بیرون ملک گدا گروں کے ڈیرے !

تحریر : شاہد ندیم احمد
گداگری انتہائی برا عمل ہے اور اس کو اسلام میں بہت برا تصور کیا گیا ہے، اس لیے اہل تقویٰ کے نزدیک کسبِ حلال سے دنیا میں عزت اور آخرت میں نجات ملتی ہے، اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہر اس شخص کو اپنا دوست رکھتی ہے، جوکہ اپنے ہاتھوں سے حلال رزق کماتا ہے، لیکن آج کل بھیک مانگنے کی لعنت ہمارے معاشرے میں ایک ایسا ناسور بن چکی ہے کہ اس کا دائرہ اندرون ملک سے بیرون ملک تک جا پہنچا ہے ، اس حوالے سے گزشتہ چند برسوں میں ایسی دل خراش خبروں کا تسلسل جاری ہے کہ کس طرح سے عرب ممالک میں پاکستانی شہریوں کو گداگری کے الزام میں گرفتار اور ڈی پورٹ کیا جارہا ہے، جو کہ جگ ہنسائی کا باعث بن رہا ہے ۔
یہ پاکستان، اسلام کے نام پر حاصل کی گئی، ایک اسلامی سلطنت کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا، یہ ایٹمی طاقت بنا، تو دنیا کی پہلی اسلامی ایٹمی قوّت کے اعزاز سے بھی جانا جانے لگا، اس کے بعد جانے کس کی نظر لگ گئی کہ اس پر پہلے دہشت گرد مُلک کا لیبل چسپا ں کیا گیا اور اب گدا گر کہا جارہا ہے ، یہ تاثر پھیلانے میں سب سے اہم کردار خُود پاکستانی حکمرانوں نے اپنے غیر محتاط بیانات سے ادا کیا ہے، کہ جنہوں نے کشکول ہاتھ میں لے کر دوست اور امیر ممالک کے دروازوں پر دستک دیتے ہوئے اپنی غربت اور مجبوریوں کا ایسا رونا رویا کہ پوری دنیا کے میڈیا کا ہی موضوع بن گیا اور رہی سہی کسر عرب ممالک پاکستانیوں کو گداگری پر دی پورٹ کر کے پوری کر رہے ہیں ۔
اس میں عرب ممالک نہیں ، پاکستانی ہی قصوروار ہیں، جو کہ حج و عمرے کا ویزا لے کر جیب تراشی اور گداگری کر رہے ہیں، عرب ممالک سے کافی عرصے سے شکایات موصول ہورہی تھیں کہ ن کی جیلیں پیشہ ور پاکستانی بھکاریوں سے بھری ہوئی ہیں، انہیں آنے سے روکا جائے، ان شکایت کی تصدیق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سمندر پار کے اجلاس میں بھی ہوئی، اس اجلاس میں شر یک وزارت اوورسیز پاکستانیوں کے سیکرٹری نے اعلیٰ حکام کے سامنے انکشاف کیا کہ مسجد الحرام اور مسجد نبویؐ کی حدود سے جو دو سو پاکستانی گداگری کرتے، جیب کاٹتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے، ان میں نوے خواتین بھی شامل ہیں ، یہ لوگ عمرہ ویزا پر گئے اور وہاں جاکر جیب تراشی اور بھیک مانگ رہے تھے، اس کو بھارتی میڈیا خوب مرچ مسالہ لگا کر پیش کرتا رہا اور پاکستان کو بھکاری برآمد کر نے والا سب سے بڑا ملک قرار دیتا رہا ہے۔
پاکستان مخالف تو موقع کی تلاش میں ہی رہتے ہیں اور انہیں جب بھی موقع ملتا ہے، اس کا بھر پور فائدہ اُٹھاتے ہیں، لیکن پاکستانی حکمران اور ادارے کیا کر رہے ہیں ؟، یہ جب پانی سر سے گزر جاتاہے تو ہوش میں آتے ہیں اور اظہار مذمت کے ساتھ نمائشی اعلانات و اقدامات کر نے لگتے ہیں، اس معاملے پر بھی ایسا ہی کچھ کیا جارہا ہے، حکو مت نے عرب ممالک میں قید پاکستانیوں کے پاسپورٹ بلاک کر نے اور ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں نام ڈالنے کا اعلان تو کر دیا ، لیکن اس کی روک تھام کا کوئی پراپر بندوبست نہیں کیا ہے ، اس کے باعث پیشہ ور لوگ تسلسل سے بیرون ملک جارہے ہیں اور اپنے ڈیرے بنا رہے ہیں، اس کے باعث متحدہ عرب امارات کے بیورو آف امیگریشن نے ایک نئی شر ط عائد کر دی ہے کہ ہنرمند پاکستانیوں کو بھی ملازمت اور ویزے کیلئے پو لیس کریکٹر سرٹیفکیٹ جمع کرانا ہو گا۔
اس وقت یو اے ای میں پندرہ لاکھ اور سعودی عرب میں چھبیس لاکھ سے زائد پاکستانی محنت کش مقیم ہیں، یہ پاکستانی سعودی عرب سے سات اشاریہ چار عرب ڈالر اور یو اے ای سے پانچ عشاریہ پانچ ارب ڈالر سالانہ ترسیلات زر ممکن بناتے ہیں، ایسے میں جب یو اے ای میں بڑے پیما نے پر تعمیراتی کام جاری ہے اور دنیا بھرکی افراد ی قوت وہاں کا رخ کر رہی ہے، پاکستانیوں کیلئے امارتی ویزے کا حصول مشکل ترین بنا نا نہایت افسوس ناک ہے، اس موقع پر حکومت پاکستان کی کوشش ہونی چاہئے تھی کہ معاملات بہتر بنا تی اور پابندیوں میں بہتری لاتی، مگر اس کے بر عکس حکومت کی سخت پابندیوں کے باوجود کچھ پاکستانی اپنی فیملی سمیت عمرہ ویزی کی آڑ میں گداگری کی غرض سے سعودی عرب اور یو اے ای جا نے کی کوشش میں ملک کے مختلف ایئر پورٹ پر پکڑے جارہے ہیں اور کچھ وہاں جا کر اپنے ڈیرے آباد کیے جارہے ہیں ۔
یہ سب کچھ ایسے ہی کب تک چلتا رہے گا اور کب تک ایسے ہی ملک کی جگ ہنسائی ہوتی رہے گی، اس کے خلاف سخت اقدامات کر نا ہوں گے اور اپنے رویئے بھی بدلنا ہوں گے ، حکمران کشکول توڑیں گے تو ہی عوام بھی گداگری سے باہر نکلیں گے، اگر اوپر ہی گداگری ہو گی تو نچلی سطح پر کیسے گدا گری روکی جاسکے گی، حکومت کو جہاں اندرون ملک اور بیرون ملک گداگری کے ڈیروں کو مکمل مسمار کر نا ہے، وہیں اپنا کشکول بھی توڑنا ہے ، اس کشکول کے ساتھ چلا جاسکے گا نہ خود انحصاری کے بغیر آگے بڑھا جاسکے گا نہ ہی گداگری کا کبھی مکمل خاتمہ کیا جاسکے گا۔