پیکا ایکٹ، پرانی شراب نئی بوتل

تحریر : مظفر اعجاز
یہ دنیا جب سے بنی ہے سچ اور جھوٹ کی لڑائی ہے، اور یہ بھی سب جانتے ہیں کہ جھوٹ سچ بن کر سامنے اتا ہے اور سچ کو جھوٹا بناتا ہے۔ گزشتہ دنوں اچانک شور اٹھا کہ پارلیمنٹ پیکا ایکٹ کی منظوری دینے جارہی ہے، لیکن یہ اچانک تو نہیں ہے، تھوڑا سا ذہن پر زور ڈالیں تو یاد آجائے گا کہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی تقریروں کے بارے میں بھی پریس ایڈوائس دی گئی تھی، اس وقت کا پیکا ایکٹ یہ پریس ایڈوانس تھی، آگے بڑھیں تو زیادہ دن نہیں گزرے،1958ء آگیا، پھر جس نے سچ لکھا وہ پکڑا گیا جیل گیا، جھوٹا قرار دیا گیا، ملک دشمن قرار دیا گیا۔ ہر ایک کے خلاف سازش کیس بنایا گیا، یہ ایوب خان ہی کے دور کا لطیفہ ہے کہ ایک سیاسی لیڈر پر مقدمہ بنایا گیا کہ تم نے سرکار کو چور کہا ہے، ثبوت کے طور پر ایک اخباری تراشہ پیش کیا گیا، اس میں اس رہنما کے نام سے خبر کی سرخی تھی جب سرکار ہی چور ہو تو عوام کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں، اس پر اس زمانے کی عدالت کے جج نے ( زیادہ تر جج ہر زمانے میں ایسے ہی ہوتے ہیں) کہا کہ اس کے بعد کیا کہتے ہو، سیاستدان نے ہوشیاری سے کہا کہ اس میں کہاں لکھا ہے کہ ہمارے ملک کی سرکار چور ہے، تو جج نے کہا ! خاموش، کیا ہمیں نہیں پتا کہ کون سی سرکار چور ہے، اس کے بعد اسے ملک کے استحکام میں رخنہ ڈالنے اور ملک دشمنی کے الزام میں سزا ہوگئی، یہی لطیفہ بھارت کے بارے میں بھی استعمال ہوتا رہا ہے اور فلموں بھی آگیا۔
اب پاکستان میں یہی فلم مسلسل چل رہی ہے کبھی اس کا نام پریس ایڈوائس تھا، کبھی اسے پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس کہا گیا، اتفاق سے جنرل ایوب ہی کے زمانے میں ایبڈو بھی مسلط کیا گیا، پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس تو براہ راست آزادی اظہار پر پابندی کا قانون تھا لیکن ایبڈو کے تحت نااہل قرار پانے والے سیاستدانوں کے حق میں آواز اٹھانے پر یہ کالا قانون حرکت میں آجاتا تھا، ایوب خان نے چونکہ ایک حیلے سے سیاسی قبا اوڑھ لی تھی، اس لئے وہ پارلیمنٹ کے ذریعے قوانین بنا لیتے تھے، یہ حقیقت بھی محل نظر رہے کہ پارلیمنٹ میں نمائندگی کی شرح بھی ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے کنٹرول میں رہی ہے، جیسی جمہوریت آج ہے اسی طرح کی اس وقت تھی، آج فارم سینتالیس ہے، اس وقت چیف الیکشن کمشنر کا جھرلو تھا، حتی کہ ڈیڈی کے منہ بولے بیٹے بھٹو نے اپنے مخالفین اغوا کرائے اور جیت گئے، وہ اکیلے نہیں ایک طویل فہرست ہے سیاسی مخالفین کو کچلنے کی۔ ایوب آمریت کے بعد جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز نے بھی سیاسی قبائیں اوڑھ لیں۔ اور اسی طرح کے کالے قوانین مسلط کئے، گویا یہ کہانی بھی پرانی ہے، بس اب سوشل اور الیکٹرانک میڈیا ہے اس لئے پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس کا نام الیکٹرانک کرائم ایکٹ رکھ دیا گیا، کون سی بات بدلی ہے، سب کچھ وہی ہے، وہی رویے ہیں وہی ہتھکنڈے ہیں، ورنہ تو ’’ دن بدلے ہیں فقط وزیروں کے‘‘ ۔ اسی کو کہتے ہیں کہ پرانی شراب نئی بوتل میں بند کرکے نیا نام دے کر مارکیٹ میں لائی گئی ہے، پارلیمنٹ میں تو پورا انتظام ہے کہ عوام کا کوئی حقیقی نمائندہ نہ پہنچ جائے، پہلے ایبڈو سے روکا، اب فارم سینتالیس سے، اس لئے سب نے مل کر اس کو منظور کرلیا، اب اس کیخلاف آواز اٹھانے والے پارلیمنٹ کے باہر والے ہیں، گویا وہ کروڑوں عوام کے ’’ ووٹوں‘‘ سے پارلیمنٹ میں پہنچنے والوں کی توہین کر رہے ہیں۔ ان پر بھی پیکا ایکٹ لاگو ہوسکتا ہے ۔
