Columnمحمد مبشر انوار

تقدیر غزہ

تحریر : محمد مبشر انوار(ریاض )
غزہ کے مسلمانوں پر گزشتہ تقریبا ڈیڑھ برس سے زندگی اجیرن تھی، مسلم ممالک اپنے طور پر جو بن پڑ سکتا تھا، اس کی سعی میں مصروف رہے، ان کی عسکری و سیاسی و دیگر مجبوریوں سے اعراض نہیں برتا جا سکتا تاہم ان کی نیت پر شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں کہ انہوں نے پوری نیک نیتی کے ساتھ ،اسرائیلی مظالم کو رکوانے کی کوشش کی۔ عسکری و سیاسی و دیگر مجبوریوں کا پس منظر یہی ہے کہ ان مسلم ممالک کی اپنی عسکری طاقت اس قابل نہیں کہ اسرائیلی مظالم کے خلاف خم ٹھونک کر میدان جنگ میں اتر سکیں تو دوسری طرف یہ تلخ حقیقت بھی عیاں ہے کہ مشرق وسطی کے چند ممالک کو چھوڑ کر ،دیگر اسلامی ممالک کی معاشی حیثیت بہرطور امریکہ و حلیفوں کے مرہون منت ہے جبکہ سیاسی لحاظ سے تقریبا ہر ملک اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے ،امریکی آشیرباد پر انحصار کرتا ہے ماسوائے ایران جو امریکی پابندیوں کا شکار ہونے کے باوجود مختلف محاذوں سے اسرائیلی کے سامنے کھڑا دکھائی دیا۔بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے غزہ کے مسلمانوں کی نسل کشی پر لیت و لعل اس امر کا واضح ثبوت ہیں کہ اسرائیلی جارحیت کے پس منظر میں بہرطور اسرائیل کو امریکی آشیرباد مکمل طور پر میسر تھی جبکہ پیش منظر میں بائیڈن انتظامیہ کسی بھی دوسرے ملک کو براہ راست اس میں ملوث ہونے پر بذات خود میدان جنگ میں اترنے کی دھمکی دیتی رہی،یوں یمن کے حوثیوں،لبنان میں حزب اللہ اور کسی حد تک ایران اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرتا دکھائی دیا۔ اول الذکر دونوں گروہ غیر سرکاری حیثیت میں اسرائیل کے ساتھ نبرد آزما نظر آئے تو ایران اپنی خودمختاری و سالمیت پر حملہ ہونے کے بعد اسرائیل کے خلاف محدود پیمانے پر متحرک دکھائی دیا۔ اس اثناء میں امریکی انتخابی مہم بھی کہیں دکھائی دیتی رہی جس میں نو منتخب صدر ٹرمپ نے بائیڈن کو سخت مقابلہ دئیے رکھا اور غزہ پر بالخصوص اور باقی دنیا میں بالعموم ان کی جارحانہ پالیسیوں کو ہدف تنقید بناتے رہے اور اس نکتہ کو خصوصی طور پر اپنی انتخابی مہم کا حصہ بنایا۔جنگوں کو ختم کرنے کی نوید سناتے ہوئے،ٹرمپ امریکی عوام کو قائل کرنے میں کامیاب رہے اور گزشتہ نومبر میں باقاعدہ طور پر صدر منتخب ہو گئے۔ منتخب ہوتے ہی سب سے پہلا بیان دیتے ہوئے ٹرمپ نے ،جنوری میں حلف اٹھانے سے قبل،غزہ میں جنگ بندی کی خواہش کا اظہار کیا بصورت دیگر سخت ترین نتائج کی دھمکی بھی دی۔ٹرمپ کے اس بیان سے نہ صرف غزہ بلکہ امریکہ میں ٹرمپ کے حامیوں میں بھی خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ سب کو علم تھا کہ ٹرمپ کی جانب سے جنگ بندی کا اعلان واقعتا جنگ بندی ہی ہے لیکن بعد ازاں کے عزائم سے کوئی بھی آشنائی کا دعوی نہیں کر سکتا تھا کہ ٹرمپ کا کردار شروع سے ہی یہی رہا ہے۔ وقتی طور پر غزہ میں جنگ بندی بھی ہو گئی،غزہ کے علاوہ دیگر اسلامی ممالک نے بھی اس امر پر اطمینان کا اظہار کیا کہ اسرائیلی سفاکانہ کارروائیوں کو بریک لگی ہے تومزید بہتری کی امید پیدا ہو سکتی ہے لیکن ٹرمپ کے ذہن میں کیا تھا،یہ کسی کو بھی معلوم نہیں تھا۔
