Column

بانو قدسیہ کا راجا گدھ اردو ادب میں ایک نیا استعارہ

 

تحریر : ایم فاروق قمر
4 فروری 2017ء کو لاہور میں وفات پانے والی اردو ادب کی ماں بانو قدسیہ اردو ادب کی ایک قد آور شخصیت تھیں ۔ جنہوں نے ادب لکھنا اشفاق احمد صاحب سے سیکھا اور اشفاق احمد کی زوجہ ہونے اور ان کی سنگت میں رہنے کی وجہ سے ان کے صوفیانہ مزاج کا اثر بانو قدسیہ پر بھی ہوا۔
ان کے چند مشہور ناول، راجا گدھ، ایک دن، حاصل گھاٹ، شہر لازوال اور آباد ویرانے ہیں۔ انہوں نے بے شمار مختصر کہانیاں اور ڈرامے لکھے۔ ’’ راہ رواں ‘‘ اور ’’ مرد ابریشم ‘‘ ان کی تحریر کردہ سوانح ہیں۔ حکومت پاکستان نے انہیں ستارہ امتیاز، ہلال امتیاز، کمال فن ایوارڈ اور لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا ۔
بانو قدسیہ کا ناول راجا گدھ ، اردو زبان میں 1981ء میں شائع ہوا ، جس نے انھیں اردو ادبی حلقوں میں ایک پہچان دی، یہ ناول جہاں معاشرتی طبقوں کے درمیان ٹکرائو کے متعلق ہے، وہاں نفسیاتی پہلوں کے ہمراہ رزق حلال اور حرام کا فلسفہ بھی ہے۔ راجا گدھ، اپنی چند نظریاتی کمزوریوں کے باوجود ادبی، فنی اور تخلیقی طور پر ایک اہم ناول ہے ، جو اردو ادب میں زندہ رہے گا۔ بانو قدسیہ نے
اردو ادب میں راجہ گدھ کا کردار وضع کر کے ایک نیا استعارہ تخلیق کیا ہے جو اس سے پہلے نہ تھا۔ بانو قدسیہ نے راجا گدھ ، کو انسانی نفسیات کے ساتھ جوڑا بھی ہے اور پورے ناول میں نبھایا بھی ہے۔ یہ استعارہ تہہ دار بھی ہے اور پر معنی بھی۔ راجا گدھ کے ہر باب میں ایسی خوبصورت تشبیہات نظر آتی ہیں جو قاری کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر دیتی ہیں اور اسے سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ راجہ گدھ کی ایک خوبی اس کی دانائی بھی ہے ، اس ناول میں کئی ایسے مقامات آتے ہیں جہاں بانو قدسیہ نہایت دانا دکھائی دیتی ہیں جو زندگی کی گہرائیوں سے واقف ہیں۔ سیمی شاہ، قیوم، آفتاب اور پروفیسر سہیل اس ناول کے اہم کردار ہیں۔ سیمی شاہ ایک ماڈرن لڑکی ہے۔ قیوم سیمی سے عشق کرتا ہے مگر سیمی آفتاب پر مرتی ہے۔ سیمی عشق میں ناکام ہو کر ڈپریشن کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس دوران قیوم کو سیمی کے قریب ہونے کا موقع ملتا ہے۔ اس کو بظاہر سیمی کا قرب تو حاصل ہو جاتا ہے مگر ذہنی طور پر وہ قیوم سے کوسوں دور تھی۔ بانو قدسیہ کے نزدیک اصل عشق ًعشق حقیقی ً ہے۔ اس لئے اپنی زندگی کا محور اسی کو بنانا چاہیے۔ بانو قدسیہ نے ایک عورت ہوتے ہوئے مردوں کی نفسیات کا تجزیہ کیا ہے اور انسان کو کرگس یعنی گدھ سے تشبیہ دی ہے۔ کبھی کبھی انسان اپنے اندر گدھ کے اوصاف پیدا کر لیتا ہے۔ جس طرح گدھ مردار ( مرے ہوئے بے بس جانور) کو کھاتا ہے، نوچتا ہے۔ اسی طرح بعض اوقات انسان اپنے سے کمزور انسانوں کی مجبوریوں کا ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے۔ اس لحاظ سے انسان زیادہ بڑا یعنی راجا گدھ ہے۔ راجا گدھ کی خوبیوں میں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں انسانی نفسیات اور جنسیات کے بارے میں بڑی دلیری سے تبادلہِ خیال کیا گیا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے
