سندھ حقوق مارچ اک نئی امید کا آغاز

تحریر : خنیس الرحمان
سندھ برصغیر کا وہ خطہ تھا جہاں سب سے پہلے اسلام کی کرنیں پھوٹیں۔ راجہ داہر کا سندھ پر راج تھا۔ ہندو مذہب کے پیروکار راجہ داہر نے ہندو مذہب کے علاوہ تمام مذاہب کا جینا دوبھر کر رکھا تھا۔ بالخصوص بدھ مذہب کے پیروکاروں کے لیے اس کا رویہ ناروا اور جابرانہ تھا۔ دوسری طرف دیبل کے مقام پر بحری قزاقوں کی جانب سے لوٹی گئی خواتین میں موجود مسلمان خاتون کی دہائی حاکم عراق حجاج بن یوسف تک پہنچی۔ حجاج نے حاکم وقت ولید بن عبدالملک سے سندھ کی جانب لشکر روانہ کرنے کی منظوری لی اور ایک لشکر سندھ کی جانب روانہ کیا لیکن اس لشکر کے سپہ سالار عبیداللہ کی موت کے بعد اس نے فارس کے گورنر عمر میں کم اور اپنے بھتیجے محمد بن قاسم کو لشکر کی کمان کے ہمراہ سندھ روانہ کیا۔ محمد بن قاسم کی فن سپہ گری اور شجاعت و بہادری کا پورے خطے میں چرچا تھا۔ بارہ ہزار کا لشکر لے کر محمد بن قاسم نے سندھ پر دھاوا بولا۔ طویل اور مشکل ترین معرکے کے نتیجے میں راجہ داہر کی پسپائی ہوئی اور سندھ مسلمانوں کے ہاتھوں میں آگیا۔ راجہ داہر کی فسطائیت اور جابرانہ سلطنت کا خاتمہ ہوا اور سندھ باب الاسلام بنا۔ تقسیم پاکستان سے قبل جب پاکستان کی تحریک چلی تو سندھ وہ مقام تھا جہاں مسلم اکثریت تھی۔ قائد اعظم محمد علی جناح کا بھی سندھ سے گہرا تعلق تھا اس لیے وہ سمجھتے تھے کہ سندھ قیام پاکستان کے لیے ایک اہم حیثیت کا حامل ہوگا۔ 1938ء میں مسلم لیگ کا تاریخی اجلاس کراچی میں منعقد ہوا جس میں وہ تاریخی قرار داد منظور کی گئی تھی جس میں پاکستان کی مکمل تصویر پیش کی گئی تھی، آگے چل کر یہی قرار داد لاہور کی مشہور قرار داد پاکستان کی بنیاد بنی، اسی اجلاس میں قائد اعظمؒ نے سندھ مسلم لیگ اور سندھ کے مسلمانوں کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ صوبہ سندھ ہندوستان کے لیے ایک نمونہ ہوگا کیونکہ یہاں کے مسلمانوں نے عظیم بیداری کا ثبوت دیا ہے۔ پاکستان معرض وجود میں آیا تو سندھ کو پاکستان کا مرکز بنایا گیا۔ سندھ ملک عزیز پاکستان کا اہم صوبہ قرار پایا۔ تاریخ، ثقافت، جغرافیہ اور ترقی کے اعتبار سے نہایت اہمیت کا حامل ٹھہرا۔ قدرتی ذخائر سے مالا مال اور اقتصادی اعتبار سے کراچی میں موجود بندر گاہ نے سندھ کی اہمیت کو عالمی معاشی ترقی میں بھی تقویت ملی۔ لیکن افسوس کے ساتھ سندھ کو قیام پاکستان کے بعد سے اب تک برسر اقتدار حکمرانوں نے کھوکھلا کرنے کی کوشش کی۔ وڈیرہ شاہی اور اشرافیہ نے سندھ کے طبقاتی نظام کو تباہ کر دیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت گزشتہ سولہ سال سے سندھ پر برسراقتدار ہے۔ اس پورے دورانیے میں ان کے پاس پیش کرنے کو کوئی ایسا سیکٹر یا شعبہ نہیں جو ان کی سولہ سالہ حکومت کے حوالے سے بطور مثال پیش کیا جاسکے۔ عوامی مسائل حل کرنے کی بجائے عوام کو مسائل میں دھکیلا گیا۔ ان سولہ سالوں میں سندھ حکومت نے سندھ کو معاشی طور پر تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی یہاں تک کہ سندھ کی تاجر برادری کو اپنی حکومت سے تحفظات ہیں اور وہ شکوہ کناں ہے کہ ان کے بندھے ہاتھوں کو کھولنے میں اعلیٰ حکام ان کا ساتھ دیں۔ ہر ادارہ کرپشن زدہ ہوچکا ہے اور بیوروکریسی بھی حکومتی کارندوں کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ مین شاہراہیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ سیوریج کا ناقص انتظام سندھ انتظامیہ کی بدانتظامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ تین کروڑ کی آبادی پر مشتمل شہر کراچی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔ بدعنوانی، کرپشن زدہ عناصر ہر محکمے میں بسیرا کیے ہوئے ہیں۔ بڑے بڑے دعوئوں اور وعدوں نے سندھ کے عوام کو پریشان حال کردیا ہے۔ حیدر آباد سے سکھر تک منظور شدہ موٹر وے کا متعدد بار افتتاح کیا گیا لیکن اب تک اس کی تعمیر نو کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔ چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں نے شہر کراچی کی ساکھ کو متاثر کر رکھا ہے۔ ڈکیتیوں کے دوران مزاحمت کے بدلے میں نجانے کتنے شہری جانیں گنوا چکے ہیں، سیکڑوں ایسے واقعات ہیں کہ گھروں کے واحد کفیل نشانہ بنے لیکن سندھ حکومت کی طرف سے کوئی ایسے اقدامات نہ کیے گئے جس میں شہریوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ کئی کئی شہروں میں ڈاکو راج ہے، رات ڈھلتے سفر کرنا محال ہے۔ کچے کے علاقوں میں پورا ایک نیٹ و رک ہے جو ریاست کے اندر ریاست ہے، جو شہریوں کو اغوا کرتے ہیں، جبرو تشدد اور تاوان وصول کرتے ہیں۔ لیکن سندھ سرکار کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگ رہی۔ تعلیمی نظام بھی سندھ حکومت کی بدانتطامی کا شکار ہیں، میرٹ کی بجائے سیاسی تعلقات پر بھرتیاں کی گئی ہیں۔ سندھ میں صحت کا فقدان ہے۔ سندھ میں موجود ہسپتالوں میں سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ لاڑکانہ، میرپور خاص، سکھر سمیت کئی شہروں میں چلے جائیں یوں لگے کا کہ سرکاری ہسپتال علاج کے لیے نہیں بنائے گئے۔
پاکستان مرکزی مسلم لیگ سندھ کے صدر فیصل ندیم سندھ کی سیاست میں بہت متحرک ہیں۔ سندھ بالخصوص کراچی کے مسائل پر کئی عرصے سے آواز اٹھاتے آرہے ہیں۔ انہوں نے سندھ کے عوام کے لیے اشرافیہ کو جگانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے اپنے پارٹی رہنمائوں کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے سندھ حقوق مارچ کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے اس امر کا اعلان کیا کہ وہ سندھ کے عوام کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے اور سندھ کے عوام میں شعور بیدار کریں گے کہ ان کے اصل دشمن کون ہیں اور ان کو بے نقاب کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سندھ میں ڈاکو راج اور حکومتی بدانتطامیوں کے خلاف آواز اٹھائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ صرف مرکزی مسلم لیگ کا نہیں ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائے اور تمام سیاسی جماعتوں کو بھی مخاطب کیا کہ وہ ان کے ساتھ مل کر سندھ کے عوام کے لیے نجات دہندہ بنیں۔ انہوں نے بتایا کہ 25جنوری کو سندھ حقوق مارچ مزار قائد سے شروع ہوگا اور مختلف اضلاع سے ہوتا ہوا سکھر پہنچے گا۔ سندھ کے عوام پاکستان مرکزی مسلم لیگ کا اپنے حقوق کی جنگ میں ساتھ دیں تاکہ سندھ حقیقی معنوں نے باب الاسلام بن سکے۔