Column

خزاں ( 2)

تحریر : علیشبا بگٹی
کہا جاتا ہے کہ ایک لڑکی اپنے بستر پر لیٹی ہوئی تھی اور شدید بیماری میں مبتلا تھی۔ اس نے اپنی بڑی بہن سے، جو کھڑکی کے پاس موجود درخت کو دیکھ رہی تھی۔ پوچھا۔ ’’ درخت پر کتنے پتے باقی ہیں؟‘‘، بڑی بہن نے آنکھوں میں آنسو لیے جواب دیا۔ ’’ کیوں پوچھ رہی ہو ؟‘‘، بیمار بچی نے جواب دیا۔ ’’ کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ میرے دن آخری پتے کے گرنے کے ساتھ ختم ہو جائیں گے‘‘۔ بڑی بہن نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ’’ تو جب تک وہ وقت نہیں آتا، ہم اپنی زندگی کا لطف اٹھائیں گے اور خوبصورت دن گزاریں گے‘‘۔ دن گزرتے گئے اور پتے گرتے گئے، اور آخر میں ایک پتہ رہ گیا۔ بیمار بچی اس پتے کو دیکھتی رہی، یہ سمجھتے ہوئے کہ جس دن یہ پتہ گرے گا، بیماری اس کی زندگی ختم کر دے گی۔ خزاں ختم ہوگئی، اس کے بعد سردی آئی اور سال گزر گیا۔ لیکن وہ پتہ نہیں گرا۔ لڑکی اپنی بہن کے ساتھ خوش تھی۔ اور آہستہ آہستہ صحت یاب ہو رہی تھی۔ یہاں تک کہ وہ مکمل طور پر ٹھیک ہو گئی۔ سب سے پہلا کام جو اس نے کیا، وہ یہ تھا کہ اس معجزاتی پتے کو دیکھنے گئی جو نہیں گرا تھا۔ تو اس نے دیکھا کہ وہ ایک پلاسٹک کا پتہ تھا جسے اس کی بہن نے درخت پر باندھ دیا تھا۔ مطلب کسی کی امید بن جائیں تا کہ اسے زندگی مل جائے۔
مبارک صدیقی کے اشعار ہیں کہ
خزاں کی رت میں گلاب لہجہ بنا کے رکھنا، کمال یہ ہے۔
ہوا کی زد پہ دیا جلانا، جلا کے رکھنا، کمال یہ ہے
ذرا سی لغزش پہ توڑ دیتے ہیں سب تعلق زمانے والے
سو ایسے ویسوں سے بھی تعلق بنا کے رکھنا، کمال یہ ہے
کسی کو دینا یہ مشورہ کہ وہ دکھ بچھڑنے کا بھول جائے
اور ایسے لمحے میں اپنے آنسو چھپا کے رکھنا، کمال یہ ہے
خیال اپنا، مزاج اپنا، پسند اپنی، کمال کیا ہے ؟
جو یار چاہے وہ حال اپنا بنا کے رکھنا، کمال یہ ہے
کسی کی راہ سے خدا کی خاطر، اٹھا کے کانٹے، ہٹا کے پتھر
پھر اس کے آگے نگاہ اپنی جھکا کے رکھنا، کمال یہ ہے
وہ جس کو دیکھے تو دکھ کا لشکر بھی لڑکھڑائے، شکست کھائے،
لبوں پہ اپنے وہ مسکراہٹ سجا کے رکھنا، کمال یہ ہے
ہزار طاقت ہو، سو دلیلیں ہوں پھر بھی لہجے میں عاجزی سے
ادب کی لذت، دعا کی خوشبو بسا کے رکھنا، کمال یہ ہے
کبھی کبھی خزاں درختوں پر ہی نہیں، ہمارے وجود پر بھی اترتی ہے لیکن اس خزاں کا ہمارے سوا کسی اور کو علم نہیں ہوتا ہے۔
شاعر کہتا ہے:
بہاریں گم ہیں، مسلسل خزاں کا موسم ہے۔
کسی کے بس میں بھلا کب یہاں کا موسم ہے۔
وہ اور لوگ ہیں موسم بدلتے ہیں جن کے۔
یہاں تو مستقل اشکِ رواں کا موسم ہے
خالد یاور کے اشعار ہیں:
خزاں کا جبر ہو جتنا شجر کچھ کہہ نہیں سکتے
مگر ایسا نہیں ہے کہ بشر کچھ کہہ نہیں سکتے
ترانے صبحِ نَو کے ہیں اندھیروں کے ہیں عادی ہم
مری بستی میں کب ہوگی سحر کچھ کہہ نہیں سکتے
امیرِ شہر کے ڈر سے سبھی وحشت زدہ ہیں لوگ
مسلسل ظلم سہتے ہیں مگر کچھ کہہ نہیں سکتے
خدا لکھا سمجھ کر چُپ ہیں اپنی فاقہ مستی پر
ستم گر کو مرے اہلِ نگر کچھ کہہ نہیں سکتے
ہے ظالم سے عقیدت یا کہ مظلومانہ فطرت ہے
سرِ بازار کٹ جاتے ہیں سر کچھ کہہ نہیں سکتے
عمل بنجر زمیں پر جب ہو فصلیں کاشت کرنے کا
دعائوں کا بھی ہو اس پر اثر کچھ کہہ نہیں سکتے
