Column

بول، جو کچھ کہنا ہے کہہ لے!

تحریر : آصف علی درانی
باتیں، کہانیاں، نعرے، وعدے، خبریں، تبصرے اور تجزیے آپ نے اعلیٰ سرکاری ریٹائرڈ اور کبھی ریٹائر نہ ہونے والے مشہور و معروف، ممتاز، مقبول اور نمایاں تجزیہ کاروں سے، اس کے علاوہ اعلیٰ سرکاری ریٹائرڈ معززین جنہیں مملکت ناپرسان کے میڈیا اداروں میں دفاعی، سیاسی، معاشی، سماجی ، انصافی، دانشور، تجزیہ کار اور کالم نگار کے طور پر ملازم ہے سے زندگی میں ایک بار تو سنے ہوں گے، کہ پاکستان، عرفِ ناپرسان یا بحرانستان میں، سیاست کا پہلا اور بنیادی مقصد عوام کے حقوق کا تحفظ، ان کی ضروریات کا خیال رکھنا اور ایک مستحکم سماجی ڈھانچہ قائم کرنا ہے۔ ہر شام یہ لوگ پروگراموں میں باتیں، تجزیے اور تبصرے کرتے ہیں۔ بعض سیاسی معززین تو باتوں، گِلے شکوئوں میں، ہاتھا پائی تک بھی پہنچ جاتے ہیں، اور عوام کو مفت میں براہ راست جھگڑے کا نظارہ بھی کرایا جاتا ہے۔ ناظرین ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان معززین کی موجودگی میں ایسا کیوں کر ہوتا ہے؟ کیا یہ ریٹنگ کے چکر میں بے شرمی کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے؟
قتیل شفائی کے اشعار ہیں:
جب بھی چاہیں اِک نئی صورت بنا لیتے ہیں لوگ
ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں
خود فریبی کی انھیں عادت سی شاید پڑ گئی
ہر نئے رہزن کو سینے سے لگا لیتے ہیں لوگ
لفظ ’’ سیاست‘‘ سنتے ہی آپ کو ’’ خدمت‘‘ کا لفظ بھی ضرور سننے کو ملے گا، کہ سیاست تو عوام کی خدمت ہے۔ سیاست میں عوامی رائے کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ عوام کی باتیں سننا اور ان کے مسائل حل کرنا سیاستدان کی ذمہ داری ہے۔ اخلاقیات، سیاست کا مرکزی حصہ ہیں۔ بہترین قیادت کی بنیاد اصولوں اور اخلاقیات پر ہوتی ہے۔ سیاستدان معاشرتی نظام کے اہم رکن ہوتے ہیں، جن کے پاس مختلف مسائل حل کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ ان کی ذمہ داریاں وسیع ہوتی ہیں، جن میں انسانی حقوق کی حفاظت، اقتصادی ترقی، معیشت اور معاشرتی ناہمواری کا ازالہ شامل ہے۔
سیاست میں بدعنوانی، ناانصافی، غلط فیصلے، کرپشن، لوٹ مار جیسے رویے اس ملک اور یہاں بسنے والے غریب عوام کو برباد کرتے ہیں۔ پھر بڑے جذباتی ہو کر کہا جاتا ہے کہ ’’ ہمارا‘‘ ملک تو سونے کی چڑیا ہے، لیکن یہ چڑیا گائوں کے نسلی و وفادار کبوتروں کی طرح ہے، جو دوسرے کبوتروں کے ساتھ شامل ہو کر اپنی راہ بھی نہیں بدلتی۔ اسے بدقسمتی، بدنصیبی یا بے وفائی کہا جائے؟۔
ان قصوں، کہانیوں، تجزیوں، تجربوں اور مشاہدوں سے بس پاکستان کے غریب عوام کی امیدیں، تمنائیں اور خواب جڑے ہوئے ہیں۔ ریل گاڑی چل رہی ہے، اب عوام کو ریل گاڑی کی تیز آوازوں اور ہارن کے بغیر نیند ہی نہیں آتی۔
