آئی ایم ایف کا دبائو اور زرعی ٹیکس کا نفاذ

علی حسن
سندھ کابینہ نے اپنے ایک اجلاس میں ایگریکلچر انکم ٹیکس بل 2025ء کی منظوری دیدی ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا ہے کہ یہ بل 2025سے نافذ العمل رہے گا۔ البتہ اس بل میں لائیو سٹاک کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔
ایگریکلچر انکم ٹیکس بورڈ آف ریونیو ( بی او آر ) نیو بورڈ ( ایس بی ر) جمع کرے گی۔ قدرتی آفات کی صورت میں ایگریکلچر انکم ٹیکس میں ایڈجسٹمنٹ ہوگی۔ زیر کاشت اراضی ( زرعی زمین) کو چھپانے کی صورت میں جرمانہ لگایا جائے گا۔ صوبائی حکومت نے تحفظات کے ساتھ بل منظور کیا ہے کہ آئی ایم ایف کا دبائو تھا۔ اس سے قبل بھی ایک سے زائد بار حکومت آئی ایم ایف کے دبائو سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ جب حکومت کو پیسوں کی زیادہ ہی ضرورت محسوس ہوئی تو زرعی انکم ٹیکس بل منظور کرایا گیا۔ حکومت کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور چارہ ہی نہیں تھا کہ آئی ایم ایف کی شرط کو تسلیم کر لے۔ درحقیقت چھوٹے زمینداروں کے علاوہ یہ ٹیکس بڑی زرعی اراضی پر لاگو ہوگا جو زمینداروں کو قابل قبول نہیں ہے۔
سندھ کابینہ نے اعتراض کیا ہے کہ آئی ایم ایف سے بات کرنے سے پہلے سندھ کو اعتماد میں لینا چاہئے تھا۔ معترض اراکین کابینہ کو مطمئن کرنے کے لئے وزیر اعلیٰ نے یقین دلایا کہ وہ وفاقی حکومت سے ایک مرتبہ دوبارہ بات کریں گے۔ کابینہ کی رائے تھی کہ ایگریکلچر انکم ٹیکس لگانے سے سبزیوں کی قیمتیں بڑھ جائیں گی، زرعی ٹیکس لگانے سے گندم، چاول اور دیگر اجناس بھی مہنگی ہو جائینگی۔ آئی ایم ایف کو اس سے کیا غرض کہ قرض لینے والے ملک میں قیمتیں کہاں چلی جائیں گی۔ آئی ایم ایف اپنے دئیے ہوئے قرض کی وصولی کا راستی تلاش کر رہا ہے۔ چھوٹی کمپنیوں پر زرعی ٹیکس 20فیصد اور بڑی کمپنیوں پر 28فیصد لاگو ہوگا۔ زرعی آمدنی 150ملین روپے تا 200ملین روپے تک ایک فیصد ٹیکس لگے گا۔ 200ملین روپے سے 250ملین روپے تک زرعی آمدن پر 2فیصد ٹیکس لگے گا۔ زرعی آمدنی 250ملین روپے تا300ملین روپے تک 3فیصد ٹیکس لگے گا۔ 300ملین روپے سے 350ملین روپے تک زرعی آمدن پر 4فیصد ٹیکس لگے گا۔ زرعی آمدنی 350ملین روپے تا 400ملین روپے تک 6فیصد ٹیکس لگے گا۔ 400ملین روپے سے 500ملین روپے تک زرعی آمدن پر 8فیصد ٹیکس لگے گا۔ زرعی آمدنی 500ملین روپے سے زائد پر 10فیصد ایگریکلچر انکم ٹیکس لگے گا۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کہتے ہیں کہ ملکی مفاد میں سندھ کابینہ زرعی ٹیکس کی منظوری دی رہی ہے۔
سندھ ایوان زراعت کے جنرل سیکرٹری نبی بخش ستھیو کا استدلال ہے کہ سندھ میں زرعی ٹیکس 1994ء کی حکومت کے دور سے لگا ہوا ہے۔ جس کے نتیجے میں( آبیانہ ) واٹر ٹکس کی مد میں 175روپے فی ایکڑ وصول کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ایڈوانس ٹیکس بھی ادا کرنا پڑتا تھا۔ نبی بخش کے مطابق بری طرح بدعنوانی کے نتیجے میں 1994ء سے 2024 ء تک کبھی بھی ٹیکس کی وصولی اطمینان بخش ہی نہیں رہی ہے بلکہ اس کا وصول کرنے کا اندازہ بھی بہت ہی افسوس ناک رہا ہے۔
حکومت سمجھتی ہے کہ آئی ایم ایف کی سخت تاکید کے بعد زرعی ٹیکس سے فرار ممکن نہیں ہے، اسی لئے بادل نخواستہ ٹیکس کے نفاذ کو اعلان کیا گیا ہے۔ ایف بی آر کے سابق سربراہ شبر زیدی جب زراعت پر ٹیکس نافذ کرنے کی تجویز پر عمل در آمد چاہتے تھے تو عمران خان دور حکومت میں میں ان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سربراہی میں زمینداروں کے ایک گروپ نے وزیر اعظم سے ملاقات کی تھی، جس میں معمر سیاست داں نصر اللہ دریشک نے دھمکی دی تھا کہ زراعت کی آمدن پر ٹیکس کے نفاذ کے بعد حکومت ختم ہو جائے گی۔ زمینداروں کا استدلال ہے کہ وہ زراعت اور کاشت کاری پر مختلف طریقوں سے آنے والے اخراجات پر ٹیکس تو ادا کرتے رہتے ہیں تو ان پر دوبارہ ٹیکس کا نفاذ کیوں۔ زمیندار یہ تسلیم کرنے کے لئے آمادہ ہی نہیں ہیں کہ جن اشیاء پر وہ ٹیکس ادا کرتے ہیں اس پر تو سرکاری ملازمین سمیت تمام ہی شہری ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ زمینداروں کو استثنیٰ کیوں حاصل ہو۔ آئی ایم ایف کی خواہش پر حکومت نے گردن تو دھکا دی ہے لیکن زمینداروں کی اکثریت کا خیال ہے کہ حکومت کا نافذ کردہ یہ ٹیکس پوری طرح وصول نہیں کیا جا سکے گا۔ اس کی وصولی میں ناکامی کے بعد مزید نئے ٹیکس نافذ کرے گی۔
صوبائی محکمہ آبپاشی سندھ کا انتظامی نظام ڈانوں ڈول ہے۔ سیکرٹری ظریف احمد کھیڑو کے لئے محکمہ چلانا مشکل بن گیا۔ 38چیف انجینئرز اور سپرنٹنڈنٹ انجینئرز کو دفاتر سے غیر حاضر رہنے پر تنبیہ کے نوٹس جاری کئے گئے ہیں۔ سیکرٹری صاحب تحریری طور پر اعتراف کرتے ہیں کوئی سینئر افسر کا فون تک اٹینڈ کرنے کے لئے تیار نہیں۔ پہلی بار کسی سرکاری محکمے کے تقریبا تمام سینئر افسران کے غیر حاضر رہنے اور محکمے کے سربراہ کا آن دی ریکارڈ بے بسی کا اعتراف سامنے آیا ہے۔ محکمہ آبپاشی سارے سرکاری محکموں میں سب سے زیادہ کمائی والا یا سب سے زیادہ بدعنوان محکمہ اسے ہی تصور کیا جاتا ہے۔ حکومت میں کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو اس بات سے لا علم ہو۔