صدارت کا حلف اٹھاتے ہی،ٹرمپ کی جنگ بندی کی خواہش تو پوری ہو گئی لیکن ٹرمپ کی غیر متوقع ہونے کا ثبوت اس وقت سامنے آیا جب ٹرمپ نے کینیڈا کو امریکہ میں شامل ہونے کا کہا اور پھر گرین آئی ینڈ کو ڈنمارک سے باقاعدہ خریدنے کا ذکر چھیڑا،جسے بعد ازاں مقامی طور پر جاری آزادی کی لہر کے نتیجہ میں ڈنمارک سے آزاد ہونے پر اپنے ساتھ شامل کرنے کی خواہش ظاہر کردی۔حیران کن طور پر گرین آئی لینڈ میںموجود خواہش آزادی کا احترام اس صورت میں کیا جارہا ہے کہ آئی لینڈ آزاد ہونے کے بعد امریکہ کے زیر اثر آ جائے جبکہ کینیڈا کے حوالے سے اس خواہش کا اظہار کینیڈین معاشی و سیاسی حالات کو مدنظر رکھ کر کیا جارہا ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو امریکی ہوس اقتدار یا ہوس زمین نہ ختم ہوئی اور نہ ہی کم ہوئی ہے بلکہ اس کا طریقہ کار بدلتا دکھائی دے رہا ہے کہ امریکہ بہرصورت دنیا پر اپنا تسلط قائم رکھنا چاہتا ،اس کے لئے طریقہ خواہ کوئی بھی اختیار کیا جائی۔ابھی ان دو ممالک کی بازگشت کم بھی نہیں ہوئی تھی کہ ٹرمپ کی زنبیل سے انتہائی انوکھی خواہش کا اظہار سامنے آ گیا کہ غزہ کے مسلمان اپنی آبائی جگہ کو خالی کردیں،یہاں سے ہجرت کر جائیں اور اس جگہ کو بھی امریکی زیر انتظام رکھا جائے گا۔ ٹرمپ کی ان خواہشات کو کیانام دیا جا سکتا ہے؟ ایک نئے ورلڈ سے تشبیہ دی جا سکتی ہے یا اسے نیا ورلڈ آرڈر کہا جا سکتا ہے؟ ماضی ہی کیا تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ اپنے وقت کے طاقتور کی خواہشات ہی دنیا کے لئے ورلڈ آرڈر رہی ہیں،تاہم پچھلے وقتوں میں ،جب ٹیکنالوجی اتنی تباہ کن نہیں تھی،طاقتوروں کو اپنے لائو لشکر کے ساتھ دوسری قوموں کو فتح کرنے کے لئے نکلنا پڑتا تھا،اب اس کی چنداں ضرورت دکھائی نہیں دیتی،تاہم قبضہ کے لئے فوج کی ضرورت سے قطعی انکار نہیں۔اس مفروضہ کو سامنے رکھیں تو معاملے کی دوسری پرتیں بھی کھلتی دکھائی دیتی ہیں کہ اپنے سابقہ دور حکومت میں ٹرمپ نے بھرپور کوشش کی تھی کہ کسی طرح اسرائیل کو اسلامی دنیا میں تسلیم کروا لیا جائے اور اس کی آڑ میں اسرائیلی و امریکی مذموم مقاصد کو بآسانی مشرق وسطی میں حاصل کیا جا سکے،تاہم اپنے سابقہ دور میں ٹرمپ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے اور اب ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ٹرمپ ایک نئے انداز میں اپنے ادھورے مشن کو پورا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہاں یہ امر برمحل ہے کہ بظاہر امریکہ میں کوئی بھی حکومت ہو،کیسے ہی کردار کا کوئی شخص صدارت کے منصب پر فائز ہو،اس کی ہمدردیاں ہمیشہ اسرائیل کے ساتھ اور جذباتی وابستگی بھی غیر مسلموں کے ساتھ ہی رہی ہے،کوئی بھی موقع جہاں وہ مسلمانوں کو زک پہنچا سکیں،ہاتھ سے جانے نہیں دیتے،لہذا انتخابی مہم کے دوران کئے گئے ’’ سیاسی بیانات‘‘ کی عمل زندگی میں کوئی خاص اہمیت باقی نہیں رہتی۔