اخلاقیات پاکستانی سیاست میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کیا پاکستان میں جمہوریت کی بنیاد بتدریج کمزور ہوتی جا رہی ہے؟ لیکن اس سوال کا جواب ہم وثوق سے اس لیے نہیں دے سکتے کہ پاکستان جمہوری ملک ہے یا نہیں۔ یہ ایک الگ داستان، کہانی اور موضوع ہے، جس پر کئی دنوں تک بحث کی جا سکتی ہے اور پوری کتاب بھی لکھی جا سکتی ہے۔
پاکستان میں فیک نیوز کا مسئلہ ابھی پیدا نہیں ہوا بلکہ یہ کئی برسوں سے موجود ہے۔ ایک محاورہ ہے ’’ اگر بھینس کو نقصان پہنچانا چاہتے ہو تو اس کے بچھڑے کو مارو‘‘۔
فیک نیوز پر بات کرنے سے پہلے اس جگہ کا بھی ذکر کرنا ضروری ہے، جہاں یہ پیدا ہوتی ہیں اور پھر ان کو کس مقصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر موجودہ دور کے معززین کی بات کریں تو دائیں بائیں، بلکہ یوں سمجھیں کہ جب بارش کے بعد کوئی بھاری پتھر ہٹایا جاتا ہے تو نیچے سے بڑی تعداد میں حشرات نکلتے ہیں۔
آج کے دور میں معاملہ ان معززین کا بھی ہے۔ ہر کسی کے پاس معزز ہونے کی اعلیٰ ڈگری کسی نہ کسی بڑی یونیورسٹی کی موجود ہے۔ اب جو بات پہلے ہو چکی ہے کہ سیاست میں اخلاقیات نہ ہونے کے برابر ہے، جب دو سیاسی بندے، کارندے، سپورٹر، کارکنان، عقل سے خالی بے روزگار، ایک دوسرے کے رو برو آتے ہیں، تو ان کے بیچ میں ایک معزز بھی ہوتا ہے۔ یہی وہ مقام ہوتا ہے، جہاں سے فیک نیوز یا جھوٹی خبروں کی شروعات ہوتی ہیں۔
یہ جھوٹی خبریں ہر کسی کے خلاف استعمال ہوتی ہیں۔ زیادہ ماضی میں جانے کی ضرورت نہیں، لیکن ان جھوٹی خبروں کو انصافیوں اور پاکستان کو دوبارہ بنانے کے دعویداروں کی جماعت نے مخصوص اعلیٰ درجے کے معززین کے ذریعے سوشل میڈیا پر پھیلایا۔ انصاف پسند کچھ اس طرح جھوٹی خبریں شائع کرتے کہ وہ خبریں خود اپنے آپ سے شرمندہ ہو کر سچ لگتی تھیں۔
جو بیج انہوں نے بویا تھا، اس کی کٹائی بھی لازمی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جو فصل پک جاتی ہے، وہ کٹائی کے قابل ہو جاتی ہے، لیکن اس فصل کی جڑیں اتنی پختہ ہیں کہ یہ کٹائی سے ختم نہیں ہوتی، بلکہ مزید تازہ ہو جاتی ہے۔ ملک کی ترقی کے وسائل کو انہوں نے نایاب بیج خریدنے میں لگا دیا، اور آخر میں پیسوں کی کمی کے باعث ملک کے قیمتی آلات بھی فروخت کرنے پڑے۔
اتنی بڑی سرمایہ کاری کے بعد، بے چارے عوام سرکاری اور نجی ذرائع ابلاغ کی خبروں پر بہت کم یقین کرنے لگے ہیں۔ پروفیشنل صحافیوں کی خبروں کے بجائے، سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی خبروں پر زیادہ پختہ یقین کیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کے تیز رفتار دور میں، غلط معلومات جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی ہیں، اور لوگ بغیر تحقیق کے ان پر یقین کر لیتے ہیں۔
فیض احمد فیض کے بقول:
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول، جو کچھ کہنا ہے کہہ لے!

جواب دیں

Back to top button