خواب خواہشیں ادھوری نہ رہیں

تحریر : سیدہ عنبرین
پاکستان میں گزشتہ اڑھائی برس سے جاری تیز رفتار ترقی کرتی معیشت کا پول تو اسی روز کھل گیا تھا جب ایک عالمی ادارے نے واضح کیا کہ شرح نمو کا مقرر کردہ ہدف 3.5فیصد حاصل نہ ہوسکے گا لہٰذا اب اسے 3فیصد کئے دیتے ہیں۔ عالمی ادارے یوں ہم پر مہربان نہیں ہوتے، وہ ہمارے ماں جائے نہیں ہیں، اس سہولت کی ہم نے کیا قیمت چکائی یہ منظر عام پر اچانک آ جائے گا، انہیں ہم جیسا ایک گونگا بہرا گاہک ہاتھ لگ چکا ہے جیسے ہر وقت ہر زمانے میں ہر ناپسندیدہ شرح سود پر قرض لینا گوارا ہوتا ہے۔ یہ ایک قیمت بھی ان کیلئے غنیمت ہے جو شاید اور کوئی ادا کرنے کیلئے بآسانی تیار نہ ہوتا ہو۔
نئی خبر گزشتہ 5برس میں ساڑھے 55ارب روپے کی اس واردات کی ہے جسے ملمع چڑھانے کے بعد تجارتی تضاد کہا گیا ہے، سادہ لفظوں میں یہ وہ فراڈ ہے جو کاروباری طبقہ عرصہ دراز سے جاری رکھے ہوئے ہے، یعنی ’’انڈر انوائسنگ‘‘ مال کی قیمت درحقیقت کچھ اور ہوتی ہے، کاغذات میں اسے کچھ اور ظاہر کیا جاتا ہے اور دہرے نہیں تہرے فائدے حاصل کئے جاتے ہیں۔ منی لانڈرنگ کے واقعات اس کے علاوہ ہیں جبکہ کھربوں روپے کی ٹیکس چوری بھی ذرائع رپورٹ کر چکے ہیں۔ اس حوالے سے اطلاعات یوٹیوبرز نے نہیں پہنچائیں، جن سے سرکار شاکی رہتی ہے بلکہ یہ تفصیلات اس میڈیا ہائوس کے قومی اخبار نے پہنچائی ہیں جو حکومت کا منظور نظر ہے، بندرگاہوں کے ڈیجیٹلائزیشن میں دنیا بھر میں 32آپشنز اختیار کئے جاتے ہیں، ہم فقط 11پر تکیہ کئے بیٹھے ہیں۔ کے پی ٹی اور پورٹ قاسم کے 4سے 6آپشنز ڈیجیٹائزڈ ہیں جن سے کام چلایا جارہا ہے، ہمارے یہاں فراڈ کے ایسے ایسے طریقے دریافت کئے جاچکے ہیں جو دنیا میں کہیں نہیں ہیں۔ یہ بتانا اور تحریری طور پر دینا ضروری ہوتا ہے کہ منگوایا جانے والا یا بھجوایا جانے والا مال کیا ہے۔ منگوانا کچھ بھیجنا کچھ اور ظاہر کرنا کچھ اور ایک معمول کی پریکٹس ہے، جدید سکینر نصب ہوچکے ہیں تو پھر یہ معاملہ رک جانا چاہئے تھا لیکن نہیں رکا تو اس میں سکینر کا قصور نہیں، سکینر جو کچھ ظاہر کر رہا ہے وہ ہم نہیں پڑھنا چاہتے یا جو کچھ وہ دکھا رہا ہے ہم خانہ پری کیلئے کچھ اور لکھ کر کسی اور سستے مال کی ڈیوٹی لگا کر مال اندر یا باہر کر دیں تو سکینر کو دوش نہیں دیا جاسکتا۔
خبر دینے والے ذرائع نے جو تفصیلات فراہم کی ہیں ان میں سب سے زیادہ پریشان کن تفصیل یہ ہے کہ صرف چین کے ساتھ تجارت میں ساڑھے 5ہزار ارب روپے کا فرق سامنے آیا ہے۔ خلا کہاں کہاں ہے یہ سب جانتے ہیں لیکن اگر اس طرف سے آنکھیں بند رکھی جارہی ہیں تو اس کے ذمہ داروں کیخلاف گزشتہ 5برس میں کوئی کارروائی کیوں نہیں ہوئی یہ بھی ایک اہم سوال ہے۔ کرپٹ عناصر کیخلاف کسی کارروائی کا نہ ہونا اور ان کا اپنی سیٹوں، اپنے منصب پر برقرار رہنا نظام چلانے والے کل پرزوں کی حقیقت کھولنے کیلئے کافی ہے۔
تمام دنیا میں امپورٹ ایکسپورٹ سرگرمیوں میں ’’پوائنٹ آف اوریجن‘‘ اور سامان کا کوڈ بتانا ضروری ہے، اس کے بغیر نہ کچھ منگوایا جاسکتا ہے نہ کچھ کہیں بھیجا جا سکتا ہے لیکن پاکستان میں اس کے بغیر ہی سب کچھ ہوسکتا ہے۔ مال کی قیمت میں ہیر پھیر کرکے ٹیکس ری فنڈ حاصل کرکے قومی خزانے کو اربوں کا نقصان پہنچانے والے ہر مرتبہ پردوں کے پیچھے چھپنے میں کامیاب رہتے ہیں۔
