ColumnImtiaz Aasi

بلوچستان کا سر سید

تحریر : امتیاز عاصی

نابغہ روزگار ظفر اقبال قادر آرمی میں کمیشن حاصل کرنے کے بعد کیپٹن بنا تو پاکستان کی سول سروس میں سفارش سے ضم ہونے کی بجائے ملازمت سے استعفیٰ دے کر سول سروس کا امتحان پاس کیا تو ڈی ایم جی گروپ الاٹ ہوا۔ اسسٹنٹ کمشنر بن کر آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے اور پسماندہ صوبے بلوچستان بھیج دیا گیا۔ یوں تو بلوچستان نے تعلیمی سہولتوں کے فقدان کے باوجود بیوروکریسی میں کئی نام پیدا کئے جن میں راست باز احمد بخش لہڑی، سکندر جمالی، پیر بخش جمالی، غیاث الدین اور ناصر الدین کا شمار ان بیوروکریٹس میں ہوتا ہے جو ملازمت کی معراج تک پہنچے۔ خوبصورتی کے لحاظ سے منفرد مقام کا حامل یہ صوبہ عشروں غیرملکی سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہا جس سے ہمارا ملک خاطر خواہ زرمبادلہ کماتا تھا۔ دہشت گردی کے عفریت سے غیرملکی سیاحوں کی آمد ایسی بند ہوئی جو ابھی تک بند ہے۔ پنجاب اور دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے سول سروس کے افسر بلوچستان تعیناتی سے لیت و لعل کرتے ہیں۔ ڈاکٹر ظفر اقبال قادر نے اپنی ملازمت کے بیس برس بلوچستان میں مختلف عہدوں پر خدمات سرانجام دیتے گزار دیئے۔ جنرل مشرف نے اقتدار پر شب خون مارا تو بیوروکریٹس کی فہرست دیکھ کر حیران ہوئے، ظفر اقبال قادر کو بلوچستان میں ملازمت کرتے بیس برس ہوگئے جس کے بعد انہیں وفاق میں بھیج دیا گیا۔ یہ ان کی گوناگوں صلاحیتوں کا ثمر تھا، وفاقی حکومت نے انہیں جنیوا میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں اکنامک منسٹر کے عہدے پر فائز کیا، جہاں انہوں نے چار سال تک کامیابی سے خدمات انجام دیں۔ وطن واپس آئے تو صدر آصف علی زرداری کے ایڈیشنل مقرر ہوئے جس کے بعد انہیں وزارت پٹرولیم کا ایڈیشنل سیکرٹری لگا دیا گیا۔ پاک ایران گیس پائپ لائن کا معاہدہ مشہد میں انہی کے ہاتھوں ہوا۔ ابھی وزارت آئی ٹی کے ایڈیشنل سیکرٹری انچارج لگائے گئے تھے، انہیں این ڈی ایم اے کا پہلا سول چیئرمین مقرر کیا گیا، جہاں سیلابوں کے دوران ملک کے دور افتادہ علاقوں کے متاثرین کی دن رات خدمت میں مصروف رہے۔ مرنجاں مرنج شخصیت ڈاکٹر ظفر قادر نے بلوچستان تعیناتی کے دوران تعلیم فائونڈیشن کی بنیاد رکھی۔ بلوچستان اور وفاق میں خدمات کے دوران تعلیم فائونڈیشن کے امور کی دیکھ بھال کرتے رہے۔ بلوچستان میں تعلیم فائونڈیشن کے تمام سکولوں کی عمارات فائونڈیشن کی ملکیت ہیں، جو اپنی مدد آپ کے تحت تعمیر کی گئی ہیں۔ تعلیم فائونڈیشن کے تعلیمی اداروں میں پنجاب سے تعلق رکھنے والی دو سو کے قریب خواتین اساتذہ طالبات کو تعلیم سے آراستہ کر رہی ہیں جہاں انہیں بورڈنگ کی سہولت بھی فراہم کی گئی ہے۔ ایک سال قبل ہمیں تعلیم فائونڈیشن کے سکول ژوپ کی تقریب میں شرکت کا موقع ملا تو سکول کی عمارت اور طالبات کا نظم و ضبط دیکھ کر حیرت ہوئی، ژوپ جیسے دور افتادہ علاقے میں طالبات کیلئے ایک معیاری درس گاہ کا قیام جان جوکھوں کا کام تھا، تاہم ڈاکٹر ظفر اقبال قادر نے پسماندہ صوبے کی طالبات کو زیور تعلیم سے آراستہ کرانے کی جدوجہد جاری رکھی۔ چنانچہ وقت گزرنے کے ساتھ ڈاکٹر ظفر قادر نے کوئٹہ، کھاران، سوئی، مسلم باغ اور جگ مگسی میں بھی سکول قائم کئے۔ بالآخر تعلیم فائونڈیشن کا یہ کارواں رواں دواں رہا اور سکولوں کا دائرہ کے پی کے میں ڈی آئی خان، آزاد کشمیر میں مظفر آباد اور پنجاب میں خانیوال، مظفر گڑھ، راولپنڈی، خوشاب، سرگودھا، گجرات اور سندھ میں ٹنڈوالہ آدم تک پھیل چکا ہے۔ حال ہی میں آئی ٹی کی ایک درسگاہ وفاقی دارالحکومت کے نواح میں واقع سترہ میل کے مقام پر قائم کی گئی ہے جہاں طلبہ کو مفت تعلیم کے ساتھ روزگار بھی فراہم کیا جائیگا۔ ڈاکٹر صاحب نے بلوچستان کے نوجوان بچوں کو فنی تعلیم سے روشناس کرانے کیلئے بلوچستان کے مختلف شہروں میں مراکز قائم کئے جہاں سے کئی سو نوجوانوں کو حصول روزگار کیلئے بیرون ملک بھیجا گیا ہے۔ ڈاکٹر ظفر قادر سے ہماری پہلی بار ملاقات 1998میں لورالائی میں ہوئی جب میں اللہ تعالیٰ کے مہمانوں کی رہنمائی کیلئے بلوچستان گیا تو وہاں جناب احمد بخش لہڑی کمشنر تھے۔ سہ پہر چائے کے وقفہ میں لہڑی صاحب نے ظفر قادر صاحب سے متعارف کراتے ہوئے بتایا کہ وہ کوئٹہ میں سیکرٹری زراعت ہیں۔ دو روزہ قیام کے دوران ہمیں کوئٹہ جانا تھا جہاں ظفر قادر ہی ہمارے میزبان تھے۔ ڈاکٹر ظفر قادر کے پاس کوئی ایسا جادو ہے جو بھی ان سے ایک بار ملتا ہے انہی کا ہو جاتا ہے۔ ستائیسں برس پہلے میری ان سے لورالائی میں ملاقات کے دوران ایسے لگا جیسے میں برسوں سے ظفر قادر کو جانتا ہوں۔
کولہو میں بطور ڈپٹی کمشنر تعیناتی کے دوران ڈاکٹر ظفر اقبال قادر نے وہاں کی طالبات کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کیلئے تعلیم فائونڈیشن کی بنیاد رکھی۔ نوابوں اور سرداروں کی سرزمین میں طالبات کے سکول کا اجراء کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن نواب محمد اکبر خان بگٹی کے بھرپور تعاون سے تعلیم فائونڈیشن نے طالبات کا پہلا سکول 1989 کولہو میں قائم کیا، جس کے بعد تعلیم فائونڈیشن کا یہ کارواں چلتا گیا اور تعلیم فائونڈیشن نے قلعہ سیف اللہ، پشین، مستونگ، ژوب اور لورالائی میں بھی سکول قائم کر دیئے۔ قارئین کو یہ جان کو حیرت ہوگی بلوچستان سے پاکستان کی سول سروس میں شامل ہونے والی پچاس فیصد طالبات کا تعلق تعلیم فائونڈیشن کے سکولوں سے ہوتا ہے۔ گرانی کے اس دور میں طالبات سے صرف ایک ہزار روپے ماہوار فیس وصول کی جاتی ہے جس سے تعلیم فائونڈیشن میں خدمات انجام دینے والی خواتین اساتذہ کے ماہانہ مشاہروں کو پورا کرنا ناکافی ہے۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والا یہ سابق بیوروکریٹ کئی عشروں سے پسماندہ صوبے کی طالبات کو تعلیمی سہولتوں سے روشناس کرنے کیلئے کمر بستہ ہے۔ سول سروس میں رہتے ہوئے دنیاوی لالچ سے اپنے آپ کو بچائے رکھنا اتنا آسان نہیں، ڈاکٹر ظفر قادر نے راست بازی کی درخشاں مثالیں قائم کیں، جو آنے والی نسلوں کیلئے مشعل راہ ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے ایک بیٹے کے پاس انویسٹمنٹ کی سی اے آئی اے، جو دنیا کی سب سے بڑی ڈگری ہے، کے حامل ہیں اور جنیوا میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں۔ جب کہ دوسرے صاحبزادے بیرون ملک ری انشورنس کمپنی کے ایم ڈی ہیں جس کا صدر دفتر سنگار پور میں واقع ہے۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے سابق بیوروکریٹ ڈاکٹر ظفر اقبال قادر کو ان کی تعلیمی خدمات کی روشنی میں بلوچستان کا سر سید کہا جاتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button