آرمی چیف سے LTجنرل احمد شریف تک

تحریر : راجہ شاہد رشید
نہ صرف نثری ادب کے انبار لگے ہیں بلکہ شاعری کے بھی دیوان بھرے پڑے ہیں تقسیم ہند کے حوالے سے بائیں بازو کی فکری تنظیموں کی جانب سے اکثر ایسے بیانیے بنائے اور پھیلائے جاتے ہیں کہ انڈیا اور پاکستان کے مابین تعلقات میں بہتری اور مضبوطی آنی چاہیے اور ویزوں میں آسانی ہونی چاہیے کیونکہ دیگر اقوام و ممالک سے تو محض مذہب اور افکار و خیال کے رشتے ہیں جبکہ ہم اہل ہند و پاک کے آپس میں نسب و خون کے گہرے اور سانجھے رشتے ناطے اور رابطے و واسطے ہیں۔ استاد دامن لہوری جی کے الفاظ میں:
لالی اکھیاں دی ایہہ پئی دسدی اے
روئے تُسی وی ہو روئے اسی وی آں
فیض احمد فیض، ساحر لدھیانوی، نون میم راشد، سجاد ظہیر، احمد فراز سمیت متعدد ترقی پسند سُرخے ساری زندگی یہی رونا روتے رہے کہ ’’ہِک مِک ہو کے رہن دا دے گئی اے بیان امرتا پریتم‘‘۔ واضح رہے کہ میری اپنی ایک پنجابی شاعری کی کتاب ’’ اگ وچ پُھل‘‘ کا انتساب بھی امرتا پریتم کے ہی نام ہے۔ نظریہ پاکستان اور دو قومی نظریہ کو دفن فرما کر ہم سالوں’’ امن کی آشا‘‘ کو ہی عام کرتے رہے۔ انہیں مرحوم لکھنے کو دل نہیں مانتا میرے محسن و محترم حمید اختر سے میری بے پناہ محبت و نیاز مندی تھی، انہوں نے میری ایک کتاب کے لیے دیباچہ بھی لکھا تھا، موصوف اپنے ہر دوسرے کالم میں اپنے لدھیانہ کو یاد کرتے تھے اور روتے تھے فریاد کرتے تھے کہ کاش پاکستان بھارت بھائی بھائی بن جائیں۔ ہم پنجابی ادبی سنگت اور ورلڈ پنجابی کانگرس ایسے کئی ادبی اور ثقافتی فورمز سے بار بار وارث شاہ جی کی کو بھی جگاتے رہے۔ اس ضمن میں سعادت حسن منٹو کے افسانوں اور برصغیر کے نامور ادیبہ محترمہ امرتا پریتم کی اس نظم کو بین الاقوامی سطح پر بے حد مقبولیت نصیب ہوئی۔
اج آکھاں وارث شاہ نو کِتوں قبراں وچوں بول
تے اج کتابِ عشق دا کوئی اغلا ورقہ پھول
ہِک روئی سی دھی پنجاب دی تو لِکھ لِکھ مارے وین
اج لکھاں دھیاں روندیاں تینوں وارث شاہ نوں کہن
اُٹھ درد منداں دیاں دردیا آ کے تک اپنڑاں پنجاب
اج بیلے لاشاں وچھیاں تے لہو نال بھری چناب
ایسے نظریات سے اور ایسی سوچوں سے میرا ذاتی طور پہ بالکل بھی کوئی اختلاف نہیں ہے۔ یہ سب باتیں اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہوں گی لیکن سوچنا تو یہ ہے کہ تالی کبھی ایک ہاتھ سے بھی بجی ہے کیا؟۔ حکومت پاکستان نے مختلف ادوار میں متعدد بار نرمی کا مظاہرہ کیا، محبت کا اظہار کیا اور بہتر تعلقات اور دوستی کے لیے بھی ہاتھ بڑھایا مگر انڈیا کی ہٹ دھرمی، جنون اور انتہاپسندی میں کہیں کوئی کمی نظر نہیں آئی بلکہ اضافہ ہی ہوتا رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ظلم کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں، انسانی خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ ساری دنیا یہ بھارتی مظالم دیکھ رہی ہے، کسی سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں رہا اور اب تو انڈین انتشار اور سازشیں آزاد کشمیر تک بھی آن پہنچی ہیں۔ ان حالات میں سپہ سالار نے بروقت اور برحق صدا سر بلند فرمائی ہے، ISPRکے مطابق جی ایچ کیو راولپنڈی میں 267ویں کور کمانڈر کانفرنس میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کہا کہ ’’ بھارتی فوج کے کھوکھلے بیانات ان کی بڑھتی ہوئی مایوسی کی نشاندہی کرتے ہیں، اس قسم کے بیانات اپنے عوام اور عالمی برادری کی توجہ بھارت کے اندرونی خلفشار اور اس کی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی مہم جوئی کا پاکستان مکمل طاقت کے ساتھ جواب دے گا، ان شاء اللہ پاکستان آرمی ملکی خود مختاری اور سالمیت کے دفاع کے لیے پوری طرح تیار ہے‘‘۔ اپنی تجربہ کار اور بہادر افواج کے لیے شاہد رشید نے کوئی ’’ ایویں‘‘ ہی نہیں یہ ترانہ لکھ دیا تھا کہ
ایک مسلم سا کسی کا اُوج نہیں ہے
پاک فوج جیسی کوئی فوج نہیں ہے
