ColumnTajamul Hussain Hashmi

کتاب میر ’’سچ بولنا منع ہے‘‘

تحریر : تجمل حسین ہاشمی
محترم سجاد اظہر نے اپنی فیس بک وال پر محترم حامد میر کی نئی کتاب ’’سچ بولنا منع ہے‘‘ کو شیئر کیا تو میں سمجھ گیا کہ میر صاحب کی کتاب سچ گوئی سے بھرپور ہوگی کیوں کہ میر صاحب پاکستانی سیاست کی اونچ نیچ کو خوب سمجھتے ہیں۔ میر صاحب حکومتی حلقوں میں پکے باخبر صحافی ہیں۔ میرے لئے ایک اچھی کتاب پڑھنے کا اچھا موقع ہے۔ اس سے پہلے بھی میں جناب رئوف کلاسرا، جناب سجاد اظہر اور دیگر کئی صحافیوں کی کتابیں پڑھ چکا ہوں۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ایسے نایاب ہیرے ہمارے پاس ہیں جن سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ کتاب میر دیکھ کر مجھ سے رہا نہیں گیا۔ میں نے فورا محترم میر صاحب کو میسج کیا اور درخواست کی کہ میں آپ کی کتاب کا طالب ہوں۔ میری خواہش کو پورا کیا گیا۔ میر صاحب نے اپنے پبلشر کو میرا نمبر دیا۔ اگلی صبح ہی جناب محمد فہد صاحب کا فون آیا اور مجھے کتاب کراچی کے پتہ پر بھیج دی گئی۔ میں میر صاحب اور محترم فہد صاحب کا شکر گزار ہوں۔ مجھے یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی کہ محمد فہد کا تعلق میرے آبائی علاقہ سے ہے۔ محمد فہد بہترین انسان ہیں۔ ان کے رسپانس سے مجھے اندازہ ہوگیا کہ بہت ہی ذمہ دار انسان ہیں۔ کتاب کے پہلے صفحہ پر مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے نام پیغام سے بھی اندازہ ہوگیا تھا کہ پڑھنے میں یقیناً چس آئے گی۔ میر صاحب نے محمد فہد (عکس پبلیشر) کی محنت کو سراہ کر محبت کا حق ادا کر دیا۔ یقیناً یہ خوشی کی بات ہے کہ ایک کامیاب انسان کو دوسرے انسان کی محنت کی قدر ہے۔ میر صاحب کا سچا پن ان کے خوب صورت الفاظ سے واضح ہے جو انہوں نے ادا کئے ہیں۔ میں نے فوراً کتاب کی فہرست پر نظر ڈالی تو میری بے چینی میں مزید اضافہ ہوگیا کیوں کہ میر صاحب نے پاکستان کے اہم ترین ان پانچ سالوں کی سچ گوئی کی ہے، جو ملک کے اہم ترین سال ہیں۔ ان پانچ سالوں میں تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی جو پہلے کبھی نہیں ہوئی، مقبوضہ جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت کو تبدیل کیا گیا، افغانستان میں سپر پاور کو شکست ہوئی، پاکستان کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے پر زور دیا گیا۔ اسی عرصہ میں کرونا بھی آیا۔ یہ تاریخ 2018سے شروع ہوئی جب وزیراعظم عمران خان بنے۔ یہ پانچ سال ان گزرے 70 سالوں پر بھاری رہے۔ ان تمام واقعات کو میر صاحب پہلے ہی قلم بند کر چکے تھے، جو اب اس کتاب کی شکل میں یکجا ہیں۔ ان سالوں میں صحافیوں پر تشدد، میر صاحب پر حملہ اور حکومتی پابندیوں کا سامنا بھی رہا۔ میرے خیال میں یہ کتاب پاکستان کے ہر فرد کو پڑھنی چاہئے تاکہ سب کو ملکی حالات کا صحیح ادراک ہوسکے۔ میں نے نامی گرامی صحافیوں کو پڑھا ہے، تمام حضرات کمال کے لکھاری ہیں لیکن حامد میر کی کتاب میں پاکستانی اداروں کے سربراہان اور سیاست دانوں کے ان کار ناموں کو تڑکا دیا ہے جن کی وجہ سے عوامی مفادات کو نقصان ہوا۔ ملک کو بھی خراب معاشی صورتحال کا سامنا ہے۔ میر صاحب نے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بیانیہ پر میاں افتخار حسین کے الفاظ جس میں میاں افتخار حسین نے نواز شریف کو مخاطب کیا اور کہا کہ ہم آپ کے اتحادی نہیں لیکن ووٹ کی عزت کیلئے آپ کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے کہا میرا اکلوتا بیٹا میری سیاست کی وجہ سے شہید کیا گیا، کیوں کہ میں آئین اور ووٹ کے تقدس کی بات کر رہا ہوں۔ مجھے اپنے بیٹے کی قربانی پر فخر ہے اور میں مزید قربانی کیلئے تیار ہوں۔ ہال میں موجود افراد سے بھی حلف لیا گیا۔ حامد میر صاحب نے اصغر خان کیس پر تفصیلی روشنی ڈالی، اس کے بعد ملک میں موجود کئی غلط فہمیوں کا پردہ چاک ہوا ہے۔ لکھاری کا کام ہی معاملات کو حقیقت کی چکی میں چھان کر عوام کے سامنے لانا ہوتا ہے، اسی طرز عمل سے معاشرہ مضبوط اور جمہوریت مضبوط ہوتی ہے۔ آج کل سوشل میڈیا کے گند نے معاشرتی قدروں کو نقصان دیا ہے۔ ایسی صورت حال میں ملک کے لکھاری طبقہ کو سامنے آکر اپنے لوگوں کی اصلاح کرنی چاہئے۔ محترم حامد میر اور دوسرے قابل صحافیوں کی لکھی گئی کتابیں نئی نسل کیلئے مشعل راہ ہیں۔ ملک کی مضبوطی میں چوتھے ستون کا اہم کردار ہے لیکن بدقسمتی سے جو بھی سیاسی جماعت اقتدار میں آئی اس نے سچ گوئی کو دبایا ہے، کبھی عزت نہیں بخشی۔ بلکہ سچ بولنے کو گناہ سمجھا گیا ہے۔ پیکا کے قانون میں بھی اصطلاحات کی ضرورت ہے لیکن کوئی سمجھنے کیلئے تیار نہیں۔ سچ لکھنے والوں کیلئے مشکل حالات پیدا کئے لیکن سچ گوئی میں ہی کامیابی ہے۔ سچ کو تسلیم کرنا ترقی پاکستان ہے۔ سچ حیات پاکستان ہے، اس حیات کو زندہ رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

جواب دیں

Back to top button