Column

تبدیلی تو اب آئی ہے

تحریر : سی ایم رضوان
اس سے پہلے تو وطن عزیز میں جعلی تبدیلی کا شور اٹھتا رہا۔ اصل تبدیلی اسے کہتے ہیں کہ اب بزنس ٹائیکون ملک ریاض پر زوال سازوں کا ہاتھ پڑ گیا ہے۔ یہ چینی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ’’ علی بابا‘‘ کے ارب پتی مالک جیک ما کا مکھو ٹھپنے سے مشابہت رکھنے والی کہانی ہے۔ ملک ریاض کے گِرد گھیرا تنگ کرنے کی یہ کوشش بظاہر بڑی سادہ ہے کہ اپنے ملک یونس نامی ایک تاجر کے ہاں ٹی بوائے ہونے کے دنوں سے لے کر ارب پتی ہونے تک کے سفر میں ملکی نظام کی نبض پر ہاتھ رکھ کر ترقی کرنے والا اگر بزعم خود سسٹم کی دائی ہونے کا دعویٰ کرے تو بے جا نہ ہو گا کیونکہ اس نے ماضی قریب و بعید میں جرنیلوں سے لے کر ججوں تک اور بیوروکریٹس سے لے کر بڑے بڑے صحافیوں تک ہر دور میں سب کی خرید و فروخت کی ہے لیکن شاید موجودہ آرمی چیف اس کی اسی نوعیت کی کسی کارروائی کا شکار نہیں ہوئے تبھی تو اس کے خلاف گزشتہ روز نیب کی جانب سے انتباہی اشتہار جاری ہوا ہے۔
ہمارے ایک تاجر دوست ضیاء الرحمٰن خان کا خیال ہے کہ ہم نے تو شروع سے لے کر اب تک یہ دیکھا ہے کہ ملک کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں تاحدِ نگاہ زمین پر اپنے تعمیراتی نشان چھوڑتا، آسمان چھونے کی کوشش کرتا ہے اور جب اِسی آسمان کے ستارے گردش میں آتے ہیں تو پھر وہ والا قومی احتساب بیورو ( نیب) بھی آنکھیں دکھانے لگتا ہے جس ملک ریاض کی نگاہوں سے کسی کا کچھ پوشیدہ نہیں۔ جس نے ماضی میں نیب کے متعدد چیئرمینوں کی تعیناتی میں بھی کردار ادا کیا تھا۔ جس نے متعدد وزراء اعظم اور صدور کو بھی اپنے اعتماد میں رکھنے جیسے کارہائے نمایاں انجام دیئے ہوں اس ملک ریاض کا ماضی کچھ یوں ہے کہ بحریہ ٹان کے واسطے سے ملک ریاض کا نام سال 1996ء سے عوامی یادداشت میں انجیکٹ کیا گیا۔ شروع میں اکثر لوگ یہ سمجھتے تھے کہ یہ پاک بحریہ کی کوئی رہائشی سکیم ہے۔ پاک بحریہ نے بھی نام بدلوانے کے لئے متعدد بار قانونی چارہ جوئی کی مگر سرکاری زمینوں کی لوٹ کھسوٹ کرنے والا ملک ریاض سمندری رکھوالوں پر بھی بھاری پڑ گیا۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ بعض ریٹائرڈ جرنیل ملک ریاض کے ہاں ملازمت کرتے رہے ہیں جو کہ حاضر سروس جرنیلوں اور ججوں کو بھی ملک ریاض کے مفادات میں بروقت استعمال کر لیتے تھے۔ پھر یہ بھی کہ بینظیر سے نواز شریف تک اور پرویز مشرف سے بانی پی ٹی آئی تک جو بھی با وردی یا بلا وردی حکمران آیا، سب کو زوال آتا چلا گیا مگر ملک ریاض سال بہ سال اور دور بہ دور پھلتے پھولتے چلے گئے۔ کئی برس پہلے ملک ریاض نے اپنے ایک انٹرویو میں فرمایا تھا کہ زمین کا کام تو ہزاروں لوگ کرتے ہیں مگر میں شاید ’’ سسٹم‘‘ کو ان سے تھوڑا بہتر سمجھتا ہوں۔ فائل آگے بڑھانے کے لئے اس میں اضافی پہیے لگانے پڑتے ہیں جو میں لگائے کا ماہر ہوں۔ ملک ریاض نے کبھی بھی یہ تاثر نہیں جھٹلایا کہ اُس کے پاس ویڈیوز اور تصاویر کا سب سے بڑا نجی خزانہ
