Column

سرکاری سکول: مسائل، اسباب اور حل

تحریر : حافظ محمد قاسم مغیرہ
کسی زمانے میں سرکاری سکول میں تعلیمی معیار بلند ہوتا تھا۔ یہاں پڑھنے والے بچے ڈاکٹر، انجینئر اور بیوروکریٹ بنتے تھے۔ ریاستی عدم دل چسپی، پالیسیوں میں تسلسل کے فقدان، بھرتیوں میں سرکاری مداخلت اور تعلیم کو اولین ترجیح نہ دئیے جانے پر آہستہ آہستہ سرکاری سکول تنزلی کا شکار ہوتے گئے اور نجی سکولوں کا جال ملک بھر میں پھیل گیا۔ سرکاری سکولوں کے برعکس، یہ سکول ایک بزنس ماڈل کے طور پر چلائے جارہے ہیں۔ اس بزنس ماڈل کا تقاضا ہے کہ نتائج اچھے آئیں۔ اچھے نتائج عوام کے اعتماد میں اضافے کا باعث بنتے ہیں اور متوسط اور امیر گھرانوں کے بچے ان اداروں کا رخ کرتے ہیں۔ بھاری بھرکم فیسیں وصول کرنے کی وجہ سے یہاں سہولیات بہتر ہوتی ہیں۔ زیادہ فیسیں دینے کی وجہ سے یہاں پڑھنے والے بچوں کے والدین میں قدر اور ذمہ داری کا احساس پایا جاتا ہے۔ اس طرح محنتی بچوں، والدین اور سخت گیر سکول انتظامیہ کی وجہ سے محنت اور لگن کا ماحول بنتا ہے جو شان دار تعلیمی نتائج کا باعث بنتا ہے۔ چوں کہ یہ ادارے ایک بزنس ماڈل کے طور پر کام کرتے ہیں، اس لیے یہ ناقص تعلیمی نتائج کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ سکول کے امتحانات کے دوران ہی یہ ایسی جمع تفریق کرکے رکھتے ہیں کہ صرف انہی بچوں کا داخلہ بھیجا جائے جن کے فیل ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔
اس کے برعکس سرکاری سکولوں میں صورتحال حوصلہ افزاء نہیں ہے۔ سرکاری سکولوں کی تنزلی کے بڑے اسباب میں سے ایک اہم سبب باہم متضاد اہداف کا تعین ہے۔ داخلہ مہم بڑے زور شور سے چلائی جاتی ہے۔ داخلہ کرتے وقت صرف گنتی پوری کی جاتی ہے۔ طالب علم کی ذہنی استعداد ، دل چسپی اور پس منظر کو یک سر نظر انداز کرتے ہوئے بغیر کسی داخلہ ٹیسٹ کے ، کلاس میں بٹھا لیا جاتا ہے۔ ہر جونیئر اپنے سنیئر کو ’’ سب اچھا‘‘ کی رپورٹ بھیج کر اگلی داخلہ مہم تک خاموشی سادھ لیتا ہے۔ محض گنتی پوری کرنے سے کاغذات کی حد تک تو بڑی تبدیلی آچکی ہوتی ہے لیکن مسابقت کا ماحول نہیں بنتا۔ نتیجتاً معیار تعلیم پست ہوتا ہے اور ناقص نتائج سامنے آتے ہیں۔
سرکاری سکولوں کی تنزلی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ عموماً پرائمری اور ایلیمنٹری کلاسوں میں خاطر خواہ محنت نہیں کرائی جاتی اور فیل ہونے والے طلباء کو بھی اگلی جماعتوں میں ترقی دے دی جاتی ہے۔ اس طرح ترقی پانے والے طلباء ہائی کلاسوں میں پہنچ کر محنت سے جی چراتے ہیں اور دو مسائل کا باعث بنتے ہیں۔
یہ طلباء محنت کے عادی نہ ہونے کے سبب یا تو نہم جماعت میں سکول چھوڑ دیتے ہیں یا نہم کے امتحان میں فیل ہوکر تعلیم کو خیر باد کہہ دیتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں سرکاری سکولوں پر عدم اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے۔
سرکاری سکولوں کی تباہی کا ایک بڑا سبب سکول کی سطح پر فیصلہ سازی کا فقدان ہے۔ سکولوں میں امتحانات کے انعقاد کے سلسلے میں اوپر سے آنے والے حکم کا انتظار کیا جاتا ہے۔