بانو قدسیہ انسانی رشتوں کے بہت سے راز ہائے سربستہ سے واقف ہیں۔ راجا گدھ کی ایک اور کمزوری جدید سائنس اور نفسیات سے کم علمی ہے۔ راجا گدھ میں بانو قدسیہ دیوانہ پن کی دو اقسام کا ذکر کرتی ہیں۔ پہلی قسم کی انتہا خود کشی یا قتل ہے۔ وہ دیوانگی کا رشتہ حرام کھانے سے جوڑتی ہیں۔ بانو قدسیہ کہتی ہیں کہ ہر وہ شخص جس کی روح میں حرام مال پہنچ رہا ہو ، چہری بشرے سے راجہ گدھ بن جاتا ہے۔ بانو قدسیہ کا ایمان ہے کہ حرام کھانے سے اجتماعی دیوانہ پن بھی پیدا ہوتا ہے۔ بانو قدسیہ کا حلال حرام کا تصور صرف خوراک اور کھانے تک ہی محدود نہیں اس میں جنسی حرام و حلال بھی شامل ہے۔ بانو قدسیہ کہتی ہیں کہ مغرب کے پاس حرام حلال کا تصور نہیں ہے ، جس وقت حرام رزق جسم میں داخل ہوتا ہے وہ انسانی جینز کو متاثر کرتا ہے۔ رزق حرام سے ایک خاص قسم کی میوٹیشن ہوتی ہے جو خطرناک ادویات، شراب اور ریڈئیشن سے بھی زیادہ مہلک ہے۔ رزقِ حرام سے جو جینز تغیر پذیر ہوتے ہیں وہ لولے لنگڑے اور اندھے ہی نہیں ہوتے بلکہ ناامید بھی ہوتے ہیں۔ نسل انسانی سے یہ جینز جب نسل در نسل ہم میں سفر کرتے ہیں تو ان جینز کے اندر ایسی ذہنی پراگندگی پیدا ہوتی ہے جس کو ہم پاگل پن کہتے ہیں۔ یقین کر لو رزقِ حرام سے ہی ہماری آنے والی نسلوں کو پاگل پن وراثت میں ملتا ہے اور جن قوموں میں من حیث القوم رزقِ حرام کھانے کا لپکا پڑ جاتا ہے وہ من حیث القوم دیوانی ہونے لگتی ہیں۔ بانو قدسیہ انسانی پاگل پن کا استعاراتی رشتہ گدھ سے ملاتی ہیں اور ان دونوں میں مردار اور حرام خوری کی مماثلت دکھاتی ہیں۔ راجا گدھ نے انسان سے رزق حرام کھانا سیکھا۔ جب قابیل نے ہابیل کو قتل کیا تو آدم کے لہو میں چھپی دیوانگی باہر نکلی۔۔۔ رزقِ حرام کا اثر پشت ہا پشت جاتا ہے۔۔۔ اسی وقت راجا گدھ نے انسان سے رزق حرام کھانے کا سبق سیکھا۔۔۔ اسی رزقِ حرام نے اس کے لہو میں فساد کی وہ شکل پیدا کر دی جسے پاگل پن کہتے ہیں۔ ہماری اولادیں نافرمان ہو رہی ہیں، معاشرے میں بے حیائی اور بے راہ روی بڑھتی جا رہی ہے۔ ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ اگر ہم رزق حرام کے تصور اور اس کے منفی اثرات کو سمجھ لیں اور اللہ کے فیصلوں پر مکمل بھروسا کرنا سیکھ لیں تو ہم اچھے مسلمان اور معاشرے کے اچھے فرد بن کر ایک پر سکون زندگی گزار سکتے ہیں۔
اسلام نے انسان کو محنت کر کے رزق حاصل کرنے کی تلقین کی ہے اور محنت کرنے والا اللہ پاک کا دوست بن جاتا ہے۔ مگر غرض اور لالچ میں گرفتار ہو کر اندھا ہو جاتا ہے اور جب انسان محنت کیے بغیر رزق حاصل کر لیتا ہے تو وہ اسے حرام بنا لیتا ہے۔ ایسے رزق کو کھانے سے انسان کے جسم اور خون میں فساد برپا ہوتا ہے آج کل کے دور میں ہر انسان اپنی زندگی میں محنت سے دور بھاگتا ہے اور شارٹ کٹ کا استعمال کر کے دولت کمانے کے چکر میں راتوں رات امیر ہونے کے خواب میں حلال اور حرام کی تمیز کھو بیٹھا ہے۔ بانو قدسیہ نے ہماری آنکھیں کھولنے کی پوری کوشش کی ہے۔ آج کے دور میں ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے حیائی اور بے راہ روی، خود غرضی، حرص و ہوس اور بے شمار دوسرے منفی رویوں کی جانب ہماری توجہ دلائی ہے۔ ہمیں اپنی سوچ اور روش کو بدلنے کی بہت ضرورت ہے۔
ایم فاروق قمر

جواب دیں

Back to top button