب کے معاملات سندھ سے بہتر نظر آتے ہیں انہیں دونوں صوبوں کے فرق کو تاریخ کے تناظر میں دیکھنا چاہیے لیکن ایسا کرنے کی بجائے یہاں نسبتاً بہتر نظر آنے والے حالات کو فورا ً پنجاب کے حکمرانوں کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ پنجاب ترقی کی دوڑ میں ہو سکتا ہے ملک کے دیگر صوبوں سے آگے ہو مگر اس فرق کی پیمائش کرنے والوں کو یہ بھی دیکھ لینا چاہئے کہ سرفہرست نظر آنے والے پنجاب نے ریس کا آغاز کب اور کہاں سے کیا تھا۔ اس بات کو گورکھ ہل اسٹیشن کی مثال سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔
سطح سمندر سے 5688فٹ بلند ی پر واقع گورکھ ہل کو سندھ کا مری بھی کہا جاتا ہے۔ اس مقام پر آبشار ہے، قدیم غاریں ہیں ، جھیلیں موجود ہیں اور برفباری بھی ہوتی ہے۔ چند سال سے حکومت سندھ نے ہر ممکن کوشش کی کہ یہ مقام کم از کم کراچی اور سندھ کے دوسرے علاقوں کے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے اور وہ اسے سیاحت اور تفریح کے لیے دوسرے صوبوں میں موجود اس طرح کے مقامات کی نسبت ترجیح دیں مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ آج بھی کراچی اور اندرون سندھ کے لوگ کسی پہاڑی مقام کی سیر کے لیے گورکھ ہل نہیں بلکہ مری جاتے ہیں۔ اب ذرا اس بات پر غور کر لیا جائے کہ گورکھ ہل اسٹیشن کی ترقی کے لیے جو کام چند برس قبل شروع کیے گئے ان کا آغاز مری میں کب ہوا تھا۔ انگریزوں نے 1850ء میں مری میونسپل کمیٹی بنا دی تھی۔ اگلے پندرہ برسوں میں وہاں اس قدر ترقیاتی کام ہوئے کہ 1864 ء میں مری کو پنجاب کا گرمائی دارالحکومت بنا دیا گیا۔ پنجاب کا گرمائی دارالحکومت شملہ منتقل ہونے سے پہلے 1875ء تک مری کو یہ اعزاز حاصل رہا۔ اس کے بعد بھی انگریزوں کی توجہ کا خاص مرکز ہونے کی وجہ سے مری میں سیاحت کے فروغ کے لیے ترقیاتی کام ہوتے رہے۔ پنجاب کے حکمرانوں نے قیام پاکستان کے بعد بھی مری اور اس کے گرد و نواح کی ترقی کے لیے کام جاری رکھے ۔ اب یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ جو بنیادیں مری میں انگریز دور میں استوار ہو چکی تھیں کیا ان کے بغیر وہاں موجودہ معیار کی ترقی ممکن ہو سکتی تھی؟ ۔
انگریزوں نے 1859۔60ء میں پنجاب میں باقاعدہ نہری نظام کی بنیاد رکھی۔ 1875ء میں مادھو پور کے مقام پر پہلا ہیڈ ورکس تعمیر کیا گیا۔ اس بیراج میں استعمال ہونے والے مشینری کی تیاری کے لیے امرتسر میں ایک اریگیشن ورکشاپ قائم کی گئی۔ نہری نظام کے قیام سے جہاں زرعی پیداوار میں اضافہ ہوا وہاں اس پیداوار کی منڈیوں تک رسائی کے لیے سڑکوں کی تعمیر کا آغاز بھی ہوا۔ امرتسر اریگیشن ورکشاپ کے قیام سے یہاں مقامی لوگوں نے بھی چھوٹے پیمانے پر فیکٹریاں لگانا شروع کیں، یوں پنجاب میں مربوط ترقی کو فروغ حاصل ہوا۔ جب پنجاب میں یہ سب کچھ ہو رہا تھا اس وقت سندھ کا کوئی الگ وجود نہیں تھا بلکہ وہ بمبئی پریذیڈنسی کا حصہ تھا۔ سندھ 1847ء سے 1936ء تک بمبئی پریذیڈنسی کا حصہ رہا۔1930ء کی دہائی میں سندھ میں سکھر کے مقام پر پہلے بیراج کی تعمیر کا آغاز ہوا، اس وقت تک پنجاب میں 12کے قریب ہیڈ ورکس یا بیراج بنائے جا چکے تھے۔ سکھر بیراج کی تعمیر کے بعد اس نہری نظام کے لیے پانی ناکافی تھا جو اس بیراج کے ساتھ استوار کیا گیا تھا۔ اسی وجہ سے 1947ء سے پہلے کے متحدہ پنجاب اور موجودہ صوبہ سندھ کے درمیان پانی کی تقسیم مسئلہ پیدا ہوا جو ابھی تک حل نہیں ہوسکا۔
