سپیشل رپورٹ

صدیوں پرانا امریکی نظریہ جس نے اسے عالمی طاقت بنانے میں اہم کردار ادا کیا

سنہ 1845 میں امریکی صحافی جون سلیون نے ایک کالم لکھا جس کا عنوان تھا ’انیکسیشن‘ یعنی قبضہ۔

چند ہی دن قبل کانگریس آف دی رپبلک آف ٹیکساس نے امریکہ میں شمولیت کی منظوری دی تھی جو نو سال تک ایک آزاد خودمختار ملک ہوا کرتا تھا۔ جون سلیون نے اس وسیع و عریض خطے کی امریکہ میں شمولیت کو ایک خداداد منصوبے سے تعبیر کیا تھا۔

واضح رہے کہ ٹیکساس جو ایک زمانے میں ہسپانیہ کے زیر تسلط تھا بعد میں میکسیکو کا حصہ بنا لیکن امریکی حکومت کی حوصلہ افزائی کے سبب بہت سے امریکی شہری اس علاقے میں بسنے لگے تھے۔ اٹھارہ سو چھتیس میں ٹیکساس نے میکسیکو سے علیحدگی اختیار کر لی اور بعد میں امریکہ کا حصہ بن گیا۔یہ شمالی امریکہ کی تاریخ میں پہلا موقع نہیں تھا جب اس ملک کے حجم میں اضافہ ہوا تھا۔ ابتدائی 13 کالونیوں پر مشتمل ملک، جس نے سترہ سو چھہتر میں آزادی کا اعلان کیا تھا، رفتہ رفتہ پچاس کالونیوں تک کیسے پھیلا اور اس کہانی میں خدا کی تقدیر کا کیا کردار تھا؟سب سے پہلے اس لفظ کا استعمال جون سلیون نے ہی کیا تھا جن کے مطابق خدا نے تقدیر میں لکھ دیا تھا کہ امریکہ کی زمین میں وسعت پیدا ہو۔ اس تصور کے ساتھ ایک اور لفظ جڑا جسے ‘امریکن ایکسیپشنلزم’ کہتے ہیں یعنی دوسروں سے ممتاز لوگ جنھیں خدا نے چنا ہے۔ یہ خیالات دہائیوں تک امریکی تصور کا حصہ رہے اور سرکاری پالیسیوں میں بھی ان کا تذکرہ رہا۔ حال ہی میں ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارت کا حلف اٹھایا تو انھوں نے بھی اس جانب اشارہ کیا اور کہا کہ ’ہم اپنی تقدیر کا ستاروں تک پیچھا کریں گے۔‘

ٹرمپ کی جانب سے پانامہ نہر، گرین لینڈ پر قبضے سمیت کینیڈا کو امریکی ریاست بنانے کی تجاویز کے پیچھے بھی اسی تصور کا عمل دخل نظر آتا ہے اور اس سوچ کا بیج امریکہ کی بطور ریاست پیدائش سے ہی بو دیا گیا تھا۔بنیاد
میکسیکن مؤرخ الیشیا مایئر نے بی بی سی منڈو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان خیالات کی بنیاد نوآبادیاتی نظام میں پڑ چکی تھی جب امریکہ میں برطانوی کالونیاں قائم ہوئیں۔

سترہویں صدی کے آغاز میں برطانیہ سے آبادکار امریکہ پہنچے تو ایک ایسا مسیحی فرقہ پنپنا شروع ہوا جو برطانیہ کے سرکاری فرقے کا مخالف تھا۔ اس فرقے کے پیروکاروں کے لیے امریکہ ایک ایسی جگہ تھی جہاں وہ بنا روک ٹوک اپنے عقائد کے تحت زندگی گزار سکتے تھے۔

اسرائیل کی بادشاہت
اس فرقے کے مطابق خدا نے پہلے ہی طے کر رکھا تھا کہ جنت اور جہنم میں کون جائے گا اور یہ کہ وہ خدا کے پسندیدہ لوگ ہیں۔

الیشیا مایئر کے مطابق خدا نے چند افراد کو چن رکھا ہے اور پھر یہ تصور پوری قوم تک پھیل گیا جس کے مطابق چند قومیں خدا کو پسند نہیں۔

1763 میں برطانیہ امریکہ کے ایک بڑے حصے پر قابض تھا۔ اسی سال برطانیہ نے نوآبادیاتی نظام کے لیے اپالاچیان پہاڑوں کی حد طے کر دی جہاں مقامی آبادی بستی تھی۔

بادشاہ جارج سوم یہ علاقہ مقامی آبادی کے لیے مختص کرنا چاہتے تھے لیکن سفید فام امریکی شہری اس علاقے کو بھی شامل کرنا چاہتے تھے اور یہ ایک وجہ تھی کہ سترہ سو چھہتر میں تیرہ کالونیوں نے تاج برطانیہ سے آزادی کا اعلان کرتے ہوئے امریکہ کے قیام کا اعلان کیا۔

مجموعی طور پر ان کالونیوں کا حجم آج کی امریکی ریاست کے مقابلے میں آٹھ گنا کم تھا لیکن اس انقلاب کے رہنما سمجھتے تھے کہ یہ اسرائیل کی بادشاہت ہے، وہ علاقہ جسے خدا نے اپنے پیروکاروں کے لیے چن رکھا ہے۔

امریکہ کی آزادی کی دستاویز میں بھی خدا کا حوالہ موجود ہے اور اسی تصور کو گریٹ سیل میں بھی دکھایا گیا۔ امریکہ کے بانیوں میں سے ایک تھامس جیفرسن نے ملک کے شہریوں کو جنگل و بیابان میں اسرائیل کے بچوں کی طرح تصور کیا۔

گریٹ سیل امریکہ کے صدر کا نشان بھی ہے جس میں ایک جانب عقاب جبکہ دوسری جانب اہرام ہے جس میں موجود آنکھ مقدر میں امریکی کامیابی کی علامت ہے۔

جواب دیں

Back to top button