یوم یکجہتی کشمیر

محمد اعجاز الحق
ستم شعار سے تجھ کو چھڑائیں گے اک دن
میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن
مقبوضہ وادیِ کشمیر میں گزشتہ پون صدی سے زائد عرصے سے جاری بھارتی جبر و تسلط کے خلاف کشمیری عوام 5فروری کو پاکستان اور مقبوضہ وادی سمیت دنیا بھر میں یومِ یکجہتی کشمیر مناتے ہیں پاکستان میں ہر سال یہ دن سرکاری اور نجی سطح پر خصوصی اہتمام کے ساتھ منایا جاتا ہے جس کا مقصد بھارتی تسلط سے آزادی کی جدوجہد کرنے والے کشمیری بہنوں بھائیوں کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا اظہار اور ان پر بھارتی مظالم کی جانب اقوام عالم کی توجہ مرکوز کرانا ہے یکجہتی کشمیر کی مناسبت سے بیرن ملک قائم پاکستانی مشنز کی جانب سے یوم یکجہتی کشمیر کی مناسبت سے خصوصی ریلیوں، جلسوں، سیمینارز اور تصویری نمائشوں کا اہتمام کیا جاتا ہے، ہر سال مقبوضہ وادی میں یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر پاکستان کے ساتھ اظہار محبت کیا جاتا ہے اور آج بھی مقبوضہ وادی میں جوش و جذبے کے ساتھ پاکستان سے محبت اور یکجہتی کے اظہار کا اہتمام کیا گیا ہے، حالیہ نام نہاد انتخابات کے بعد مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند پہلی بار یوم یک جہتی کشمیر منائیں گے، بھارت نے نام نہاد جمہوریت کے باعث کشمیریوں کا عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے اور ریاستی ہتھکنڈوں کا کھلا استعمال کرتا ہے، کشمیری عوام پر اس کے ظلم کے تسلسل میں کوئی کمی نہیں آئی، کالے قانون کے تحت کشمیریوں کے گھروں میں چھاپے اور تلاشی کی کارروائیاں جاری ہیں، جن کے دوران نہتے کشمیریوں کو بے دریغ گولیوں کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔ یاسین ملک سمیت آل پارٹیز حریت کانفرنس کی پوری قیادت اس کے نشانے پر ہے، بھارتی حکومت مقبوضہ وادی سے مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لیے یہاں ہندو جنونیوں کو آباد کرنے پر تلی ہوئی ہے، کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کے لیے پورا پاکستان آج جوش و خروش کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ 5فروری
1990ء کو امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کی اپیل پر شروع ہوا تھا جسے بعد میں ہر حکومت نے اپنی کشمیر پالیسی کا حصہ بنایا چنانچہ اب ہر سال حکومت کے زیراہتمام یوم یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے، جس میں قومی سیاسی جماعتوں سمیت پوری قوم شریک ہو کر غاصب بھارت کو یہ ٹھوس پیغام دیتی ہے کہ کشمیر پر اس کا تسلط بزور قائم نہیں رہ سکتا اور یو این قراردادوں کی روشنی میں استصواب کے ذریعے کشمیری عوام نے بالآخر خود ہی اپنے مستقبل کا تعین کرنا ہے۔ یہ امر واقعہ ہے کہ کشمیری عوام نے گزشتہ 77سال سے زائد عرصہ سے غاصب اور ظالم بھارتی فوج اور دوسری سیکیورٹی فورسز کے جبر و تشدد کو برداشت کرتے، ریاستی دہشتگردی کا سامنا کرتے اور متعصب بھارتی لیڈران کے مکر و فریب کا مقابلہ کرتے ہوئے جس صبر و استقامت کے ساتھ اپنی آزادی کی جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے، اس کی پوری دنیا میں کوئی مثال موجود نہیں۔ راجیو گاندھی کی سیاست، جسے متعصب ہندو سیاست کہا جاسکتا ہے، کا مقابلہ صرف جنرل محمد ضیاء الحق شہید نے کیا تھا۔ اس کے ماتھے پر آئے ہوئے پسینے کے قطرے آج بھی اپنا نشان چھوڑے ہوئے ہیں، صدر جنرل محمد ضیاء الحق شہید صرف یہی کہا تھا کہ تم! باز نہ آئے تو ہندوستان کا وجود دنیا سے مٹا کر رکھ دوں گا، کشمیر کی آزادی کی تحریک کا پہلا چراغ راجیو کو دی جانے والی اس دھمکی نے روشن کیا تھا، جن لوگوں کی تاریخ کا اپنا کوئی وجود نہیں، وہ دوسروں کی تاریخ اور وجود کیسے مٹا سکتے ہیں، جنرل ضیاء الحق کے بیانیے کا آج بھی اثر ہے بلاشبہ اس خطہ ارضی پر آزادی کی کوئی تحریک نہ اتنی دیر تک چل پائی ہے اس تحریک میں کشمیری عوام نے لاکھوں شہادتوں کے نذرانے پیش کیے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے، آزادی کی اس تحریک میں
عفت مآب خواتین نے اپنی عصمتوں کی قربانیاں دی ہیں کشمیر کی آزادی کی تحریک انسانی تاریخ کی بے مثال تحریک ہے جس کی پاکستان کے ساتھ الحاق کے حوالے سے منزل بھی متعین ہے۔ اس تناظر میں کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی درحقیقت پاکستان کی تکمیل و استحکام کی جدوجہد ہے جس کا دامے درمے قدمے سخنے ہی نہیں، عملی ساتھ دینا بھی پاکستان کے حکمرانوں اور عوام کی بنیادی اخلاقی ذمہ داری ہے۔ یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ تقسیم ہند کے ایجنڈے کے تحت مسلم اکثریتی آبادی کی بنیاد پر کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہونا تھا جبکہ بانیِ پاکستان قائداعظم نے کشمیر کی جغرافیائی اہمیت کے تناظر میں اسے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا اور جب اس شہ رگ پر 1948ء میں بھارت نے زبردستی اپنی فوجیں داخل کرکے تسلط جمایا تو بانی قائداعظمؒ نے اس وقت کے کمانڈر انچیف جنرل ڈگلس گریسی کو دشمن سے شہ رگ پاکستان کا قبضہ چھڑانے کے لیے کشمیر پر چڑھائی کا حکم بھی دیا تھا۔ گریسی نے اس وقت حکم کی تعمیل کی بجائے بات چیت کا مشورہ دی، اگر جنرل گریسی نے قائد کے حکم پر عمل کیا ہوتا تو کشمیر کا مسئلہ کبھی پیدا ہی نہ ہوتا جبکہ بھارت نے کشمیر پر جبراً قبضہ جما کر وادی کشمیر کو متنازعہ بنایا اور پھر خود ہی اس مسئلہ کے حل کے لیے اقوام متحدہ سے رجوع کر لیا جس پر یو این جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے اپنی الگ الگ قراردادوں کے
ذریعے کشمیری عوام کے حق خودارادیت کو تسلیم کیا اور کشمیر میں استصواب کے اہتمام کا حکم دیا تو بھارت نے اپنے آئین میں ترمیم کرکے مقبوضہ وادی کو باقاعدہ اپنی ریاست کا درجہ دے دیا۔ بھارتی جبر کے انہی ہتھکنڈوں نے کشمیر کی تحریک آزادی کو مہمیز دی اور آزادی کے لیے کشمیری عوام کی تڑپ کبھی سرد نہیں ہونے دی۔ وہ اپنی آزادی کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے سمیت جو بھی ہو سکتا ہے، کر رہے ہیں۔ انہوں نے بھارتی تسلط کبھی قبول نہیں کیا۔ کشمیری عوام کسی ظلم، بربریت اور سفاکیت کو خاطر میں نہ لائے تو 5اگست 2019ء کو بھارت کی مودی سرکار نے شب خون مار کر کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کردی اور اسے بھارت میں ضم کر دیا جس کے بعد کشمیریوں کی آواز دبانے کیلئے مقبوضہ وادی میں مزید بھارتی فوج بھجوا کر کشمیریوں کو گھروں میں محصور کر دیا۔ آج مقبوضہ وادی میں بھارتی محاصرے کو2000دن گزر چکے ہیں مگر کشمیریوں کے پائے استقلال میں ہلکی سی بھی لرزش پیدا نہیں ہوئی۔ مقبوضہ وادی میں ہر گزرتے دن کے ساتھ انسانی المیہ بدترین صورت اختیار کر رہا ہے۔ کشمیری اس کے باوجود حق آزادی سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ جبکہ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم اور مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ 77سال سے جاری اس کے مظالم روکنے کے لیے اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری نے اب تک کوئی موثر کردار ادا نہیں کیا۔ نتیجتاً ہندو توا کے ایجنڈے پر گامزن بھارت کے حوصلے مزید بلند ہوئے ہیں۔ اس نے کشمیریوں کے استصواب کے حق کے لیے یو این جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی منظور شدہ درجن بھر قراردادوں کو عملی جامہ پہنانا تو کجا، انہیں پرِکاہ کی حیثیت بھی نہیں دی اور کشمیر کے بھارتی اٹوٹ انگ ہونے کی ہٹ دھرمی برقرار رکھی ہے۔1948ء میں خودمختار ریاست جموں و کشمیر میں اپنی افواج داخل کر کے اس کے غالب حصے پر ناجائز تسلط جمانے کا اصل مقصد پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کا تھا جبکہ پاکستان نے شروع دن سے ہی کشمیر پر یہ اصولی موقف اپنایا کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام نے خود کرنا ہے اس لیے اقوام متحدہ کی جانب سے انہیں دئیے گئے استصواب کے حق کو تسلیم کر کے بھارت مقبوضہ وادی میں کشمیری عوام کے لیے رائے شماری کا اہتمام کرے مگر بھارت نے آج تک کشمیریوں کو استصواب کے حق سے محروم رکھا ہے کیونکہ اسے یقین ہے کہ استصواب کی صورت میں کشمیری عوام پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کریں گے۔ پاکستان بھی ان کے اسی صادق جذبے کی لاج رکھتے ہوئے ان کی بھارتی تسلط سے آزادی کی جدوجہد میں ان کا دامے درمے قدمے سخنے اور سفارتی محاذ پر بھرپور ساتھ دے رہا ہے جس کا بھارت سرکار نے بدلہ لینے کے لیے پاکستان پر تین جنگیں مسلط کیں اور اسے سانحہ سقوط ڈھاکہ سے دوچار کیا جس کے بعد وہ باقی ماندہ پاکستان کی سلامتی کے بھی درپے ہو گیا۔ اقوام متحدہ کی نمائندہ عالمی ادارے کی حیثیت تب ہی تسلیم ہو پائے گی جب اس کے روبرو آنے والے اس کے رکن ممالک کے باہمی تنازعات کے حل کے لیے اس کی قراردادوں اور فیصلوں پر ان کی روح کے مطابق عمل درآمد ہو گا۔ اندریں حالات، اقوام متحدہ کے رکن ممالک بالخصوص بڑی طاقتوں کی قیادتوں کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ وہ دنیا کے تنازعات حل کرانے کے لیے اب تک اقوام متحدہ کو کیوں فعال نہیں بنا پائے۔ علاقائی اور عالم امن کی خاطر کشمیر، فلسطین، افغانستان اور اسلامو فوبیا کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر ان کی روح کے مطابق عمل درآمد اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی ترجیح اول ہونی چاہیے۔ آج کے یومِ یکجہتی کشمیر منانے کا مقصد بھی اقوام متحدہ اور اس کے رکن بالخصوص بڑے ممالک کی توجہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کی جانب مبذول کرنا ہے۔ اگر اقوام متحدہ کی درجن بھر قرار دادیں بھی دیرینہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے موثر ثابت نہیں ہو رہیں تو اس نمائندہ عالمی ادارے کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