قائد اعظمؒ نے اپنے معروف 14نکات میں بمبئی سے سندھ کی علیحدگی کا مطالبہ کیا تھا۔ یہی مطالبہ سندھ کی بمبئی سے علیحدگی اور پاکستان میں شمولیت کی بنیاد بنا۔ سندھ اسمبلی میں جی ایم سید کی قیام پاکستان کے حق میں پیش کردہ قرارداد اسی وجہ سے منظور ہوئی کیونکہ قرارداد لاہور جسے بعد ازاں قرارداد پاکستان کہا گیا میں پاکستان کے قیام کے بعد بھی صوبوں کی خود مختاری کا واضح ذکر موجود تھا۔ پاکستان کے قیام کے فوری بعد قائد اعظمؒ کی وفات سے بہت کچھ تبدیل ہو گیا۔ جو سندھ صوبائی خود مختاری کے وعدوں پر بمبئی سے علیحدہ ہوا تھا اسے 1955ء میں ون یونٹ کے نام پر صوبہ مغربی پاکستان میں ضم کر دیا گیا۔ ون یونٹ کے قیام کے بعد وفاقی دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل کر دیا گیا۔ اس طرح کراچی نہ صوبہ سندھ اور نہ ہی وفاق کا دارالخلافہ رہا۔ لاہور کو مغربی پاکستان کا دارالخلافہ بنائے جانے کے بعد سندھ حکومت کا 320ملین روپے پر مشتمل خزانہ اور خیر پور ریاست کے خزانے کا ایک تہائی حصہ بھی یہاں منتقل ہو گیا۔ لاہور صرف مغربی پاکستان کا دارالخلافہ ہی نہیں بنا بلکہ ون یونٹ کی تمام تر ترقی بھی سمٹ کر اس کے گرد و نواح تک محدود ہو گئی۔ اس ترقی کا پنجاب کو یہ فائدہ ہوا کہ ون یونٹ کے خاتمے کے بعد صوبہ مغربی پاکستان کے نام پر لاہور کے گردو نواح میں ہونے والی ڈیویلپمنٹ اس کا ورثہ بن گئی۔ مثلاً ون یونٹ کے سرکاری ملازمین کے لیے پورے مغربی پاکستان کے وسائل صرف کرتے ہوئے لاہور میں وحدت کالونی بنائی گئی ۔ ون یونٹ کے خاتمے کے بعد وحدت کالونی پنجاب حکومت کی ملکیت بن گئی ۔ پورے مغربی پاکستان میں سرکاری سکولوں کا جال بچھانے کے پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر وحدت کالونی میں لڑکیوں اور لڑکوں کے لیے پائلٹ سکول بنائے گئے۔ یہ منصوبہ دیگر علاقوں تک تو نہ پھیلایا جاسکا مگر مغربی پاکستان کے وسائل کے تصرف سے بننے والے یہ سکول ون یونٹ کے خاتمے کے بعد پنجاب کے محکمہ تعلیم کے زیر انتظام آگئے۔ اے جی آفس، الفلاح بلڈنگ اور واپڈا ہائوس جیسی عمارتیں لاہور میں مغربی پاکستان کا دارالخلافہ ہونے کی وجہ سے ہی بنائی گئیں۔ ون یونٹ کے دور میں جرمنی کے تعاون سے فنی تعلیم کا ادارہ پاک جرمن ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کسی دوسری جگہ نہیں بلکہ لاہور میں ہی بنایا گیا۔ اگر کوئی ادارہ لاہور میں نہ بنایا جاسکا تو اس کی تعمیر کے لیے بھی لاہور کے گردونواح کو ترجیح دی گئی۔ گجرات میں اس دور میں بنایا گیا پاک سویڈش کالج اور گوجرانوالہ میں قائم کیا گیا لیدر انسٹیٹیوٹ اسی پالیسی کی مثالیں ہیں۔ ان چند مثالوں سے یہ بات واضح ہو جانی چاہئے کہ سندھ پنجاب کی نسبت کم ترقی یافتہ کیوں نظر آتا ہے۔ سندھ کے مقابلے میں پنجاب کو ترقی کے یقیناً زیادہ مواقع ملے جس کا وہاں کسی نہ کسی حد تک فائدہ بھی اٹھایا گیا۔ سندھ کے حکمرانوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اس طرح کی مثالوں کے حقیقت ہونے کے باوجود نہ تو ان کے ناقد اور نہ ہی صوبے کے عوام متاثر ہوتے ہیں۔ یہ بات اہم نہیں کہ انہوں نے دوڑ میں کس مقام سے حصہ لیا بلکہ اہم یہ ہے کہ عوام انہیں ہر حال میں سرفہرست دیکھنا چاہتے ہے۔ اگر ایسا نہ ہو سکا تو ہو سکتا ہے کہ انہیں دوڑ سے ہی باہر کر دیا جائے۔

جواب دیں

Back to top button