سڑکیں ٹریفک کیلئے ہیں، تجاوزات کیلئے نہیں

تحریر : فیاض ملک
بدامنی اور افراتفری ہمارے معاشرے میں ناسور کی طرح پھیل چکی ہے۔ جس کی کئی وجوہات ہیں، ایک بڑی وجہ جس کو ہمیشہ حکام کی بے حسی اور بڑے لوگوں کی پشت پناہی سے نظر انداز کیا گیا، وہ ناجائز تجاوزات اور غلط پارکنگ ہے۔ جی ہاں، مین شاہراہوں، چوک چوراہوں، بازاروں پر قائم غیر قانونی پارکنگ، بے ہنگم ٹریفک، تجاوزات کی وجہ سے ہونے والے ٹریفک جام میں گاڑیوں کے ہارنوں کی پوں، پاہ، ٹیں، ٹاہ کی آوازیں سن سن کر شہری ذہنی مریض بن کر رہ گئے ہیں، شاید کوئی دن ایسا ہو کہ جب شہریوں کو ٹریفک جام کے عذاب سے دوچار نہ ہونا پڑا ہو، آج بھی وی وی آئی پی موومنٹ کے نام پر بلا سوچے سمجھے اہم ترین شاہراہوں پر ٹریفک روک دیا جاتا ہے، جو وی آئی پی قافلے کے گزر جانے کے بعد شہریوں کیلئے عذاب کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ ر ہی سہی کسر مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں ، سرکاری و نیم سرکاری اداروں کی یونین کی جانب سے کئے جانے والے احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں نے نکال رکھی ہیں، جس کا دل چاہتا ہے وہ 100سے200 کے قریب لوگوں کو اکٹھا کرکے اپنے حقوق کے نام پر کسی بھی شاہراہ پر احتجاج کرتے ہوئے ٹریفک نظام کو درہم برہم کرکے رکھ دیتا ہیں، اس طرح شہر میں ٹریفک جام کی ایک بنیادی وجہ سڑکوں پر تجاوزات ہونا اور غیر قانونی پارکنگ سٹینڈ ہیں جب مرکزی شاہرائوں پر بلندبالا عمارتیں اور کمرشل پلازے نہیں تھے تو سڑکیں چوڑی تھیں، مگر ان پلازوں کے باعث اب سڑکیں انتہائی تنگ ہوگئی ہیں، شہر کی بیشتر سڑکوں پر 60فیصد حصہ تجاوزات اور غلط پارکنگ کی وجہ سے ٹریفک
کیلئے استعمال ہی نہیں کیا جاتا، جس کے باعث اکثر ٹریفک کے بہائو میں تعطل آجاتا ہے، اگر شہر لاہور کی شہر کی مین سڑکوں کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ داتا دربار سے شاہ عالم چوک تک سرکلر روڈ کی چوڑائی تقریبا 40فٹ کے قریب ہے، جس میں20فٹ سے زیادہ کی سڑک پر تجاوزات، 10فٹ پر رانگ پارکنگ مافیا نے قبضہ جما رکھا ہے، جبکہ بقیہ10فٹ کے قریب بچنے والی سڑک ٹریفک کا بوجھ اٹھانے کیلئے انتہائی ناکافی ہے، اسی طرح سرکلر روڈ سے رنگ محل اور میو ہسپتال کی جانب سے آنے والی سڑک پر بانس کی سیڑھیاں اور لوہے کی الماریاں بنانے والے قابض ہیں، سرکلر روڈ پر ٹریفک کے بہائو میں رکاوٹ کے بڑے اسباب اردو بازار چوک، نیا بازار چوک، بیرون لوہاری گیٹ، بیرون انار کلی بازار، مچھلی منڈی اور بھاٹی چوک میں واقع رانگ پارکنگ سٹینڈ اور تجاوزات کے اڈے ہیں، کربلا گامے شاہ سے داتا دربار، پیر مکی اور مینار پاکستان جانے والی سڑک اور شاہدرہ کی ونڈالہ روڈ اور بیگم کوٹ چوک کی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہیں ، اسی طرح برانڈرتھ روڈ ،منٹگمری روڈ ، لاہور ہوٹل چوک، کوئنز روڈ، دہلی گیٹ، لنڈا بازار، انار کلی بازار، اچھرہ بازار، لاری اڈا آٹو مارکیٹ، مصری شاہ، مغل پورہ لنک روڈ پر تجاوزات اور رانگ پارکنگ کی وجہ سے گاڑی اور موٹر سائیکل تو دور کی بات ٹھہری، وہاں سے تو پیدل گزرنا بھی انتہائی دشوار ہے، شہر کی ان سڑکوں کے بڑے حصے پر ٹائون انتظامیہ اور سیاسی آشیر باد کی وجہ سے پھٹے اور ریڑھی والے قابض ہیں، جبکہ رہی سہی کسر ویگن اور موٹر سائیکل رکشہ کی رانگ پارکنگ نے پوری کردی ہیں، یہ صرف چند ایک سڑکوں کا ذکر کیا گیا ہے، اگر اس کی پوری تفصیل کی طرف جائیں تو لاہور کے اطراف سے وسط شہر تک جس بھی شاہراہ سے گزریں گے آپ کو اپنے دونوں اطراف بے تحاشہ ناجائز تجاوزات نظر آئیں گی، فٹ پاتھ پر ابتدا سے انتہا تک ریڑھی والوں، خوانچہ فروشوں کے جتھے فٹ پاتھوں پر سڑکوں پر قبضہ جمائے نظر آئیں گے، فٹ پاتھ پر تو دکانداروں کا سامان ہوتا ہے جو کہ دکان خالی کر کے باہر رکھ دیا جاتا ہے، اب رہی بات راہ گیروں کی تو وہ بے چارے فٹ پاتھ کے بجائے سڑک پر چلنے پر مجبور ہیں، تو پھر سوچنے کی بات یہ ہے کہ ٹریفک کہاں پر رواں دواں ہوگا۔ لازمی بات ہے کہ ٹریفک رک جائے گا اور پھر افراتفری کا عالم بپا ہو جائے، شورو غوغا ہوگا اور ٹریفک جام ہو گا، بلاشبہ ٹریفک کو رواں دواں رکھنے کیلئے سڑک اور فٹ پاتھ تجاوزات سے پاک ہونی چاہئے، کیونکہ ٹریفک سسٹم ہی کسی ملک کی ترقی کا منہ بولتا ثبوت ہوتا ہے، اور بدترین ٹریفک کسی ملک بدحالی کا ثبوت، ہمارے ہاں دنیا کے بہترین ٹریفک قوانین
موجود ہیں، جن میں قابل ذکر پولیس ٹریفک مینجمنٹ سسٹم، ریڈ لائٹ مونیٹرنگ سسٹم ، اس کے علاوہ ریڈ وائلیشن سسٹم، ٹریفک سگنل کیخلاف ورزی زیبرا کراسنگ کی خلاف ورزی جیسے بہترین قوانین ہیں، جنہیں ہر علاقے میں یکساں طور پر نافذ کرا کر ٹریفک کے مسائل پر پایا جا سکتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ دسمبر2017ء کچھ عرصہ قبل شہر میں ٹریفک نظام کو روانی سے چلانے کیلئے ترک ماہرین کی ایک ٹیم کو بھی مشاورت کیلئے بلایا گیا تھا، جنہوں نے لاہور ٹریفک پولیس اور اس وقت کی ضلعی انتظامیہ کے افسران کے ساتھ ملکر شہر کی54چھوٹی اور بڑی سڑکوں کا سروے کیا تھا اور 80فٹ سے لیکر14فٹ تک کی سڑکوں کی پیمائش کو دیکھتے ہوئے دنگ رہ گئے تھے، ان کا کہنا تھا کہ اتنی چوڑی سڑکیں تو ترکی میں کیا پورے یورپ میں کہیں نہیں، انہوں نے بھی سڑکوں پر ٹریفک جام رہنے کا سبب تجاوزات اور رانگ پارکنگ کو قرار دیا تھا، ترک ماہرین کا کہنا تھا کہ اگر تجاوزات اور رانگ پارکنگ کو ختم کر دیا جائے تو ان سڑکوں پر کبھی بھی ٹریفک جام نہیں ہوگا۔ سڑکوں پر ٹریفک کی روانی کو برقرار رکھنے کیلئے ترک ماہرین کا مشورہ اپنی جگہ، مگر اس کیلئے تجاوزات اور غیر قانونی پارکنگ سٹینڈز کی مد میں ہر دن ، ہر ہفتے اور ہر ماہ آنیوالی کروڑوں روپے کی منتھلی کی قربانی کون دیگا، یہی وجہ ہے کہ تجاوزات اور رانگ پارکنگ کے عفریت نے سیاسی آشیر باد کے ساتھ کرپٹ افسران کی مدد سے پورے لاہور میں اپنے پنجے گاڑ لئے ہیں، صوبائی دارالحکومت میں انتظامی عہدوں پر تعینات ہر آفیسر اپنی پوسٹنگ کے آغاز میں تجاوزات اور غیر قانونی پارکنگ سٹینڈز کو ختم کرنے کے دعوے کرتا ہے، پھر کچھ ہلکا پھلکا سا آپریشن شروع کیا جاتا ہے، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر اس کی تشہیر کرائی جاتی ہیں اور اس کے بعد پراسرار خاموشی کے ساتھ تجاوزات اور غیر قانونی پارکنگ سٹینڈ واپس اپنی جگہوں پر آجاتے ہیں۔ بہرحال اب ایک بار پھر لاہور کے ٹریفک کی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے جارہے ہیں، اس بار حال ہی میں سی ٹی او کے عہدے پر تعینات ہونیوالے ڈاکٹر اطہر وحید نے شہر کی سڑکوں سے تجاوزات اور غلط پارکنگ کو ختم کرنے اور ٹریفک کی روانی کو برقرار رکھنے کا بیڑا اٹھایا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ٹریفک کی روانی کیلئے تین مرحلوں میں اقدامات شروع کئے ہیں، جس میں پہلے مرحلے میں آگاہی اور وارننگ کے باوجود تجاوزات قائم کرکے ٹریفک کے بہائو میں خلل ڈالنے والوں کے کیخلاف مقدمات درج کرنا شروع کر دئیے ہیں۔
روزانہ کی بنیاد پرشہر کی سڑکوں سے ٹائون انتظامیہ کے ساتھ تجاوزات اور غلط پارکنگ کو ختم کرنے کیلئے زیرو ٹالرنس پالیسی کے تحت مشترکہ آپریشن شروع کر دئیے گئے ہیں، جس کے خاطر خواہ نتائج بھی سامنے آنا شروع ہوگئے، چیف ٹریفک آفیسر نے واضح کیا کہ شہر کی گزرگاہوں کو کشادہ رکھنے اور شہریوں کو سہولت فراہم کرنے کیلئے یہ کارروائیاں جاری رہیں گی، تجاوزات کے خاتمے کیلئے عوام کی ذمہ داری بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی اداروں کی، کیونکہ شہر کی سڑکیں ٹریفک کیلئے ہیں، تجاوزات، دھرنوں اور احتجاجی ریلیوں کیلئے نہیں۔ دوسرے مرحلے میں، فیروز پور روڈ پر ایک نئی ’’ ڈائمنڈ لین‘‘ بنائی جارہی ہیں جو خاص طور پر رکشہ اور موٹر سائیکل سواروں کیلئے مخصوص ہوگی۔ تیسرے مرحلے میں، شہر بھر کے 81اہم پوائنٹس پر روڈ انجینئرنگ کو بہتر بنایا جائے گا اور ٹریفک کی روانی میں مشکلات کو کم کرنے کیلئے متعدد سڑکوں کو سگنل فری کیا جائے گا، سڑکوں پر پیچ ورک اور دیگر ضروری کام کروا کر ٹریفک کی روانی کو یقینی بنایا جائے گا۔ شہر کے تمام چوکنگ پوائنٹس کی سیف سٹی کیمروں سے سرویلنس کی جارہی ہے، ٹریفک کے بہائو میں خلل ڈالنے والوں سے اب سختی سے نمٹا جائے گا، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر ٹریفک پولیس سڑکوں پر سے تجاوزات اور رانگ پارکنگ کو ختم کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو ان کے یہ اقدامات شہریوں کی سہولت اور شہر کی ترقی کیلئے اہم سنگ میل ثابت ہوں گے، لیکن دیکھنا یہ بھی ہے کہ سی ٹی او لاہور کی سڑکوں پر سے تجاوزات اور غیر قانونی پارکنگ سٹینڈ ختم کرا کر ٹریفک کی روانی کو برقرار رکھ پائیں گے یا پھر ماضی کے طرح ہلکے پھلکے آپریشن کے بعد چپ سادھ لیں گے، اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا۔