ہے بلکہ گزشتہ روز یہ بھی کہہ دیا ہے کہ ’’ میں ضبط کر رہا ہوں لیکن دل میں طوفان لئے بیٹھا ہوں۔ اگر بند ٹوٹ گیا تو پھر سب کا بھرم ٹوٹ جائے گا۔ یہ مت بھولنا کہ پچھلے پچیس، تیس سال کے سب راز ثبوتوں کے ساتھ محفوظ ہیں‘‘۔
نیب کو تو خیر اب کسی نے سوتے سے جگا کر بتایا ہے کہ ملک ریاض نے کس طرح ریاست اور اپنے منصوبوں سے جڑے لاکھوں چھوٹے بڑے سرمایہ کاروں کو ڈیل کیا اور جس کا جتنا حق بنتا تھا اسے نوازا، مگر نیب کبھی بھی اس ریاستی سسٹم کے خلاف ریفرنس فائل نہیں کرے گا جس نے ملک ریاض کو ان داتا کے درجے تک پہنچانے میں ہر طرح کی قانونی و غیر قانونی مدد فراہم کی۔ ابھی کل کی بات ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کا کون سا در تھا جو ملک ریاض کے لئے نہیں کُھل جاتا تھا۔ کون سا ایسا ریٹائرڈ افسر ہے جس نے بحریہ ٹائون کی نوکری کی آفر پر لات ماری ہو؟ 2018ء کے الیکشن کے بعد منتخب آزاد ارکان اسمبلی کو ڈھو کر اسلام آباد پہنچانے کے لئے جو دو جہاز سب سے زیادہ مشہور ہوئے اُن میں سے ایک جہانگیر ترین اور دوسرا ملک ریاض کا تھا۔ کون سا ایسا سیاستدان ہے جس نے کبھی نہ کبھی اسٹیبلشمنٹ سے رابطے کے لئے ملک ریاض کا پُل استعمال نہ کیا ہو۔ یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ میڈیا نے اس ملک میں اسٹیبلشمنٹ سے سیاستدانوں اور عدلیہ تک کسی کو نہیں چھوڑا مگر ملک ریاض یا ان کے تعمیراتی منصوبوں پر انگلی اٹھانا تو دور کی بات اس بابت سوچنا بھی نوکری دائو پر لگانے یا اربوں روپے کے اشتہارات کو ٹھوکر مارنے جیسا ہے۔ حتیٰ کہ حاضر سروس وفاقی وزرا بھی اپنی پریس کانفرنسوں میں کسی مشرقی بہو کی طرح ملک ریاض کا نام لینے کی بجائے ’’ ایک معروف کاروباری شخصیت‘‘ کا سرسری ذکر کر کے آگی بڑھ جاتے تھے اور تو اور آج تک یہی کُھل کے سامنے نہیں آ سکا کہ ماضی کے دبنگ چیف جسٹس افتخار چودھری کے صاحبزادے ارسلان افتخار کا ملک ریاض سے کیا مفاداتی رشتہ تھا۔ اس سکینڈل میں سزا و جزا کا کیا ہوا؟ ملک ریاض اور اُن کے ساتھیوں اور ادارے پر جتنے بھی مقدمات بنے وہ یا تو زیرِ سماعت ہیں یا پھر بحریہ ٹائون کے ہزاروں چھوٹے سرمایہ کاروں کے مفاد میں مالیاتی ازالے یا بیچ بچائو کے فیصلوں سے عبارت ہیں۔ ان مقدمات سے منسلک کتنے کردار گرفتار یا اندر ہیں؟ ملک ریاض کے بقول وہ سیاسی مہرہ اور سلطانی گواہ بننے سے انکار کی پاداش