سوال مگر یہ ہے کہ ٹرمپ کے ان اقدامات کا مقصد کیا ہے اور اس سے کیا حاصل کیا جا سکتا ہے؟بظاہر تویہ دکھائی دیتا ہے کہ غزہ سے متصل سمندر میں موجود معدنی ذخائر،جن کو اسرائیل پہلے ہی بغیر کسی حق کے اپنے تصر ف میں لارہا ہے، پر نظر ہو سکتی ہے لیکن یہ دلیل اب دل کونہیں لگتی کہ توانائی کے کئی ایک متبادل سامنے آ چکے ہیں اور مستقبل قریب میں قرین قیاس ہے کہ معدنی وسائل پر انحصار انتہائی کم ہو جائے گا،تو پھر غزہ پر بنفس نفیس قدم جمانے کی کیا ضرورت ہے؟غزہ کو پڑوسی ممالک یا دیگر ممالک میں ہجرت کرنے پر کیوں مجبور کیاجا رہا ہے؟ذہن میں اس سوال کے کلبلانے سے معاملات وہ نہیں دو دکھائے جار ہے ہیں بلکہ کہانی کچھ اور ہی دکھائی دیتی ہے جس کا تعلق بہرطور توسیع پسندی کے علاوہ کچھ نہیں سوجھتایا توسیع کو مستقل کرنے کی خو کارفرما نظر آتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اپنے قدم مضبوطی سے جما لئے جائیں۔ بالفرض اگر امریکہ غزہ کا کنٹرول سنبھال لیتا ہے تو یہاں کے معاملات کیا ہوں گے؟کیا غزہ کے مسلمان واقعی یہاں سے ہجرت کر جائیں گے؟کیا غزہ میں امریکی یہودی شہری آباد ہوں گے؟امریکہ اس پٹی میں کیسی معاشرت متعارف کروائے گا؟کیا اس پٹی کو مستقلا اپنی عسکری چھاؤنی میں تبدیل کرے گا؟کیا قطر، بحرین یا دیگر مشرق وسطیٰ میں موجود اپنی فوجوں کو نکال لے گا؟ویسے امریکہ ان ممالک سے اپنی فوجوں کو نکال کر کیوںغزہ میں آباد کرے گا کہ ان ممالک میں موجود امریکی فوجیوں کا سارا خرچ تو یہی ممالک اٹھا رہے ہیں،پھر امریکہ کو کیا ضرورت ہے کہ اپنے ان فوجیوں کا یہاں سے اٹھا کر غزہ میں بٹھائے؟بالفرض غزہ کو فوجی چھاؤنی بنانا ہی مقصود ہے کہ جہاں سے نہ صرف مشرق وسطی کے معاملات کو اپنے ہاتھ میں رکھا جائے بلکہ اپنے مخالفوں کی تمام تر مہم جوئیوں کا بروقت موثر توڑ کیا جا سکے یا انہیں باز رکھا جا سکے جبکہ ان ممالک میں موجود اپنے فوجیوں سے بوقت ضرورت ممکنہ طوربراہ راست کنٹرول سنبھالا جا سکے۔ مراد یہ ہے کہ جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے غزہ میں بیٹھ کر تمام کارروائیاں براہ راست اور قریب سے کی جائیں اور اسرائیل کی سرپرستی کے لئے اپنے سازو سامان و لائو لشکر کے ساتھ ہمہ وقت یہاں موجود رہا جائے ،پھر کیا اسرائیل کو مسلم ممالک سے تسلیم کروانے کی ضرورت باقی رہے گی؟ البتہ جیسے اسرائیل فلسطین کو تقریبا ہڑپ کر چکا ہے،بعینہ ویسے ہی ماضی کے حوالے دے کر، تاریخ سے ثابت کرتے ہوئے، اپنی توسیع پسندی پر عمل درآمد کرتا رہے گا جبکہ مسلم ممالک سوائے ’’ جنگ بندی‘‘ کی کوششوں کے،عملا کچھ کرنے سے قاصر ہوں گے، لیکن اسکے لئے پہلے غزہ کی تقدیر کا فیصلہ کیا جانا ہے کیا تقدیر غزہ یہی ہے؟؟

جواب دیں

Back to top button