Column

جلد بازی مت کیجئے

تحریر : رفیع صحرائی
یہ رواج سا بن گیا ہے کہ لوگ اکثر ادھوری معلومات کی بنیاد پر ہی رائے قائم کر لیتے ہیں اور اس رائے کو حتمی بھی سمجھ لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو یہ پریکٹس معمول سے بھی کچھ زیادہ ہی ہے۔ کبھی کسی نے تصویر کے دونوں رخ دیکھنے کی زحمت ہی نہیں کی بس ایک رخ دیکھا اور رائے قائم کر لی۔ بعض اوقات تو ہمیں کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے پورے رخ کو دیکھنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ معمولی سی ایک جھلک دیکھ کر ہی ہم ’’ لفافہ دیکھ کر خط کا مضمون بھانپ لیتے ہیں‘‘ اور شرمندگی تب ہوتی ہے جب تصویر کا دوسرا رخ سامنے آتا ہے یا لفافے میں سے خط باہر آتا ہے۔
ایک کارخانے کے منیجر نے دیکھا کہ ایک نوجوان دیوار کے ساتھ پیٹھ لگائے مزے سے فارغ بیٹھا ہے۔ وہ آہستگی سے اس کے پاس گیا اور نہایت ہی تحمل کے ساتھ اس سے پوچھا: ’’ تمہاری کتنی تنخواہ ہے؟‘‘۔
نوجوان ایک دھیمے طرزِ عمل والی بردبار شخصیت کا مالک تھا، اس ذاتی نوعیت کے سوال سے حیران تو ہوا مگر منیجر کو یہ جواب دیتے ہوئے کہ اس کی تنخواہ تقریباً پانچ ہزار ڈالر ماہانہ ہے بولا: ’’ مگر آپ کیوں پوچھ رہے ہیں جناب والا؟‘‘۔
منیجر نے نوجوان کی بات کو درخورِ اعتناء نہ جانتے ہوئے خاموشی کے ساتھ اپنی جیب سے اپنا پرس نکال کر اس میں سے پانچ ہزار ڈالر گن کر علیحدہ کئے اور پھر یہ پیسے نوجوان کی طرف ( حساب چُکتا کرنے کے لیے) بڑھاتے ہوئے کہا:’’ میں لوگوں کو تنخواہ اس لئے دیتا ہوں کہ وہ میرے کارخانے میں آ کر ایمانداری سے کام کرتے ہوئے اپنا فرض ادا کریں نا کہ ادھر آ کر فارغ بیٹھ جایا کریں۔ یہ پیسے پکڑو اور اپنی راہ لو اور دوبارہ ادھر کا رخ بھی نا کرنا‘‘۔
نوجوان نے پیسے پکڑنے میں ذرا بھی دیر نہ لگائی اور رقم لیتے ساتھ ہی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔
منیجر نے آس پاس تماشہ دیکھتے مزدوروں کی طرف منہ کر کے تنبیہاً کہا: ’’ یہاں موجود ہر شخص یہ جان لے کہ ہر اس شخص کے ساتھ یہی حشر ہوگا جو یہاں آ کر اپنے فرائض سے غفلت برتتا ہے، اس کا حساب چکتا کر کے فوراً ہی کام سے نکال دیا جائے گا‘‘۔
پھر، منیجر آنکھیں پھاڑ کر اپنی طرف دیکھنے والے ایک مزدور کے پاس گیا اور اس سے پوچھا: ’’ لگتا ہے تم اس نوجوان کو ذاتی طور پر جانتے تھے۔ یہ نوجوان ادھر کیا کام کیا کرتا تھا؟‘‘۔
حیران و پریشان مزدور کا جواب منیجر کے لیے ایک صدمے سے کم نہیں تھا، کہنے لگا: ’’ جناب عالی! یہ نوجوان تو ادھر کام ہی نہیں کرتا تھا، یہاں محض پیزا پہنچانے کے لیے آیا ہوا تھا‘‘۔
کئی دفعہ جذبات میں کئے گئے فیصلے خود کے لیے ہی وبال بن جاتے ہیں اس لیے روشن خیالی سے کام لیں۔
ادھوری معلومات کی بنیاد پر جلد بازی میں کی گئی رائے قابلِ اعتبار نہیں ہوتی۔ اسی لیے تو کہا گیا ہے پہلے بات کو تولو پھر بولو، تولے بغیر بولنا بے وُقعت اور بے وزن ہوتا ہے۔
بس پورے حالات جانے بغیر کوئی رائے مت قائم کیجئے۔ تصویر کے دونوں رخ دیکھ کر کوئی نتیجہ اخذ کیجئے۔
ایک چوبیس سال کا لڑکا چلتی ٹرین سے باہر دیکھ کر اونچی آواز میں چلاتا ہے۔
دیکھو بابا! درخت پیچھے رہ گئے ہیں ہم بہت تیزی سے آگے جارہے ہیں‘‘۔
باپ اس کی طرف دیکھتا ہے اور خوش ہو کر مسکرا دیتا ہے۔
ایک نوجوان جوڑا بھی چوبیس سال کے لڑکے کے قریب بیٹھا ہوتا ہے اور غور سے اس کو دیکھتے ہوئے سوچ رہا ہوتا ہے کہ ’’ اتنا بڑا ہوگیا ہے اور کتنی بچگانہ حرکتیں کر رہا ہے۔ شاید یہ کوئی ذہنی مریض ہے جو باپ کو پریشان کر رہا ہے۔
اچانک سے پھر لڑکا چلاتا ہے۔
’’ دیکھو بابا! بادل بھی ہمارے ساتھ ساتھ بھاگ رہے ہیں‘‘۔
آخر کار اس جوڑے سے رہا نہ گیا اور لڑکے کے باپ کو کہنے لگے، ’’ آپ اپنے بیٹے کو کسی اچھے ماہر نفسیات کے پاس کیوں نہیں لے کر جاتے؟‘‘۔
بوڑھے آدمی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’ ہم ابھی ابھی ڈاکٹر کے پاس سے آرہے ہیں لیکن ماہر نفسیات کے پاس سے نہیں، ہم ہسپتال سے واپس آ رہے ہیں۔ میرا بیٹا پیدائشی اندھا تھا اس نے آج پہلی دفعہ دنیا کو اپنی نظر سے دیکھا ہے۔ آج 24سال بعد اس کو اپنی نظر سے دنیا کو دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ اس کا یہ رویہ آپ کے نزدیک احمقانہ ضرور ہو گا لیکن میرے لیے یہ کسی معجزہ سے کم نہیں ہے‘‘۔
وہ جوڑا لڑکے کے باپ کے پاس آکر بہت سے ان کہے الفاظ اور آنکھوں میں شرمندگی کے آنسو لیے ہوئے بیٹھ جاتا ہے اور ان کی خوشی میں شامل ہوتا ہے۔
دنیا میں ہر انسان کی کوئی نہ کوئی کہانی ضرور ہوتی ہے، لیکن ہم بہت جلد لوگوں کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی کرنا اور رائے دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ یہ نہ جانتے ہوئے کہ وہ کون ہیں اور ان کو کیا مسئلہ ہے۔ اس کہانی کا سچ ہی آپ کے لیے حیران کن ہے۔ دوسروں کے بارے میں ادھوری معلومات کی بنیاد پر رائے دینے کی بجائے اپنی زندگی پر توجہ دیں اور مثبت تبدیلی اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں۔

جواب دیں

Back to top button