میں شاہی غضب بھگت رہے ہیں۔ جبکہ نیب کا کہنا ہے کہ وہ لینڈ ڈویلپر نہیں لینڈ گریبر ہیں۔ ریاستی و نجی املاک کو اربوں روپے کا ٹیکہ لگانے کے مجرم ہیں۔ لہٰذا اگر دبئی میں بھی کوئی ملک ریاض کے پروجیکٹ میں سرمایہ لگاتا ہے تو وہ منی لانڈرنگ کا مجرم تصور ہو گا۔ اس کا ایک مطلب تو یہ بھی نکل سکتا ہے کہ جس ریاست نے اس پراجیکٹ کی اجازت دی وہ خود منی لانڈرنگ کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ تو کیا یہ وہی متحدہ عرب امارات نہیں جو سٹیٹ بینک میں تین ارب ڈالر رکھوا کر اور پھر اسے رول اوور کر کے ریاستِ پاکستان کو آئی ایم ایف کے روبرو کھڑا رہنے میں بھی مدد کرتی ہے؟ اب انتظار ہے کہ سیاست کو قابو میں رکھنے والا اسٹیبلشمنٹ کا ’’ تراشیدم، پرستیدم، شکستم‘‘ کا عشروں پرانا نسخہ ملک ریاض پر بھی کارگر ہوتا ہے کہ نہیں۔ لگتا ہے کہ اس بار گیم کچھ اور ہے۔ کچھ سیاسی، کچھ مالی، کچھ مفاداتی اور کچھ انائی۔ مک مکا ہو گیا تو خیر ہے ورنہ وہ ہو گا جسے اصل تبدیلی قرار دیا جا سکے۔ تبھی تو وزیر دفاع خواجہ آصف نے اپنے تازہ ترین بیان میں اس حوالے سے تمام تر تحفظات کو دور کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک بھر میں قائم بحریہ ٹائونز اور ملک ریاض کے اثاثوں کی قومی سطح پر تحقیقات کرنے کی ضرورت ہے، ریاست نے 25سال بعد ملک ریاض پر ہاتھ ڈال دیا ہے، اب ان کا بچنا مشکل ہے، کوئی اس خوش فہمی میں نہ رہے کہ حالات بدلنے پر ریلیف ملے گا۔ اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ غیب کا علم اللہ کے پاس ہے، لیکن ملک ریاض کو اب کسی فورم سے کسی قسم کا ریلیف نہیں ملے گا، ان کی متحدہ عرب امارات ( یو اے ای) سے پاکستان کی حوالگی کا عمل مکمل کرکے یہاں مقدمات چلائے جائیں گے، یو اے ای کے ساتھ ملزمان کی حوالگی کا معاہدہ موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ وقت گیا جب ملک ریاض پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا تھا، کوئی بھی پاکستانی ملک سے باہر بحریہ ٹان کے منصوبے میں پیسہ لگاتا ہے تو اسے بھی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا، اس کا پیسہ ڈوب جائے گا۔ انہوں نے دوٹوک پیغام دیا کہ اب جو بھی غیر قانونی کام کرے گا اس کا تعاقب کیا جائے گا، ملک ریاض کو عدالتوں سے ریلیف ملے گا نہ سیاسی دبا ڈال کر کچھ حاصل ہوگا، میڈیا جس شخص کا نام لینے کی جرات نہیں کر سکتا تھا، اب احتساب کا سلسلہ وہاں تک بھی پہنچ گیا، عوامی مسائل پر فوکس کے لئے میڈیا 10سیکنڈ کا پیغام نہیں چلاسکتا، لیکن دوسروں پر کیچڑ اچھالتا رہتا ہے، خود بہت سے میڈیا مالکان کا دامن صاف نہیں۔ وزیر دفاع نے کہا کہ ملک ریاض ایک زمانے میں کہا کرتے تھے کہ میں پاکستان سے باہر جا کر کاروبار کرنا حرام سمجھتا ہوں، یہ ان کی ایک ویڈیو ہے، جسے میں شام تک ٹوئٹر پر ڈال دوں گا، اب وہ فخر سے کہتے ہیں کہ میں نے دبئی میں آ کر بہت بڑا پراجیکٹ لانچ کیا ہے اور یہاں آکر چھا گیا ہوں۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ لوگ دولت کے لئے کس طرح اپنی باتوں سے مکر جاتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ ملک ریاض کے جرائم میں میڈیا برابر کا شریک جرم ہے، آپ کو ایک پروگرام کے دوران دو اینکر پرسنز کی بات چیت یاد ہوگی، جس ملک میں صحافی، سیاست دان اور جج خرید لئے جائیں وہاں آپ کیا امید باندھ سکتے ہیں۔ خواجہ آصف نے کہا کہ 30سال تک یہ سلسلہ چلتا رہا ہے، ایک شخص نے پورے پاکستان میں جو زمینیں خریدی ہیں، سوسائٹیوں کی منظوریاں لی ہیں، اس معاملے میں کئی پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں، ملک بھر میں بننے والے بحریہ ٹائونز کی ٹرانزیکشنز غیر قانونی ہیں، یتیموں، بیواں اور غریبوں کی زمینوں پر قبضے کیے گئے، اب وہ وقت چلا گیا جب ملک ریاض پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ملک ریاض کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں کوئی ایسا فرد نہیں جس پر انہوں نے نوازشات نہ کی ہوں، میں نے سال 97ء میں جب کہا کہ بحریہ کا نام ملک ریاض کیسے استعمال کر رہے ہیں، اور پاک بحریہ کو کیا فائدہ مل رہا ہے، تو نیول چیف نے ایک ایڈمرل کو بھیجا اور کہا کہ اس معاملے پر بات نہ کریں، مجھے اس کا کوئی جواب نہ ملا۔ وزیر دفاع نے کہا کہ جب میں نے یہ مسئلہ اٹھایا تو ملک ریاض نے مجھ تک رسائی حاصل کی اور کہا کہ سب کچھ قانونی طور پر ہو رہا ہے، میں وکیل کو آپ کے پاس بھیجتا ہوں، تو میں نے منع کر دیا کہ اس کی ضرورت نہیں، میں سارے معاملے سے آگاہ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ملک ریاض کی جو ٹوئٹ آئی تھی، اس پر اپنی بات کی تھی، صحافی حضرات پیکا پر تو احتجاج کرتے ہیں، اس بات پر بھی احتجاج کریں کہ میڈیا اداروں کے مالکان کو بزنس دینے والے آدمی کے خلاف بیانات نہیں چلائے جاتے، سیاستدان میڈیا کا سافٹ ٹارگٹ ہیں۔ خواجہ آصف نے کہا کہ میں نے کئی ٹی وی پروگرامز میں جب بھی ملک ریاض کے خلاف بات کی، اسے کاٹ دیا جاتا تھا، جب پروگرام دیکھتا تھا تو میری کہی ہوئی باتیں اس میں سے حذف کر دی جاتی تھیں، رپورٹرز میڈیا کے فرنٹ سولجرز ہیں اور میں ان کے ساتھ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں دوغلا پن جاری رہے گا تو جمہوریت کا سلسلہ اصل روح کے مطابق نہیں آ سکتا، صحافت، سیاست اور عدلیہ میں دوغلے پن کا خاتمہ ہونا چاہیے، آج کی پریس کانفرنس میں صحافی اور ان کے کیمرے بھی کم ہیں، معلوم نہیں میری بات سنائی بھی جائے گی یا نہیں، میری بات چیت کہیں سیلف سنسر شپ کی نذر نہ ہوجائے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ اس معاملے پر بھی بحث ہونی چاہیے کہ 25سال سے ایک شخص منظم انداز میں سر عام غیر قانونی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھا، تو سب خاموش کیوں رہے؟ اب دیکھنا یہ ہے کہ وفاقی وزیر موصوف کے دعوے سچ ثابت ہوتے ہیں یا تبدیلی کو پھر سے موقوف کر دیا جاتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button