ویسے تو یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ پیکا کیا ہے، لیکن مزید واضح کرنے کے لئے یکجا کرلیا جائے تو مضائقہ نہیں، قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظوری کے بعد بدھ 29جنوری کو صدر مملکت آصف زرداری نے بھی الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے ایکٹ ( پیکا) ترمیمی بل 2025کی توثیق کر دی، یہ اور بات ہے کہ انہوں نے دستخط نہ کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ بہر کیف ان کے دستخط کے بعد یہ قانون بن گیا اب سوال یہ ہے کہ آخر اس قانون میں ایسا کیا ہے جو اس کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے اور صحافتی تنظیمیں اس بل کو ’’ صحافیوں کی آواز دبانے والا کالا قانون‘‘ قرار دیتے ہوئے ملک بھر کے مختلف شہروں میں سراپا احتجاج ہیں۔ اور ان کے ساتھ اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں، سول سوسائٹی اور وکلا ہیں، دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اس ایکٹ کی منظوری میں حکومت کی اہم حلیف پیپلز پارٹی بھی شریک ہے اور اس کے رہنما سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی صحافیوں کے ساتھ بھی ہیں، اور مذمت بھی کر رہے ہیں اور یہ پارٹی ایسا ہی کرتی ہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ ہے اس کے وزیر اطلاعات نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ یہ بل پروفیشنل صحافیوں کے خلاف نہیں بلکہ فیک نیوز پھیلانے والوں کے خلاف ہے۔ ان کا اصرار تھا کہ ڈیجیٹل میڈیا پر کوئی کچھ بھی کہہ دیتا ہے اور اس پر صحافت کے نام پر الزام تراشی کی جاتی ہے۔ بقول عطا تارڑ پیکا ترمیمی بل ڈیجیٹل میڈیا کے لیے ہے، ڈیجیٹل میڈیا پر جھوٹ اور پراپیگنڈے کی کوئی جواب دہی نہیں ہے۔ انہوں نے ایسی بحث چھیڑ دی ہے کہ تمام حکومتیں زد میں آتی ہیں، مین سٹریم یعنی سرکاری اور غیر سرکاری مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ پر دن رات جھوٹ بولا اور پراپیگنڈا کیا جاتا ہے اور اس کی کوئی جوابدہی نہیں ہوتی، ان سرکاری روایتی الیکٹرانک اور ڈیجیٹل ذرائع ابلاغ پر پاکستان کو کئی مرتبہ ترقی کرتا دکھایا جاتا ہے، یہی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ایک دوسرے کو چور ڈاکو ملک دشمن قرار دے چکے، یہی عمران خان ایم کیو ایم کے خلاف ثبوتوں کے سوٹ کیس بھرے بیٹھے تھے، اور یہی عمران خان اسی مین سٹریم اور سوشل میڈیا پر فوج کے سب سے بڑے حامی، ہمنوا تھے لیکن ان سب نے یو ٹرن لیا یا جھوٹ بولا، تینوں نے ملک دشمنوں اور بھتہ خوروں اور اپنے دعوے کے مطابق چوروں سے اتحاد کرلیا، عمران خان فوج کے دشمن ہوگئے، ایم کیو ایم کو نفیس لوگ قرار دیدیا، ان سب کی کوئی ایک بات تو غلط ہے پہلے والی یا اب والی، پھر اس جھوٹے پراپیگنڈے پر سب سے پہلے ان تینوں پر پیکا ایکٹ نافذ ہونا چاہئے۔ لیکن یہ ڈیجیٹل میڈیا کے نام پر ’’ کہیں پہ نشانہ کہیں پہ نگاہیں‘‘ کے مصداق ہے، اس میں اتنا جھول ہے کہ جب جس پر چاہیں ہاتھ ڈال دیں۔
اس بل میں ایسا کیا ہے کہ صحافتی تنظیمیں اور اپوزیشن سب احتجاج کر رہے ہیں، اصل سوال یہی ہے کہ اس کے نافذ ہونے کے بعد کیا واقعی صحافیوں کی آواز دبائی جا سکتی ہے؟، کیا اس سے ایک عام شہری بھی متاثر ہو سکتا ہے؟، اگر ہاں تو کیسے؟۔ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کی جانب سے مرتب اور بعد ازاں وزارت داخلہ کو منتقل کیے گئے ترمیمی بل کے تحت جھوٹی اور جعلی معلومات پھیلانے کی سزا تین سال تک قید یا 20لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گی، یا دونوں سزائیں دی جا سکیں گی۔ بل کے مسودے کے مطابق نئی شق ون۔ اے کے تحت سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائے گی، جس کا کام غیر قانونی مواد کی روک تھام ہو گا۔ غیر قانونی مواد کی تعریف اس بل کے مطابق ایسا مواد ہے جو پاکستان کے نظریے کے خلاف ہو، جو افراد کو قانون ہاتھ میں لینے کے لیے اشتعال دلائے یا اس تناظر میں عوام، افراد، گروہوں، کمیونٹیز، سرکاری افسران اور اداروں کو خوف میں مبتلا کرے، غیر قانونی مواد ہے۔ یا ایسا مواد جو عوام یا ایک گروہ یا حصے کو سرکاری یا نجی املاک کو نقصان پہنچانے کے لیے اشتعال دلائے، قانونی تجارت یا شہری زندگی میں خلل ڈالے، ایسا مواد بھی غیر قانونی ہو گا۔ تشدد کو ہوا دینے یا اندرونی خلل پیدا کرنے کے لیے مذہبی، فرقہ وارانہ یا نسلی بنیادوں پر نفرت اور توہین کو ہوا دینے والا مواد بھی غیرقانونی ہو گا۔ بل کے مطابق پارلیمنٹ و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین، عدلیہ، مسلح افواج سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے، ریاستی اداروں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں اور دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرنے والا مواد بھی غیرقانونی ہو گا۔ یہ قانون نافذالعمل ہونے کے بعد سپیکر قومی و صوبائی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی جانب سے حذف کیے جانے والے الفاظ نشر نہیں کیے جا سکیں گے جبکہ کالعدم تنظیموں کے سربراہان اور نمائندوں کے بیانات کسی طرز پر نشر کرنا بھی غیر قانونی مواد کے زمرے میں آئے گا۔ یہ اور بہت ساری چیزیں ہیں، لیکن فیصلہ کون کرے گا کہ غیر قانونی مواد کیا ہے۔ حکومت نے کہہ دیا یا کسی نے کسی کے خلاف درخواست دیدی اور ایک محترم، باعزت، سکالر، عالم یا صحافی یا سیاستدان کی پگڑی اچھل گئی ۔ پریس ایڈوائس ، پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس، ایبڈو اور اب پیکا، سب کا کام یہی رہا ہے۔
سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی اس قانون کی سہولت کاری کرے گی۔ یہ اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن کی مجاز ہو گی اور رجسٹریشن کے معیارات کا تعین اور رجسٹریشن منسوخ کرنے کی بھی مجاز ہو گی۔ یہ اتھارٹی پیکا ایکٹ کی خلاف ورزی پر سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے خلاف تادیبی کارروائی کر سکے گی۔ اس کے علاوہ متعلقہ اداروں کو سوشل میڈیا سے غیرقانونی مواد ہٹانے کی ہدایت بھی جاری کر سکے گی۔ اور سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں پر فرد کی شکایت پر 24گھنٹے کے اندر کارروائی کرے گی اور اس کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں ہو گا۔ یہ ادارہ متعلقہ اداروں کو مواد بلاک کرنے کے حوالے سے ہدایات دے سکے گا، جس کی مدت 30 روز ہو گی، جس میں مزید 30روز کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب یہ اتھارٹی دیگر بین الاقوامی ایجنسیوں کے ساتھ بھی اشتراک کرتے ہوئے کام کر سکی گی اور معلومات شیئر کر سکے گی۔ اس اتھارٹی میں چیئرمین پی ٹی اے، چیئرمین پیمرا اور سیکرٹری داخلہ بطور ایکس آفیشو رکن شامل ہوں گے۔ بیچلرز ڈگری ہولڈر اور متعلقہ فیلڈ میں کم از کم 15سال کا تجربہ رکھنے والے فرد کو اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کیا جا سکے گا۔ یعنی تمام عملہ سرکار کے کنٹرول میں ہوگا، اسی طرح بل کے مسودے کے مطابق اتھارٹی کے چیئرمین اور پانچ اراکین کی تعیناتی پانچ سالہ مدت کے لیے کی جائے گی جبکہ اس اتھارٹی میں صحافیوں کو بھی شامل کیا جائے گا۔ پانچ اراکین میں سے ایک صحافی ہو گا، جس کا 10سالہ تجربہ ہو گا۔ یہ دس سالہ تجربہ کار صحافی پچاس پچاس سالہ تجربہ رکھنے والوں کی اصلاح کیسے کریں گے اس کے علاوہ اتھارٹی میں سافٹ ویئر انجینئر، وکیل، سوشل میڈیا پروفیشنل اور نجی شعبے سے آئی ٹی ماہر بھی شامل ہوں گے۔ اسی طرح ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ تحلیل ہو گا۔ نیشنل ساءبر کرائم ایجنسی قائم کی جائے گی جس کے تحت تحقیقات اور پراسیکیوشن کی جائے گی۔ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ سے منسلک تمام اہلکار، کیس، تحقیقات، انکوائریاں، اثاثے، بجٹ اور جائیداد نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کو منتقل کر دئیے جائیں گے۔ لیکن اب تک اس ادارے کی کارکردگی کا حساب کون لے گا، بعد میں کوئی ثبوت بھی آگیا تو کہا جائے گا کہ وہ ادارہ تو ختم ہوگیا، اس سارے نظام کو چلانے کے لئے سوشل میڈیا کمپلینٹ کونسل بھی بنائی جائے گی، جو ایک چیئرمین اور چار اراکین پر مشتمل ہو گی۔ یہاں عام افراد، تنظیموں اور شخصیات کی شکایات وصول کی جائیں گی جن کا بعد ازاں جائزہ لیا جائے گا۔اس کے علاوہ پیکا ایکٹ ترمیمی بل کے تحت ٹربیونل قائم کیے جائیں گے، ریگولیٹری اتھارٹی کے فیصلے سے متاثرہ شخص یہاں درخواست دے سکے گا، جبکہ ٹربیونل کے فیصلے سے متاثرہ شخص 60روز کے اندر سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر سکے گا، ٹربیونل تمام مقدمات کے فیصلے 90روز میں کرے گا۔ ٹربیونل کے چیئرمین ہائی کورٹ کے جج کی اہلیت رکھنے والا فرد ہو گا اور اس میں ایک سافٹ ویئر انجینئر اور ایک صحافی رکن بھی شامل ہوں گے جس میں شخصی آزادی اور سزا کے طریقہ کار کو بھی بڑھایا گیا ہے۔
پاکستان میں کوئی حکومت جب بھی کوئی قانون لے کر آتی ہے تو یہی کہتی ہے کہ یہ تمام شہریوں کے لیے نہیں ہے بلکہ صرف ان کے لیے ہے جو قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ لیکن لپیٹ میں صرف حکومت مخالف آتے ہیں ، منظور کردہ بل میں فیک نیوز اور غلط معلومات کے الفاظ کو وسیع طریقے سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ وسیع سے زیادہ مبہم ہے یعنی دائرہ بڑھا دیا گیا ہے۔ خوفناک بات یہ بھی ہے کہ، اس بل میں نیت پر بھی مقدمہ درج ہو سکتا ہے۔ حکومت شدید سزائوں کو متعارف کروا رہی ہے۔ یعنی نیت کا فیصلہ بھی اب شکایت کنندہ کرے گا کہ فلاں کی نیت یہ تھی۔ یہ ایک خطرناک اقدام ہے کیونکہ آپ کے خلاف کوئی بھی شکایت کنندہ ہوسکتا ہے۔ قانون کے مطابق عمومی طور پر متاثرہ فریق ہی درخواست دے سکتا ہے لیکن یہاں کوئی بھی یہ درخواست دے سکتا ہے۔ اس طرح حکومت آن لائن مواد کو کرمنالائز کر رہی ہے جس کے بعد خصوصی طور پر وی لاگرز کے لیے کوئی بھی خبر تصدیق کے بغیر دینا مشکل ہو گا۔ اس ترمیم کے معاملے میں، غیر معقول اختیارات ایگزیکٹو برانچ کے پاس رکھے گئے ہیں۔ وفاقی حکومت سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کو نہ صرف اس کی ساخت اور پالیسی سے متعلق ہدایات جاری کرکے کنٹرول کر سکتی ہے بلکہ سوشل میڈیا کمپلینٹ کونسل اور سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹریبونل میں بھی ممبران کی تقرری کرتی ہے جس سے غیر جانبداری پر شدید تحفظات پیدا ہوتے ہیں۔ ٹربیونل کے ممبران کی تقرری بھی حکومت کرے گی جو ایک عدالتی فورم ہے، یہ کام عدالت کا ہے، حد سے زیادہ اور مبہم نوعیت کی وجہ سے اس قانون کی شخصی تشریحات کا خطرہ موجود رہے گا۔ پاکستان میں ہمیشہ ایسا ہوا ہے، قوانین تو ہر دور میں رہے ہیں لیکن ہمیشہ افراد کو سامنے رکھ کر قانون بنایا جاتا ہے اور استعمال بھی اسی طریقے سے ہوتا ہے، پیکا بھی پرانی شراب، نئی بوتل، نئے کھلاڑی ہے۔