وکلا کا ایک اور امتحان

تحریر : امتیاز عاصی
ریاست پاکستان میں عدلیہ کی آزادی ہمیشہ متنازعہ رہی ہے۔ سیاسی حکومت ہو یا مارشل لاء سب نے عدلیہ پر شب خون مارنے کی بھرپور کوشش کی۔ یہ علیحدہ بات ہے حکومتوں کو ماضی میں اس سلسلے میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ہو سکی۔ جیسا کہ مشرف دور میں ججوں کو گھروں میں نظر بند کیا گیا اور چیف جسٹس افتخار چودھری کو برطرف کرنے کی کوشش کامیاب نہیں ہو سکی، جس کا سہرا وکلا برادری اور سول سوسائٹی کے سر ہے۔ گویا اس لحاظ سے عدلیہ کی آزادی میں وکلا کی جدوجہد سے سرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ پیپلز پارٹی جو جمہوریت کی چمپئن کی دعویٰ دار اور عدلیہ کی آزادی پر یقین رکھتی ہے فارم 47کی حکومت کی اتحادی بننے کے بعد جمہوریت اور عدلیہ کی آزادی کے اس کے تمام دعویٰ غلط ثابت ہوئے ہیں۔ جہاں تک مسلم لیگ نون کی بات ہے اس پر کسی کو شکوہ نہیں ہونا چاہے جس جماعت کی داغ بیل آمروں نے ڈالی ہو ایسی جماعت سے جمہوری روایات کی پاسداری اور عدلیہ کی آزادی کا سوال بے معانی ہے۔ جبکہ مسلم لیگ نون سپریم کورٹ پر حملہ کرکے عدلیہ کی آزادی کو تسلیم نہ کرنے پر مہر ثبت پہلے کر چکی ہے۔ موجودہ حکومت نے جمہوریت اور عدلیہ کی آزادی کے منافی اقدامات کرکے یہ ثابت کر دیا ہے مسلم لیگ نون کو نہ تو جمہوریت اور نہ عدلیہ کی آزادی سے کوئی سروکار ہے بلکہ اسے اپنے اقتدار اور مفادات کا حصول ہے۔ گو عدلیہ کی آزادی کے منافی اقدامات ہر دور میں ہوتے رہے گزشتہ ایک سال سے عدلیہ کی آزادی کے برخلاف اقدامات نے آمروں کے عدلیہ کی آزادی کے منافی ماضی کے اقدامات کو فراموش کر دیا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں کی چیف جسٹس کے نام نالش نے کئی اداروں کا پردہ چاک کرنے میں اہم کردار کیا ہے ورنہ تو ماضی بعید میں بعض اداروں کا کچھ نہ کچھ برہم باقی تھا۔ بقول حکومتی سینیٹر عرفان صدیقی صدر مملکت کو ججوں کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائیکورٹ میں بھیجنے کا اختیار حاصل ہے۔ سوال ہے مسلم لیگ نون اس قبل کئی با ر حکومت کر چکی ہے ہائیکورٹس کے ججوں کو دوسری ہائیکورٹ میں ٹرانسفر کرنے کا خیال کیوں نہیں آیا۔ عجیب تماشہ ہے ایک ہائیکورٹ کے ججز چیف جسٹس کو عدالتی کارروائی میں بعض اداروں کی مداخلت کی شکایت کرتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کوئی کارروائی کرنے کی بجائے چپ سادھ لی۔ تعجب ہے نئے چیف جسٹس نے انہی ججوں کی شکایت ردی کی ٹوکری میں ڈال دی۔ حالات اور واقعات کی روشنی میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا وکلا برادری کو ابھی ایک اور امتحان سے گزرنا ہوگا۔ افسوسناک پہلو یہ ہے وکلا برادری عدلیہ کی آزادی کے سلسلے میں ماضی کے برعکس منقسم ہے۔ مشرف دور میں وکلا نے ججوں کی نظربندی کے خلاف جو تحریک چلائی اس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی لیکن اب کی بار وکلا برادری میں مشرف دور والا جوش و جذبہ نہیں پایا جا رہا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ بار اور حامد خان گروپ کی حد تک وکلا برادری متحد ہے۔ حقیقت یہ ہے سیاسی جماعتیں جمہوریت اور عدلیہ کی آزادی پر یقین رکھتی ہوں تو آئین کے منافی اقدامات کا حصول ناممکن ہو جائے لیکن جس ملک کے سیاست دانوں کو اقتدار اور اپنے مفادات کا حصول ہو ایسے ملک میں جمہوریت اور عدلیہ کی آزادی خواب بن جاتی ہے۔ آئینی ترامیم نہ ہوتیں نہ ججوں کے تبادلے ہوتے آئینی ترامیم میں حصہ ڈال کر سیاسی جماعتوں نے جمہوریت اور عدلیہ کی آزادی کا گلا گھونٹا ہے۔ بس ایک بڑی سیاسی جماعت اور اس کے بانی کو تختہ مشق بنانے کی خاطر آئین اور قانون کی جس طرح پامالی ہو رہی ہے، نگاہیں شرم سے جھک جاتی ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان سے ان کے چمبر میں وفاقی وزیر قانون اور اٹارنی جنرل کی ملاقات کے بعد کسی کو شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ عدلیہ کو پوری طرح ایگزیکٹو کے زیر نگوں کر دیا گیا ہے۔ ملک میں لولی لنگڑی صحافت کو قابو کرنے کے لئے پیکا ایکٹ میں ترامیم نے ملک میں جمہوری روایات کو روند دیا ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے میڈیا شتر بے مہار ہونا چاہیے پر پیکا ایکٹ میں جن ترامیم کا سہارا لیا گیا ہے آزادی صحافت کے دعویٰ داروں کو عوام کی نظروں میں برہنہ کر دیا ہے۔ یہ بات درست ہے سوشل میڈیا کو بے لگام نہیں ہونا چاہیے۔ سوال ہے، جس سیاسی جماعت اور اس کے بانی کو زیر کرنے کی خاطر عدلیہ کی آزادی سلب کرنے اور صحافتی اقدار کو روندنے کے اقدامات کئے جا رہے ہیں بیرون ملک پی ٹی آئی کے لءے کام کرنے والوں پر پیکا ایکٹ کا کوئی اثر ہو گا؟۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کی اپیل پر ملک میں دہشت گردی پھیلانے والوں کی سزائے موت پر عمل درآمد رکا ہوا ہے لیکن انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کو ریاست پاکستان میں جمہوریت اور عدلیہ کی آزادی کے برخلاف ہونے والے اقدامات دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں دوسرے صوبوں کے ججوں کے تبادلے اس سرعت سے ہوئے ہیں سوموار کی کاز لسٹ میں لاہور ہائیکورٹ سے ٹرانسفر ہونے والے جج صاحب کا نام شامل ہے۔ اسلام آباد بار کونسل کی تینوں کونسلز کے مشترکہ اجلاس میں ججوں کے تبادلوں کا نوٹیفیکیشن واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے وکلا تنظیموں نے قرار داد میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کے خط کے ساتھ ہونے کا عندیہ دیا ہے۔ ان کا مطالبہ ہے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں سے ہونا چاہیے۔ ان وکلا تنظیموں نے آئینی ترامیم کے خلاف درخواستوں کی فوری سماعت کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ اسلام آباد بار کے وکلا کی تنظیموں کا دوسرے صوبوں کے وکلا تنظیموں سے ان کا ساتھ دینے کے مطالبے سے یہ حقیقت آشکار ہو تی ہے، وکلا برادری اسلام آباد بار کے اپنے بھائیوں کا ساتھ دینے میں متحد نہیں ہے۔ ہمیں یاد ہے حامد خان گروپ نے آئینی ترامیم کے خلاف اس سے قبل تحریک چلانے کا اعلان کیا تھا جو کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکا تھا۔ دراصل عہدے اور منصب کی خواہشات نے انسان میں سچ اور جھوٹ کی تمیز ختم کر دی ہے۔ سوموار کو اسلام آباد کے وکلا نے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا ہمیں نہیں لگتا اسلام آباد کے وکلا کی یہ جدوجہد کامیاب ہو سکے گی۔