CM RizwanColumn

پی ٹی آئی، ن لیگ میں صلح

تحریر : سی ایم رضوان
حکومت کے ناقدین کی یہ بات اگر مان بھی لی جائے کہ پی ٹی آئی اور حکومت کے مابین جاری مذاکرات کی کامیابی یا پی ٹی آئی کو کسی قسم کا ریلیف دینے کا فیصلہ تنہا حکومت کے بس کی بات نہیں کہ لو جی حکومت اپوزیشن کو کسی نوعیت کا ریلیف خود فراہم کر سکتی ہے یا یہاں تک کہ مذاکرات کامیاب یا ناکام کروا سکتی ہے بلکہ اس سب کا فیصلہ اسٹیبلشمنٹ ہی کرے گی کہ پی ٹی آئی کو کس حد تک رعایت دی جا سکتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی جھٹلائی نہیں جا سکتی کہ پی ٹی آئی اور ن لیگی حکومت کے درمیان بعض باعث نزع معاملات پر ڈیل اور آپس میں ہو گئی ہے کیونکہ ایک طرف یہ بھی تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ گنڈا پور کو بشریٰ بی بی کی مخالفت کی سزا کے طور پر پارٹی کی صوبائی صدارت سے محروم کر دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے بانی پی ٹی آئی نے ایک طویل عرصے کے بعد میں نہ مانوں کی ضد چھوڑ کر حکومت سے مذاکرات کے لئے لچک کا مظاہرہ کیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ دوسری جانب کچھ حکومتی نمائندے اور بعض پی ٹی آئی رہنما سخت موقف اپنائے ہوئے تھے اور یہ دعویٰ کرتے سنائی دیتے تھے کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہو رہے لیکن یہ یاد رہے کہ حالات بیشک بدل گئے ہیں مگر ان گئے گزرے دنوں میں بھی پی ٹی آئی اتنی کمزور نہیں ہوئی کہ حکومت اس جماعت کے ساتھ مذاکرات کو مکمل اور یکطرفہ طور پر مسترد کر سکے۔ البتہ پی ٹی آئی کے حالیہ 26نومبر کے احتجاج کی ناکامی کے بعد اور بشریٰ بی بی اور گنڈا پور کے مابین اختلافات کے بعد گنڈا پور کی جماعت کی صوبائی سربراہی سے علیحدگی کے بانی کے احکامات کے باوصف حکومت یہ ضرور سوچ سکتی ہے کہ یہ جماعت تھوڑی کمزور ضرور ہو گئی ہے لیکن اس نے اپنی اہمیت نہیں کھوئی کیونکہ اسے اب بھی ملک گیر اور بین الاقوامی سطح پر حمایت حاصل ہے۔ لہٰذا حکومت جب تک پی ٹی آئی چاہے یقیناً مذاکرات کرے گی اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ حکومت کے حق میں نہیں ہوگا۔
اس ضمن میں یہ سوال بھی اہم ہے کہ پی ٹی آئی مذاکرات کے لئے کیسے آمادہ ہوئی؟ جس کا جواب یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی بانی اب بری طرح ٹوٹ چکے ہیں اور اپنی رہائی اور الیکشن دھاندلی پر جوڈیشل کمیشن نہ بنانے سے کم ریلیف پر بھی آمادہ ہو چکے ہیں تبھی تو ان کے چیئرمین گوہر علی خان نے قومی اسمبلی کے فلور پر خطاب کرتے ہوئے حکومتی اتحاد اور اپنی جماعت کے درمیان مسائل کے حل کے لئی مذاکراتی عمل میں شامل ہونے پر رضامندی کا اظہار کیا تھا پھر پی ٹی آئی کے بانی نے بھی مذاکرات کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی لیکن انہوں نے واضح کیا تھا کہ کمیٹی کے قیام کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ کوئی تیسری قوت اس ایوان پر قابض نہ ہو۔ حالانکہ یہ بھی ایک سیاسی ڈھونگ تھا کیونکہ وہ دراصل آمریت کے حامی ہیں اور ملک میں جمہوریت یا ملک کے مفاد کے حق میں وہ ہر گز نہیں ہیں۔ بانی نے مزید کہا تھا کہ اسے ہماری کمزوری نہ سمجھیں اور غلطیوں کا ازالہ کریں حالانکہ مذاکرات پر آمادگی بذات خود ان کی کمزوری ہی کی غماز ہے۔ جبکہ گوہر خان نے حکومت کو انہیں دوبارہ سڑکوں پر آنے پر مجبور نہ کرنے کی جھوٹی تنبیہ کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ حکومت پی ٹی آئی کے ساتھ کی گئی زیادتیوں پر معافی مانگے اور ڈی چوک اسلام آباد میں 26نومبر کے احتجاج کے دوران ہلاک ہونے والے پارٹی کارکنوں کے لئے معاوضے کا اعلان کرے۔ یاد رہے کہ یہ ان ہلاک شدگان کی بات تھی جن کے نام اور خاندان ہی آج تک سامنے نہیں آ سکے۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کی اتحادی جماعت سنی اتحاد کونسل کے سربراہ حامد رضا نے اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاس کے باہر صحافیوں کو بتایا تھا کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان جلد مذاکرات ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر حکومت نے کوئی قابل عمل پیشکش دی ہوتی تو ہم اس پر غور کرتے، ہم اب بھی کسی سنجیدہ پیشکش پر بات کرنے کے لئے تیار ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ خود اور ان کے اتحادی ملکی معاملات میں کبھی بھی سنجیدہ نہیں ہوئے۔
دوسری طرف پیپلز پارٹی کے رہنماں کا کہنا تھا کہ اگر ان کی اتحادی ن لیگ براہ راست پی ٹی آئی سے مذاکرات نہیں کرنا چاہتی تو وہ اس مقصد کے لئے ان کے درمیان پل کا کردار ادا کر سکتی ہے یعنی ن لیگ کی اتحادی پیپلز پارٹی بھی خالص جمہوری روایات پر یقین رکھتی ہے۔ ذرائع ابلاغ پر ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ پی ٹی آئی کے رہنما اسد قیصر کی قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق سے ملاقات ہوئی تھی جس میں دونوں رہنماں نے باقاعدہ مذاکرات شروع کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے ان خبروں کو سختی سے مسترد کر دیا تھا کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات ہو رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کو مذاکرات سے پہلے نو مئی اور چھبیس نومبر کے واقعات پر اپنا موقف واضح کرنا ہوگا۔ بات چیت شروع ہونے سے پہلے، پی ٹی آئی کو یہ بتانا ہوگا کہ ان واقعات کے پیچھے کون تھا۔
یعنی ایک طرف حکمران مسلم لیگ ( ن) کے بعض رہنما پی ٹی آئی کی لچکدار پالیسی کے جواب میں سخت موقف اختیار کئے رہے تو دوسری جانب ن لیگ کی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما نفیسہ شاہ کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی ہمیشہ سیاسی گفتگو کا خیر مقدم کرتی رہی ہے اور اس وقت بھی یہی کرے گی۔ انہوں نے بھی یہ کہا تھا کہ اگر مسلم لیگ (ن) کے لئے براہ راست پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات میں شامل ہونا مشکل ہے تو اس صورت میں پیپلز پارٹی یا جے یو آئی (ف) مذاکرات کو سہولت فراہم کر سکتی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت مسائل کے حل کے لئے وسیع البنیاد مذاکرات کی ضرورت ہے لیکن یہ خالص جمہوری رویہ ہے جبکہ پی ٹی آئی کا وجود ہی جمہوریت کی نفی ہے۔
