Columnمحمد مبشر انوار

ایک اور سنگ میل

تحریر : محمد مبشر انوار(ریاض )
خلق خدا کی خدمت پر مامور اشخاص منتخب کردہ ہوتے ہیں، اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ اللہ رب العزت ہر کسی کو یہ خصوصیت نہیں بخشتا کہ اس سے اپنی خلق کی خدمت کا کام لے جبکہ منفی طور پر خلق خدا کو تنگ کرنے والوں کے متعلق اللہ رب العزت کو ان کی حرکات کا علم بخوبی ہوتا ہے لیکن اس میں اللہ کا امر/رضا قطعی شامل نہیں ہوتی۔ بہرحال یہ بحث ہمیشہ جاری رہتی ہے کہ جب اللہ رب العزت کو اپنی خلق کے ہر عمل کا علم ہے تو پھر مخلوق سے سول و جواب کیوں ہوگا؟ اس سوال کا جواب بھی انتہائی سادہ اور سامنے ہے لیکن اکثر اوقات خلق اس کو سمجھنے میں غلطی کر جاتی ہے اور بلاوجہ بحث برائے بحث میں الجھتی رہتی ہے، جواب اس کا یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنی مخلوق کو زندگی گزارنے کے لئے احکامات د ے رکھے ہیں کہ کس طرح زندگی گزاری جائے، خیر و شر، حق و باطل کے درمیان تمیز واضح کر رکھی ہے، اختیار انسان کودے رکھا ہے کہ وہ کس راستے کا انتخاب کرتا ہے، اور اس اختیار کا حق دینے سے قبل اسے عقل سلیم سے بھی نواز رکھا ہے تا کہ اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے، نیکی و بھلائی و خیر کا راستہ اختیار کر کے، اللہ کے نیک بندوں میں شامل ہو جائے۔ بالعموم دیکھنے میں آتا کہ انفرادی سطح پر افراد خیر و بھلائی کے کاموں میں خاموشی سے روبہ عمل رہتے ہیں، جتنا بھی ان کا حلقہ احباب ہوتا ہے جبکہ چند افراد مل جائیں تو ایک گروہ کی صورت روبہ عمل دکھائی دیتے ہیں اور ایسے گروہوں کی نیت اگر رضائے الٰہی اور خلق خدا کی خدمت ہو، تو ان کے لئے راستے اور اسباب بنتے چلے جاتے ہیں، ایک سے ایک نیا کام کرتے ہوئے وہ خلق خدا کی خدمت میں مشغول رہتے ہیں۔ ملنے والا قلبی سکون انہیں نت نئے محاذوں پر برسرپیکار آنے کے لئے ابھارتا رہتا ہے اور جہاں خلق خدا کو مشکل میں دیکھتی ہیں، اس کی آسانی کے لئے جت جاتے ہیں، اللہ کریم ایسے گروہوں کی آسانی کے لئے راستے اور اسباب بھی فراہم کرتا رہتا ہے۔ ایسی کئی ایک مثالیں ہمارے معاشرے میں بکھری پڑی ہیں، جن سے ہم سب بخوبی واقف ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ایک اسلامی معاشرے میں بھلائی و بہبود کی کام بالعموم حکومتیں کرتی ہیں لیکن جہاں حکومتیں اپنے اس فرض سے غافل ہوں، وہاں خلق خدا کی معصیت کے لئے، اس کے منتخب کردہ بندے، آگے بڑھتے ہیں۔ ان چیدہ مثالوں میں صف اول کی مثال ایدھی فائونڈیشن ہے، چھیپا ہے، ادارہ اخوت ہے، الخدمت ہے اور ایسی لاتعداد تنظیمیں ہیں جو اس وقت ہمارے معاشرے میں قومی و علاقائی سطح پر بروئے کار ہیں تو وہیں شہر، قصبہ و گلی محلوں کی سطح پر ایسی بے شمار تنظیمیں ہمیں کام کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ بحیثیت مجموعی ہماری قوم میں فلاح و بھلائی کا عنصر وافر پایا جاتا ہے، اب اس کے پس پردہ حقیقت کیا ہے، اس کے متعلق وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن میری ذاتی رائے میں اس کی وجہ وہ ناکافی سہولیات ہیں کہ جن کی بدولت پسے ہوئے محروم طبقات کی مدد کرتے ہوئے فلاحی کام کرنے میں افراد یا گروہ، حکومتوں کی مجرمانہ غفلت کا کفارہ ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر حکومتیں ایمانداری سے فلاحی ریاست کو قائم کرنے میں کوشاں ہوں تو یہ ممکن نہیں کہ وہ معاشرے کی فلاح نہ کر سکیں مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری حکومتوں کی کار گزاری دیکھ کر یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ صرف اپنی تجوریاں بھرنے کے لئے اقتدار میں آتے ہیں، شہریوں کی انہیں چنداں کوئی پروا نہیں۔