خزاں کے ساتھ ہی اختتام سال تو ایک نیا اشاریہ کہ عمر عزیز کا ایک اور برس خزاں رسیدہ ہو کر ماضی کی گپھائوں میں گم ہونے جا رہا ہے کبھی واپس نہ آئے کے لئے۔ جیون کے درخت پر کیا باقی ہے؟ رنجیدہ کر دینے والا سوال کا جواب کوئی نہیں جانتا۔ کہ اب عمر کی نقدی ختم ہوئی۔
وصی شاہ کے مشہور اشعار ہیں:
کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا
تو بڑے پیار سے چائو سے بڑے مان کے ساتھ
اپنی نازک سی کلائی میں چڑھاتی مجھ کو
اور بیتابی سے فرقت کے خزاں لمحوں میں
تو کسی سوچ میں ڈوبی جو گھماتی مجھ کو
میں ترے ہاتھ کی خوشبو سے مہک سا جاتا
درختوں پر جھولتے سوکھے پتے ہوا کے جھونکے سے اڑ کر دور جا گرتے ہیں۔ یہ موت کا استعارہ کہ جانے کب زندگی کی شاخ سے ٹوٹ کر ایک انجان دنیا میں جا گریں۔ ان دیکھی ابدی دنیا میں ایسا ہی یہ موسم جو بہت اندر سے اداسیاں اور بے نام سے غم کی کہانی لئے ہوئے ہوتا ہے۔ خزاں کے موسم میں گرتے پتے، اس بات کا پتہ دیتے ہیں اور کہ ہر شے سدا بہار نہیں۔ ایک نہ ایک دن سب ختم ہو جانا ہے۔ اور اسکی جگہ نئے وجود نے جنم لینا ہے۔ ٹھیک اسی طرح انسان مقررہ وقت پر چلے جاتے ہیں۔ اور انکی جگہ نئے لوگ لے لیتے ہیں۔ سب کو بہار میں کھلتے پھول اچھے لگتے ہیں۔ شعرا کی شاعری بہار کے موسم میں کھلتی نئی کونپلوں پہ ہوتی ہے محبوب کے وصل کو بہار سے تشبیہ دی جاتی ہے لیکن کسی کسی کو خزاں کے موسم میں زمین پر گرے رنگ برنگے پتے بھی بہت بھاتے ہیں یہ زرد رنگ کے پتے اپنی زندگی کے اختتام پر بھی کتنے خوبصورت نظر آتے ہیں۔ اس بات کا یقین دلاتے ہیں کہ زندگی کا آغاز اگر خوبصورت تھا۔ تو اختتام بھی حسین ہے بس ضرورت ہے تو اس امر کی کہ مقصد تخلیق کو پہچانا جائے اور عمل کیا جائے۔
کسی شاعر نے کہا ہے:
ابھی عروج پر ہے تمہارا موسم
خزاں میں تم کو خرید لیں گے
بنو گے ہم سے رحم کے طالب
نہ تم کو مہلت مزید دیں گے
وفا کے قصے ختم ہی سمجھو
جفا کے موسم قریب سمجھو
کریں گے تم سے حساب جاناں
نہ تم کو مہلت مزید دیں گے
ابھی عروج پر ہے تمہارا موسم
خزاں میں تم کو خرید لیں گے۔
شاخوں سے پتوں کا گرنا محض موسم کی تبدیلی کا پیش خیمہ نہیں ہے، بلکہ یہ یاد دلاتا ہے کہ ہر شے فانی ہے اور تبدیلی کائنات کا حسن ہے اور ہم نے بھی ایک دن زندگی کی شاخ سے ایسے ہی ٹوٹ کر گر جانا ہے۔ موسم خزاں میں درختوں کے پتے گرنے کا منظر ہمیں یہ سبق دیتا ہے، کہ وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا۔ آج اگر مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا ہے تو کل انہی درختوں پر بہار آئے گی اور خوشی و سکون کی صبح ضرور ہوگی۔ اگر آپ کسی غم یا پریشانی کے گہرے کھڈے میں گر گئے ہیں، تو اللہ کے فضل و رحمت پر یقین رکھیں جو آپ کو ان مشکلات سے نکال دے گی۔ کسی شاعر کا کہنا ہے:
مجھے پسند ہے خزاں کا موسم
زرد پتے زمین پر بکھرے ہوئے
جس پر میں اپنے قدم رکھتے ہوئے چلوں
اور وہ آواز پیدا کریں
مجھے پسند ہے
اک خالی بینچ تنہائی، ٹھنڈی ہوا کے جھونکے
اور درختوں سے گرتے ہوئے زرد پتے
مجھے پسند ہے شدید دھند، بالکونی
اور کافی کا مگ
دھند میں نظر آنے والا بغیر ہریالی کے
ویران درخت اور اس درخت پر بیٹھا ہوا
اک تنہا سا پرندہ
مجھے پسند ہے
سیاہ رات میں نکلا پورا چاند
اور
اس سیاہ رات میں سمندر کے کنارے بیٹھنا
سمندر کی لہروں کا میرے قدموں کو چھو کر
واپس چلے جانا
اور ان سارے منظروں میں تنہا رہنا

جواب دیں

Back to top button