اساتذہ کو غیر ضروری سرگرمیوں میں الجھائے رکھنا بھی تعلیمی زوال کا ایک اہم سبب ہے۔ ان غیر تعمیری سرگرمیوں میں سر فہرست ڈینگی ایکٹیویٹی ہے۔ اسے ضرورت سے زیادہ اہمیت دینا وقت اور توانائی کے ضیاع کا باعث ہے۔ ایک روز ایک ہیڈ ماسٹر سے ملاقات ہوئی۔ گفت گو انتہائی متاثر کن، ہمہ وقت سرگرم اور چوکس، نظم و ضبط کے سختی پابند۔ کچھ دن بعد ان کے سکول میں جانے کا اتفاق ہوا۔ سکول میں قدم رکھتے ہی اندازہ ہوا کہ یہاں نظم و ضبط پر بہت محنت کی گئی ہے۔ کچھ روز بعد مجھے معلوم ہوا کہ محکمے کی طرف سے انہیں اظہارِ وجوہ کا نوٹس جاری کیا گیا ہے۔ نوٹس کسی بدعنوانی کی وجہ سے نہیں بل کہ ڈینگی ایکٹیویٹی میں سستی برتنے پر جاری کیا گیا تھا۔ یعنی ڈینگی ایکٹیویٹی اتنی اہم شے ہے کہ کسی شخص کی محنت کی روش اور نظم و ضبط کی خو۔ سب ثانوی اہمیت کی حامل ہیں۔
غیر ضروری خط کتابت سرکاری سکولوں میں تعلیمی سرگرمیوں سے توجہ ہٹانے کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔ دفتری امور کی بے جا پیچیدگیوں کے سبب تعلیمی امور ثانوی اہمیت اختیار کر جاتے ہیں۔ تمام اساتذہ کا ڈیٹا آن لائن موجود ہے ، ہر قسم کی معلومات وہاں سے حاصل کی جاسکتی ہیں لیکن تمام دستاویزات کی ہارڈ کاپی دیکھے بغیر گویا نظام ریاست رک جاتا ہے۔
انتہائی کم فیس ( صرف بیس روپے) سے جنم لینے والا احساس ناقدری بھی سرکاری سکولوں کو تباہ کر رہا ہے۔
ان مسائل کو حل کرنے اور سرکاری سکولوں کے احیاء کے لیے درج ذیل اقدامات کی ضرورت ہے۔
سب سے پہلا اور سب سے ضروری قدم یہ ہے کہ سکولوں میں محض طلباء کی تعداد بڑھانے کے بجائے معیار پر توجہ دی جائے۔
اندھا دھند داخلوں کے بجائے داخلہ ٹیسٹ کا انعقاد کیا جائے۔ داخلہ ٹیسٹ کی ایک معقول فیس ، جو سرکاری خزانے میں جمع ہو، رکھی جائے۔
برائے فیشن سائنس پڑھنے کے بجائے کیریئر کونسلنگ کی جائے۔
فیل ہونے والوں بچوں کو اگلی جماعتوں میں کسی صورت ترقی نہ دی جائے۔
پرائمری اور ایلیمنٹری کلاسوں پر خصوصی توجہ دی جائے۔ ان کلاسوں میں بنیاد مضبوط ہوجانے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ میٹرک کے امتحان میں بہتر نتائج آئیں گے۔
ایلیمنٹری کلاسز میں مضامین کی بھرمار کے بجائے صرف اردو املائ، انگلش گرامر ، سائنس اور ریاضی پر توجہ دی جائے۔
تمام غیر ضروری ، غیر تعمیری ، تخریبی اور تعلیم دشمن سرگرمیوں کا فوری خاتمہ کیا جائے۔
سرکاری سکولوں کو نفع بخش بنایا جائے۔ ایک معقول فیس ( کم از کم دو سو روپے) وصول کی جائے۔
خالی آسامیوں پر فوری بھرتیاں کی جائیں۔
کانٹریکٹ پر کام کرنے والے اساتذہ کو مستقل کیا جائے۔
تمام سکولوں میں سائنس لیب اور لائبریریوں کو فعال بنایا جائے۔
غیر ضروری خط کتابت اور غیر ضروری ہنگامی ملاقاتوں کا فوری خاتمہ کیا جائے۔
Slow learners
کے لیے ہر سکول میں ایک الگ سیکشن بنایا جائے۔
ان طلبائ، جن کے فیل ہونے کا خدشہ ہو، کا داخلہ نہ بھیجا جائے۔
پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے بجائے کمیونٹی پبلک پارٹنر شپ کو فروغ دیا جائے۔
ان اقدامات پر عمل سے سرکاری سکولوں کا معیار بہتر ہوگا نتیجتاً سماجی ناہمواری اور طبقاتی تقسیم کا خاتمہ ہوگا اور شہری اور دیہاتی علاقوں میں شرح خواندگی میں فرق ختم ہوگا۔ آبادی کا ایک کثیر حصہ دیہاتی علاقوں میں آباد ہے اور سرکاری سکولوں کا جال قصبوں اور دیہاتوں تک پھیلا ہوا ہے، سرکاری سکولوں میں معیار تعلیم بہتر ہونے سے دیہاتی علاقوں میں ترقی اور خوش حالی کے امکانات بڑھ جائیں گے۔

جواب دیں

Back to top button