عوامی اور سیاسی حلقوں میں یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ حکومت اسٹیبلشمنٹ کی منظوری کے بغیر کوئی اقدام نہیں کرتی اور اگر اسے اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے گرین سگنل نہ ملتا تو وہ پی ٹی آئی کے ساتھ صلح نہیں کر سکتی تھی کیونکہ مذاکرات سے قبل ان دونوں سیاسی طاقتوں کے درمیان صلح ہوئی تھی۔ جبکہ پی ٹی آئی کے حکومت سے دو بڑے مطالبات تھے۔ ان میں پہلا بانی پی ٹی آئی کی فوری رہائی اور دوسرا فروری کے انتخابات میں میبنہ دھاندلیوں کے خلاف ایک عدالتی کمیشن کا قیام۔ تو یہ دونوں مطالبات حکومت کے لئے تسلیم کرنا مشکل تھے۔ لیکن پی ٹی آئی نہ تو یہ مطالبات منوا سکی اور پھر صلح کے بعد مذاکرات پر بھی مجبور ہوئی اور اب قومی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے جنید اکبر بلا مقابلہ پبلک اکانٹس کمیٹی کے چیئرمین بھی منتخب ہو گئے ہیں۔ یاد رہے کہ مسلم لیگ ن کے طارق فضل چودھری نے جنید اکبر کا نام تجویز کیا تھا۔ ن لیگ کے سنیٹر افنان اللہ نے بھی جنید اکبر کے نام کی تائید کی۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب اور سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر شبلی فراز نے بھی جنید اکبر کا نام تجویز کیا۔ اس سلسلہ میں ڈاکٹر طارق فضل چودھری کا کہنا تھا کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ پی اے سی کی چیئرمین شپ اپوزیشن کو دی جائے۔ جنید اکبر کا کہنا تھا کہ حکومت اور اپوزیشن ممبران کا شکر گزار ہوں، سینئر ممبران کی رہنمائی میں ذمہ داری کو بہتر انداز میں نبھائوں گا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کی ہدایت پر پارٹی نے نامزد کیا۔ قبل ازیں، پاکستان تحریک انصاف نے پبلک اکانٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ کے لئے حکومت کو پانچ نام بھیج دیئے تھے۔ پی ٹی آئی کے چیف وہپ عامر ڈوگر نے قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے چیف وہپ طارق فضل چودھری کو خط ارسال کیا تھا، جس میں پی اے سی کی چیئرمین شپ کے لئے 5نام بھیجے گئے تھے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے بھیجے گئے ناموں میں جنید اکبر، شیخ وقاص اکرم، عمر ایوب خان، عامر ڈوگر اور خواجہ شیراز محمود کے نام شامل تھے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ مسلم لیگ ن فوج کی اشیر باد کے بغیر پی ٹی آئی کے ساتھ کسی بھی قسم کی ڈیل نہیں کر سکتی۔ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ اگر پی ٹی آئی اور حکومت کے مابین برف پگھل گئی ہے تو یہ اسٹیبلشمنٹ کی رضامندی کے ساتھ ہو رہا ہے کیونکہ امن ملک کے تمام حلقوں کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں سپیکر اس وقت دونوں جماعتوں کو قریب لانے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ بھی مکمل طور پر ان دونوں سیاسی فریقوں کے ہاتھ میں نہیں کہ وہ کیا ڈیل کرتے ہیں بلکہ یہاں بھی اسٹیبلشمنٹ کا کردار فیصلہ کرے گا کہ پی ٹی آئی کیا حاصل کر سکتی ہے اور کہاں اسے سمجھوتہ کرنا ہوگا۔ سب کچھ اسٹیبلشمنٹ پر منحصر ہے کہ وہ پی ٹی آئی کو کتنا ریلیف فراہم کرتی ہے۔ اس سلسلہ میں بانی کی رہائی ایک بڑا سوال ہے کیونکہ وہ آزاد ہو کر کبھی بھی آرام سے نہیں بیٹھیں گے اور ان کی بے سکونی ملک بھر کو بے سکون کر سکتی کیونکہ وہ انتشار پسند شخص ہیں اور موجودہ امن پسند اور محب وطن اسٹیبلشمنٹ قیادت کی موجودگی میں ان کی رہائی کا کوئی امکان نہیں۔

جواب دیں

Back to top button