دیار غیر میں بھی، جہاں بھی پاکستانی موجود ہیں، درد دل رکھتے ہیں، اپنے محدود دائرہ کار اور محدود وسائل کے ساتھ، مشکلات کے شکار پاکستانیوں کی خدمت میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ ہر تنظیم کا اپنا دائرہ کار اور میدان ہے، جس میں وہ اپنی استطاعت و صلاحیت کے ساتھ بروئے کار آتے ہیں تو کئی ایک ایسے بھی ہیں، جو صرف تنظیم بنا کر بیٹھے ہیں، ایسے لوگوں کا عمل ان کے ساتھ ہے اور اس کی جزا بھی ویسی ہی ان کو نصیب ہو گی کہ اللہ کو نہ ریا پسند ہے اور نہ ہی دھوکہ۔ سعودی عرب میں پاکستانیوں کی کثیر تعداد موجود ہے اور ان کے مسائل، مقامی قوانین کے مطابق انتہائی مختلف ہیں، جن کے حل کے لئے گو سفارت خانہ پاکستان موجود ہے لیکن اس کے باوجود تمام مسائل کا حل سفارت خانہ کے لئے بھی ممکن نہیں لہذا ایسی تنظیمیں جو واقعتا پاکستانیوں کی مشکلات حل کرنے میں سنجیدہ ہیں اور عرصہ دراز سے روبہ عمل ہیں، وہ سفارت خانہ و قونصل خانہ پاکستان کی سرپرستی و تعاون سے پاکستانیوں کی مدد کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ پاکستانی ڈاکٹرز کی ایسی ہی ایک تنظیم ’’ پاکستان ڈاکٹرز گروپ ریاض‘‘ کئی دہائیوں سے ریاض میں مصروف عمل ہے، جس میں وقت کے ساتھ ساتھ ڈاکٹرز کی بڑی تعداد شامل ہوچکی ہے جبکہ اس تنظیم کو قائم کرنے والے اب تقریبا پردہ سکرین سے ہٹ چکے ہیں اور نئی و نوجوان قیادت اس تنظیم کو بخوبی لے کر چل رہی ہے۔ پاکستان ڈاکٹرز گروپ ریاض ( پی ڈی جی آر) کے اراکین جو یہاں مختلف ہسپتالوں میں ملازمت کرتے ہیں، ان میں سے کئی ایک سرکاری ملازمتیں کر رہے ہیں تو بیشتر نجی ہسپتالوں، کلینکس میں اپنے فرائض ادا کر رہے ہیں، سال بھر میں عمومی طور پر دو مرتبہ ’ فری میڈیکل کیمپ‘ کا انعقاد کرتے ہیں۔ جس میں سفارت خانہ پاکستان کی عمارت اس تنظیم کے تصرف میں رہتی ہے اور ایک دن کے لئے ہر وہ پاکستانی شہری، جو بوجوہ علاج معالجے کی سہولت سے محروم ہے، اس فری میڈیکل کیمپ میں ،مختلف بیماریوں سے متعلق ماہر ڈاکٹرز سے نہ صرف اپنا معائنہ کروا سکتا ہے بلکہ پی ڈی جی آر نے، ان کے لئے مفت ادویات کا بندوبست بھی کر رکھا ہوتا ہے۔ تاہم مجھے اس کا علم نہیں اور نہ کبھی تنظیم کے ڈاکٹرز سے کنفرم کرنے کا اتفاق ہوا کہ مریضوں کو ادویات بعد از میڈیکل کیمپ فراہم کرنے کا بھی کوئی سلسلہ ہے یا نہیں؟
31جنوری اور یکم فروری کو پی ڈی جی آر کی طرف سے سفارت خانہ پاکستان میں، سفیر پاکستان جناب احمد فاروق صاحب کی خواہش کے مطابق ایک سمپوزیم کا انعقاد کیا گیا، جسے بجا طور پر ایک انٹرنیشنل سمپوزیم کہا جا سکتا ہے کہ اس سمپوزیم میں ایک طرف برطانیہ سے نیشنل ہیلتھ سسٹم، رائل کالج کے ڈاکٹرز، ایک برطانوی تنظیم نیوی گو NAVIGOکے مالک عامر سجاد، سدرہ ہسپتال قطر سے ڈاکٹر وقار عظیم، علاوہ ازیں! دبئی و بحرین سے بھی ڈاکٹرز نے اس سمپوزیم میں شرکت کی۔ سمپوزیم میں انسانی ذہن کی خیریتwell beingکا گوگل سے ترجمہ یہی میسر ہوا، کے متعلق انتہائی سیر حاصل گفتگو ہوئی اور اس سمپوزیم میں ڈاکٹرز کی ایک بڑی تعداد کے علاوہ کمیونٹی سے بھی افراد شریک ہوئے، جبکہ اس سمپوزیم کے مہمان خصوصی، پرنس سلطان کارڈیک سینٹر کے سینئر کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر حسین العبری تھے۔ شرکاء کو انسانی ذہن کو بخیر رکھنے کے طریقے و فوائد سے آگاہ کیا گیا تو دوسری طرف اگلے دن، جونیئر ڈاکٹرز کی تربیتی نشست رکھی گئی جس میں ان نئے ڈاکٹرز کی نہ صرف اپنے شعبہ جات میں رہنمائی کی گئی بلکہ انہیں مزید اعلی تعلیم کے حوالے سے انتہائی مفید ٹپس بھی دی گئی تا کہ وہ اپنے شعبہ میں مزید ترقی کر سکیں ۔ رائل کالج کے شرکاء کی جانب سے یہ یقین دہانی بھی کروائی گئی کہ ایسے ڈاکٹرز جنہیں رائل کالج کے پروفیسرز کی جانب سے ریفر کیا جائے گا، ان کے لئے داخلے میں نرمی بھی برتی جائیگی۔ اس سمپوزیم کو منعقد کروانے میں پی ڈی جی آر کی جانب سے ڈاکٹر اسد رومی اور ڈاکٹر شہزاد احمد ممتاز جبکہ فاروق پاشا اور محمد اعظم نے بھی ان کی معاونت کی۔ یوں پی ڈی جی آر کے ڈاکٹرز نے فری میڈیکل کیمپ کے بعد، ایک اور سنگ میل عبور کیا ہے اور امید واثق ہے کہ اللہ کریم پاکستان کے ان سپوتوں کو یونہی خلق خدا کی خدمت کے جذبہ سے معمور رکھے اور ان کے لئے دین و دنیا میں آسانیاں کرے۔ آمین

جواب دیں

Back to top button