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (ISPR)کے مطابق بسلسلہ پانچ فروری آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے مظفرآباد کا دورہ کیا، شہدا کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کیا، جموں و کشمیر یادگار گئے وہاں یادگار شہداء پر پھولوں کی چادر چڑھائی، ان کی بے مثال قربانیوں کو سراہا، کشمیر میں جاری مشکل ترین آپریشنل حالات میں متعین افسران اور جوانان کی غیر متزلزل لگن، پیشہ ورانہ برتری اور جنگی تیاری کی بھی تعریف کی۔ جنرل سید عاصم منیر نے’’ مسلح افواج کی جنگی تیاریوں پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا اور یقین دہانی کرائی کے کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دیا جائے گا، کشمیر کی خاطر تین جنگیں لڑیں، دس مزید بھی لڑنا پڑیں تو لڑیں گے، کشمیر بنے گا پاکستان‘‘۔ اپنے سپہ سالار کی یہ بات مکمل سچ بلکہ برحق ہے کہ بے شک مسلمان کبھی دشمن کی تعداد یا ہتھیاروں سے نہیں گھبراتا۔ ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ کی بنیاد پر اللہ کا گروہ ہی ہمیشہ غالب رہے گا۔ تاریخ شاہد ہے کہ ہم مسلم ہی ہیں جو 313ہو کر بھی ہزاروں کا مقابلہ کر کے فتح اور نصرت حاصل کرنے والے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری قوم سپہ سالار اور ان کی اس للکار کے سنگ سنگ رہیں اور سب کی ایک ہی پکار ہونی چاہیے کہ پاک وطن کو اور پاک فوج کو سلام۔ میری نظر میں پاک فوج کے موجودہ ترجمان یعنی پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ( ISPR)کے ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری انتہائی محنتی اور متحرک بلکہ ایک اچھوتے اور منفرد فوجی جرنیل ہیں جو علم و حکمت اور ازحد تحمل و تدبر والے ہیں ۔ موصوف جب بھی بولتے ہیں تو استدلال اور استقلال کے ساتھ مثبت اور سبق آموز بات کرتے ہیں ، بلاشبہ ان کا اندازِ تکلم بھی باوقار اور شاندار ہے بلکہ باکمال و لاجواب بھی ہے ۔ گزشتہ دنوں ڈائریکٹر جنرل ISPRلیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے وزیراعظم کی یوتھ کونسل اوورسیز سے ملاقات کی اور یوتھ کونسل بیج کے نوجوانان سے مکالمہ بھی کیا، ڈی جی آئی ایس پی آر نے یوتھ کونسل کے نوجوانان پر پاکستان کی اہمیت، اس کے نظریے اور ملک سے محبت کو اجاگر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ پاکستان 27رمضان کے بابرکت دن کو وجود میں آیا اور یہ اللہ کا معجزہ ہے کہ پاکستان ریاست مدینہ کے ساتھ مماثلت رکھتا ہے جو ریاست طیبہ ہے، ہمارے لیے ملک کی قدر و منزلت اس سے محبت اور اس کی اہمیت کو سمجھنا ضروری ہے، ہمیں پاکستان کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈے اور اس کے خلاف آنے والی فیک نیوز کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا کہ ہم فوج سے ہیں اور فوج ہم سے ہے، جو لوگ بھی پاکستانی عوام بالخصوص نوجوانوں اور فوج میں خلیج پیدا کرتے ہیں انہیں رد کیا جائے۔ بلوچستان اور دیگر صوبوں کے حوالے سے محرومی کا جھوٹا بیانیہ بنایا جاتا ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں، یہ جھوٹے اور ملک دشمن لوگ لاپتہ افراد کا جھوٹا بیانیہ بناتے ہیں حقیقت اس کے برعکس ہیں۔ ان ملک دشمن عناصر کو پاکستان کی ترقی ہضم نہیں ہوتی اور یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں‘‘۔ واقعی شتر بے مہار سوشل میڈیا کو لگام ڈالنا ضروری ہو گیا ہے جہاں ہر کوئی صحافی بنا بیٹھا ہے اور نہ صرف من گھڑت خبریں بلکہ بدگمانی اور بے حیائی بھی پھیلائی جا رہی ہے لیکن میں اپنی صحافتی تنظیموں سے بھی متفق ہو کہ یہ پیکا ایکٹ درحقیقت اہل صحافت کے پائوں میں بیڑیاں اور ناک میں نکیل ڈالنے کے مترادف ہے، کل میں نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو اس اتحادی حکومت کا پیکا ہے یہ میڈیا کو لگانے کے لیے بے ہوشی اور خاموشی کا ایک ٹیکا ہے۔ میرا یہ پرزور مطالبہ ہے کہ پیکا ایکٹ کو صرف سوشل میڈیا پر ہی لاگو ہونا چاہیے۔