ColumnImtiaz Aasi

اپوزیشن جماعتیں تحریک چلا سکیں گی؟

تحریر : امتیاز عاصی
کسی حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کی تحریک اسی وقت کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہے جب سیاسی جماعتوں کے قائدین کا مطمع نظر ایک ہو۔ اس وقت اپوزیشن کی بڑی جماعت پی ٹی آئی کا جن جماعتوں سے اتحاد ہے ان میں سٹریٹ پاور کا فقدان ہے۔ ایک مرحوم نواب زادہ نصراللہ خان تھے جن کے پاس سٹریٹ پاور نہ ہوتے ہوئے وقت کے بڑے بڑے آمر خائف رہتے تھے۔ ایوب خان کے خلاف تحریک کے روح رواں نواب زادہ صاحب تھے ۔ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک میں پیش پیش رہے اور جنرل ضیاء الحق کے خلاف ایم آر ڈی کا قیام انہی کی کاوشوں کا نتیجہ تھا۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کا الائنس بنانے والے وہی تھے۔ نواب زادہ صاحب کی راست بازی اور عہدوں کے لالچ سے مبرا سیاست نے انہیں بلند مقام پر پہنچایا اگر یہ نہ کہا جائے تو غلط ہوگا ملکی سیاست میں ایک راست باز سیاست دان کی حیثیت سے نواب زادہ صاحب کا نام آج بھی زندہ ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے علاوہ ملک کی ہر جماعت گزشتہ انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیتی ہے خصوصا جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمٰن انتخابات کو سرے سے تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ گو حکومت مخالف جماعتیں کسی تحریک کے آغاز کی طرف رواں دواں ضرور ہیں مگر حقیقت میں دیکھا جائے تو ماسوائے پی ٹی آئی کے کوئی جماعت سڑکوں پر آنے کو تیار نہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے پی ٹی آئی ، جے یو آئی، شاہد خاقان عباسی کی جماعت اور محمود اچکزئی حکومت مخالف تحریک چلانے کے لئے پر تول رہے ہیں تاہم جب تک جے یو آئی حکومت کے خلاف چلائی جانے والی تحریک کا بھرپور ساتھ نہیں دیتی حکومت کے خلاف کوئی تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی۔ علاقائی جماعتوں میں جے یو آئی واحد جماعت ہے جس کے پاس سٹریٹ پاور ہے خواہ وہ مدار س کی طلبہ کیوں نہ ہوں مولانا چاہیں تو انہیں سڑکوں پر لا سکتے ہیں۔ شائد اسی خدشے کے پیش نظر وزیراعظم شہباز شریف اگلے روز مولانا کی قیام پہنچ گئے اور انہیں گلدستہ پیش کرتے ہوئے ان کی خریت دریافت کی۔ پاکستان کی سیاست میں سب سے بڑی رکاوٹ منافقت ہے جس روز سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں میں منافقت ختم ہو جائے گی ملکی سیاست میں بڑی تبدیلی کی توقع کی جا سکتی ہے۔ جے یو آئی کے امیر بڑے سیانے سیاست دان ہیں وہ گرم جگہ پر پائوں رکھنے سے ہمیشہ گریزاں رہتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کوئی مانے نہ مانے اور بات ہے وہ عمران خان کے اقتدار میں آتے کے ساتھ ان کے خلاف سرگرم ہو گئے تھے۔ یہ بات ممتاز صحافی اور کالم نگار حاجی نواز رضا نے اپنی کتاب میں وضاحت کے ساتھ تحریر کی ہے جس کی مولانا نے آج تک تردید نہیں کی۔ آئین میں 26ترمیم کے بعد سیاسی جماعتوں کو اعلیٰ عدلیہ سے حصول انصاف کی امید کم رہ گئی ہے ۔ جوڈیشل کمیشن میں حکومت نمائندگی زیادہ ہونے کے بعد من پسند ججوں کے تقرر میں آسانی ہو گئی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے معاملے میں دیکھ لیں آئین میں ہائیکورٹس کے ججوں کو دوسرے صوبوں میں بدلنے کا اختیار صدر مملکت کے پاس ضرور ہے تاہم اس مقصد کے لئے ضابطے کی کچھ کارروائیاں پوری کرنا ضرور ی ہیں۔ اہم بات یہ ہے جب کسی دوسرے صوبے کے جج کو کسی دوسری ہائیکورٹ میں تبدیل کرنا مطلوب ہو تو نئے آنے والے جج کو ایک مرتبہ ازسر نو حلف اٹھانا ہوتا ہے لیکن اسلام آباد ہائیکورٹ کے معاملے میں آئین میں دی گئی اس ضرورت کو پورا کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ہے۔ لاہور ہائیکورٹ سے اسلام آباد ہائیکورٹ آنے والے جج ازسر نو حلف لیتے ہیں تو سینیارٹی میں وہ جونیئر ہو جاتے ہیں۔ دراصل حکومت کا انہیں تبدیل کرنے کا مقصد بڑ ا واضح ہے انہیں آنے والے وقت میں اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیف جسٹس مقرر کرنا مقصود ہے لہذا اسی لئے ازسرنو حلف اٹھانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ہے ۔ حکومت نے لاہور ہائیکورٹ سے جج کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں لانے کے سلسلے اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کو پس پشت ڈال کر نئی روایت قائم کی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے بعض قائدین کے نزدیک عہدے اور منصب ہی سیاست ہے لہذا انہی وجوہات کی بنا سیاسی جماعتیں جمہوریت اور عدلیہ کی بالا دستی کے ضمن میں منقسم ہیں۔ مہنگائی اور بے روز گاری کے مارے عوام کس طرف جائیں سیاست دانوں نے ان سے جھوٹے وعدے کرنے کا عہد کر رکھا ہے کوئی حکومت مہنگائی ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی نہ بے روز گاری کے خاتمے کے لئے کسی حکومت نے اقدامات کئے ہیں۔ غریب عوام کو پرسا دینے کے لئے جھوٹے وعدوں پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ عمران خان کی جماعت جو بظاہر ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے وقت گزرنے کے ساتھ اس میں دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ ایک طرف عمران خان اپنے وزیراعلیٰ کو حکومتی وزراء سے میل ملاپ رکھنے سے منع کرتا ہے، دوسری طرف اس کا وزیراعلیٰ انہی سے ملاقاتیں کرتا ہے۔ اگر ہم اس معاملے کے دوسرے پہلو پر غور کریں تو ایک صوبے کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے وفاقی وزراء سے ملنا اس کی مجبوری ہے۔ وفاقی حکومت سے صوبے میں امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر وزیراعلیٰ کا ہمہ وقت رابطہ ضروری ہے۔ سیاسی صورتحال کے تناظر میں دیکھا جائے تو پی ٹی آئی منقسم ہو چکی ہے وہ جے یو آئی کے بغیر حکومت کے خلاف کسی قسم کی تحریک چلانے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ جے یو آئی کے امیر پر حکومت مخالف تحریک چلانے کے سلسلے میں بھروسہ ممکن نہیں، نہ وہ کسی ایسی تحریک کا حصہ بنیں گے، جس سے وہ حکومت مخالف تحریک چلا کر اداروں کی ناراضی کا باعث بنیں گے۔ پی ٹی آئی نے علاقائی جماعتوں سے مل کر تحریک چلائی تو بھی ایسی تحریک اتنی جلدی زور نہیں پکڑ سکے گی۔ سانحہ ڈی چوک کے بعد پی ٹی آئی کے ورکرز میں دم خم نہیں رہا ہے وہ حکومت کے خلاف سڑکوں پر آئیں۔ پاکستان کی تاریخ گوا ہ ہے سیاست دانوں کی حکومت مخالفت تحریکیں اداروں کی پشت پناہی کے بغیر ممکن نہیں، لہذا عمران خان کی جماعت کو آئندہ الیکشن تک انتظار کرنا پڑے گا۔

جواب دیں

Back to top button