ون ونڈو یا سنگل ونڈو آپریشن کے بہت چر چے ہیں، اس سے یقیناً کاروباری طبقے کو سہولت ہوتی ہے لیکن اس ونڈو پر بیٹھنے والے کام کرنے والے اگر بددیانت ہیں تو وہ اپنے اختیارات سے فائدہ اٹھا کر حکومت کو اور ملک کو کتنا نقصان پہنچا رہے رہیں یا اب تک پہنچا چکے ہیں اس کا شاید درست تخمینہ نہ لگایا جا سکے۔ ان تمام غلط پریکٹسز کے باوجود ڈھنڈورا یہ پیٹا جاتا ہے کہ قوم ٹیکس نہیں دیتی جبکہ حکومت کے ذمہ داروں کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق تنخواہ داروں کی طرف سے انکم ٹیکس کے زمرے میں ادا کردہ رقوم کاروباری طبقے سے 3سو گنا زیادہ ہیں، صرف ان اعدادوشمار سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کاروباری دنیا کے گھپلے کیا کیا ہیں، یہ سب کچھ وہ تنہا نہیں کر سکتے، سسٹم ان کے ساتھ مل کر اپنا حصہ بقدر جثہ وصول کرتا ہے، کرپشن سے حاصل کردہ دولت عام آدمی کی نہیں ہے، نہ ہی بیرون ملکوں کے بینکوں میں پڑے کئی ہزار ارب ڈالر گریڈ 1سے گریڈ 15میں کام کرنے والے ملازمین کے ہیں۔
ایک میڈیا رپورٹر کی طرف سے پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں وزیر خزانہ سے سوال کیا گیا کہ 60ہزار ماہانہ تنخواہ حاصل کرنے والے شخص کو فائلر نہ ہونے پر اس کی فون سم بند کر دی گئی لیکن دبئی بھجوائے گئے 12ارب ڈالر اور ایک اور اہم شخصیت کے مطابق یہ 22ارب ڈالر ملک سے چوری چوری باہر لے جانے والوں کے خلاف اب تک کوئی کارروائی سامنے نہیں آئی۔ وزیر خزانہ کا جواب آج بھی آن ریکارڈ ہے، ان سے کوئی معقول جواب نہ بن پڑا، پھر ساتھ بیٹھے ایک اور سرکاری افسر ان کی مدد کیلئے آگے بڑھے اور بتانے لگے کہ بہت کچھ ہورہا ہے، یہ سب کچھ تا ایں دم سامنے نہیں آیا۔ ڈاکوئوں نے نام صیغہ راز میں ہیں، نہ ان کے گھر سیل ہوئے نہ دفتر نہ ان کی گاڑیاں ضبط ہوئیں نہ ان کیخلاف مقدمات قائم ہوسکے۔ گزشتہ برس 70ارب روپے کی منی لانڈرنگ کے کیس کی بہت دھوم تھی، یہ معاملہ قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی تک پہنچا، اس میں ملوث بینکوں کے نمائندوں کو بھی طلب کیا گیا جنہوں نے بغیر لگی لپٹی رکھے اقرار جرم کیا۔ تفصیلات تو ان کے سامنے رکھی تھیں انکار کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ 3بینکوں نے مزید تفصیلات سامنے رکھ دیں، انہیں مجموعی طور پر 9کروڑ جرمانہ کرکے ان کی جان بخشی کردی گئی لیکن اصل مالکان کمپنی جنہوں نے یہ واردات کی قانون ان تک ابھی تک نہیں پہنچ سکا، اسے سواری نہیں مل سکی یا وہ راستہ بھول گیا ہے، کوئی اس حوالے سے لب کھولنے کو تیار نہیں۔ قوم کا غم کم کرنے کیلئے سرکاری طور پر خبر سنائی گئی ہے کہ مہنگائی گزشتہ 9برس کی کم ترین سطح پر آچکی ہے۔ قوم کا کوئی فرد اس پر اعتبار کرنے کیلئے تیار نہیں کیونکہ اپنے ہاتھ سے ڈیڑھ سو روپے لٹر پٹرول، 55روپے کلو چینی اور 50روپے کلو آٹا خرید چکا ہے، وہ قریباً 100فیصد بڑھی ہوئی قیمتوں پر اشیائے صرف خرید کر اس پکے راگ پر سر کیسے دھن سکتا ہے، یہ کام تو سرکاری دانشوروں کا ہے وہ اسے بخوبی ادا کر رہے ہیں۔ اصرار یہ ہے کہ اس سسٹم کو مزید 4برس چلنے دیا جائے تاکہ کوئی خواب کوئی خواہش ادھوری نہ رہ جائے۔